سیاست میں اخلاقیات کا مسئلہ

اخلاقیات ایک ایسا ہتھیار ہے جو اکثر غیر جمہوری قوتوں کی جانب سے جمہوری اقدار کو روکنے اور متبادل کے طور پر اپنی خدمات کو پیش کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔اس مہلک ہتھیار کے خصوصی متاثرین وہ سیاست دان ہیںجنہیں اپنا راستہ غیر جمہوری قوتوں کے بنائے گئے نام نہاد اخلاقی معیارات کو للکارے بغیربنانا پڑتا ہے ۔

جیسے ہی پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا ہے،اخلاقیات۔ کا سوال اتنی ہی شدت سے سامنے آتا ہے۔ پاناما پیپرز نے ااس بحث کو ایک اور رُخ دیا جہاں حزبِ اختلاف کی جماعتیں،حکمرانوں کے اخلاقی جواز کو نشانہ بنارہی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد حاصل کیے جا سکیں۔ دنیا بھر میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں ،طرزِ حکمرانی کے عمل میں شفافیت اور احتساب کا ایسا ہی رویہ اختیارکرتی ہیں،وہ حکومت بنانے کے لیے اُن مواقع سے فائدہ اُٹھاتی ہیں جو اخلاقی مباحث اُنہیں مہیا کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی نوعیت مختلف ہے جہاں جمہوریت کی صورتِ حال بہت نازک ہےاور ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے مسلسل دباﺅ اورخطرے کے زیرِاثررہتی ہے۔ علم سیاسیات ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے، جہاں غیر جمہوری قوتیں مداخلت کے لیے ” اخلاقی“ جواز کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں یہ قوتیں بنیادی طور پر پارلیمنٹ اور اس کے نظام کو چیلنج کرتی ہیں ۔

اخلاقیات ایک ایسی کئی دھاری تلوار ہے جس کو قابو میں رکھنے کے لیے زیادہ مہارت درکار نہیں پڑتی۔یہ کسی بھی خاص گروپ کے مفاد کو کاٹ یا للکار سکتی ہے ۔یہاں بہت سی مخالف گروہ بندیاں موجود ہیں ،جیسا کہ اخلاقیات بہ مقابلہ قانونی حیثیت ،اخلاقیات بہ مقابلہ حقوق،اخلاقیات بہ مقابلہ طرزِ حکمرانی ،اخلاقیات بہ مقابلہ احتساب ،اخلاقیات بہ مقابلہ اقدار وغیرہ۔ان سب کا انحصاراس پر ہے کہ آپ کے مقاصد کیا ہیں،تلوار کو قابو کر کے آپ کس چیز کے حصول کی توقع رکھتے ہیں۔ ان محرکات کو سمجھنا مشکل نہیں طاقت ہی اخلاقیات کی وضاحت کرتا ہے۔طاقت بذات خو د ایک اسلوب ہے جو ہر طبقے اور ہر معاملے میں مختلف ہوتا ہے۔ا شرافیہ کی طاقت جس میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہے ،مذہبی ،سماجی اور کاروباری طبقے خود اپنے دائرہ کار میں عملداری کرتے اور آپس میں مختلف قسم کے اخلاقی معیارات رکھتے ہیں ۔ان کے میدان عمل معین ہیں بعض صورتوں میں یہ گروہ ایک دوسرے کی حکمرانی کو للکارتے نہیں ہیں ،یہاں تک کہ ان کے مفادات میں تصادم ہو۔ لیکن بہت سے مذہبی مسئلوں میں ان کی بصیرت پر یقین رکھتاہے ۔

فعال جمہوریتوں میں ، عدلیہ ایک ایسا ادارہ ہے، جو اخلاقی اقدار میں مداخلت کے بغیر آئینی اور قانونی حدود کی وضاحت کرتا ہے ۔پاکستان میں عدلیہ کا مخلوط ریکارڈ ہے اور وہ عام طور پر اُن طاقتوں کو جو اختیار میں ہیں، للکارنے سے باز رہتے ہیں ۔پاکستان میں میڈیا بھی حصہ دار ہے ۔اس کا بڑا حصہ ملک میں سب سے زیادہ طاقتور کے ”اخلاقی“ معیارات کو فروغ دیناہے۔ طاقت کی اس تقسیم میں سول بیوروکریسی کا خاموش کردار ہے ۔یہ اپنے ادارے یا اشرافیہ کی حکمرانی کے مفادات کے مطابق مختلف صورتوں سے خوش اسلوبی سے نکالتاہے۔عموماََ یہ جمہوریت اور آمریت دونوں میں کامیاب رہتا ہے۔ پاکستانی سماج اپنے متوازی اخلاقی معیارات کا حامل ہے ،جس کی بنیاد روایات اور کلچر میں ہے۔سماج کے مختلف طبقات اُنہی ”اقدار“کی پیروی جاری رکھتے ہیں ،جیسا کہ ”غیرت کے نام پر قتل“سوارا اور ونی وغیرہ۔اُن کے ہاں ”اخلاقیات“کی اپنی تعریف ہے ۔

ریاست روایتی جرگہ یا پنچایتی نظام کو چیلنج نہیں کرسکتی،جہاں لوگ انصاف کے اپنے تصور کے ساتھ رہتے ہیں ،کیونکہ اقتدار اشرافیہ کے مفادات پر چوٹ نہیں کرسکتا۔ یہ سچ ہے کہ سیاستدانوں سے اخلاقی اقدار کی پاسداری کی توقع کی جا تی ہے۔لیکن پاکستان میں ان کے اس امیج (تصویر) میں یوں تحریف کی گئی ہے کہ،ان کی ”اخلاقیات “داغدار نظر آتی ہیں۔یہ ایک مشکل صورتحال ہے کیونکہ انہیں نہ صرف اپنے سیاسی عمل کو برقرار رکھنے کیلئے لڑنا پڑتا ہے بلکہ اپنی اخلاقی جواز کو بھی قائم رکھنا پڑتا ہے، خاص طور پر جب ہر کسی کیلئے انہیں نیچا دکھانا، بدعنوانی ،نااہلی اور غداری کا لیبل لگانا آسان ہو۔ وہ جو حب الوطنی اور اخلاقیات کو طاقت کے معنوں میں بیان کرتے ہیں،اور وہ جو سیاستدانوں،میڈیا،اور طاقتور اشرافیہ کے مابین اشتراک کو بطور تخریبی عامل استعمال کرنا چاہتے ہیں،ان میں سے کچھ تو خود کو اخلاقی طور پر پیش کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔عمران خان دقیانوسی ”صاف ستھرے“انسان کی ایک بہترین مثال ہے۔لیکن جب جمہوری عمل کمزور پڑتا ہے تو شخصیات سیاسی عمل پر غالب آجاتی ہیں۔جہاں عمل غیر متعلقہ بن جائے اور سیاسی پارٹیاں فرقوں میں بد ل جائیں تو شخصیات کرشماتی ادراک کے سہارے محفوظ رہتی ہیں۔

ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیک نیتی سے جمہوری نظام پر مستقل نظر رکھتی ہے۔اس دلیل کی بنیاد یہ نظریہ ہے کہ سیاسی قیادت میں ریاستی امور کو منظم کرنے کی صلاحیتوں کا فقدان ہو تا ہے ۔لیکن اس تصور کو غلط ثابت کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ سیاسی قیادت کوگنجائش فراہم نہیں کر تی۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سیاسی قوتنیں اپنی سا کھ قائم کر سکتے ہیں۔ اگرتوسیاست کا کام ہی انسانی فطرت اور معاشرتی اقدار کے مطابق مذہبی و ثقافتی اقدار کی تنظیم نو کر نا ہے۔جمہوریت کا قدرتی راستہ ہی اس کے اسلوب اور ضابطہ اخلاق کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔آخرالذکر ریاستی طاقت کے ڈھانچے کو منظم رکھتا ہے۔پارلیمنٹ وہ ادارہ ہے جو اس نظام کو درست رکھتا ہے۔سیاسی قوتیں مل کرپارلیمنٹ کے اندر یا باہر ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دے سکتی ہیں ۔دونوں صورتوں میں انہیں لوگوں کی تصدیق درکار ہوتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن )نے ایسی ہی کو شش کی، جب انہوں نے 2006ءمیں (چارٹر آف ڈیمو کریسی) میثا ق جمہوریت پر دستخط کئے تھے اور ایک سیاسی ضابطہ اخلاق پر متفق ہو ئے۔تاہم دونوں دیگر سیاسی جماعتوں کو میثاق جمہوریت میں شامل کرنے میں ناکام رہے،سچ تو یہ ہے کہ وہ خود بھی اس معاہدے پر ثابت قدم رہ نہ پائے۔ اس ناکامی کے باوجود ،ابھی بھی ایک لحاظ سے یہ سمجھا جا تا ہے کہ سیاسی مفاد مستحکم اور محفوظ ہو نا چاہئے۔لیکن یہ خیال اتنا مضبوط نہیں ہے کہ مداخلت کے خلاف ڈھال بن سکے۔


سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ پاکستان میں محض سیاستدان ہی سیاسی کردار نہیں ہیں ۔ سیاسی عدم استحکام،اسٹبلشمنٹ کے اداروں یا حزب اختلاف کی جماعتوں کے مفاد میں ہے اور نہ ہی یہ ملک کی منتقلی جمہوریت اور معیشت کے حق میں ہے۔

بہ شکریہ ڈان….ترجمہ :احمد اعجاز
کالم نگار سیاسی اور سلامتی امور پر لکتھے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے