اجتماعی خودکشی

انگریزی کا ایک محاورہ ہمیں متنبہ کرتاہے کہ خدا کسی فرد یا قوم کو تباہ کرنے سے پہلے ان کی عقل چھین لیا کرتا ہے۔ میری ناقص رائے میں پاکستان کے سیاست دانوں کے ساتھ ان دنوں کوئی ایسا ہی عمل ہورہا ہے۔ ان کی عقل قطعاََ کام کرتی دکھائی نہیں دے رہی اور غلطیوں پر غلطی کرتے ہوئے بے وقوف بالآخر تباہی کے گڑھے میں گرجائیں تو ان پر کوئی رحم نہیں آتا۔

اپریل 2016ء کی پہلی پیر، 4اپریل،سے اس ملک میں پانامہ-پانامہ کا شوربرپا ہے۔ دو قسطوں میں 500کے قریب ایسے پاکستانیوں کے نام منکشف ہوئے ہیں جنہوں نے آف شور کمپنیاں بنارکھی ہیں۔ آف شور کمپنی بنانا بذاتہی کوئی جرم نہیں۔ اس بدعت کو کسی پاکستانی نے نہیں، دُنیا کے مہذب ترین اور ترقی یافتہ ممالک کے سرمایہ داروں اور بینک کاروں نے متعارف کروایا تھا۔ ایسی ہی کمپنیوں کی وساطت سے سی آئی اے جیسے اداروں نے بعدازاں سردجنگ کے دوران اپنے حامیوں کو سرمایہ اور اسلحہ وغیرہ پہنچانے کے لئے بھی استعمال کرنا شروع کردیا۔ امریکی ریاست کی راہ پر چلتے ہوئے دُنیا کی بیشتر ریاستوں نے اپنے ’’خفیہ‘‘ دھندے چلانے کے لئے ایسی ہی کمپنیوں کو استعمال کرنا امریکہ ہی سے سیکھا ہے۔

آف شور کمپنیوں کے بارے میں اصل سوالات 80ء کی دہائی کے اواخر میں اٹھنا شروع ہوئے جب کئی آزاد منش صحافیوں نے بڑی لگن سے یہ دریافت کیا کہ منشیات کی سمگلنگ کے ذریعے بنائے بے پناہ سرمایے کو ان کمپنیوں کے ذریعے Whiteکیا جاتا ہے۔ منشیات کے دھندے سے جڑے مافیا کی نقل میں دُنیا بھر کی کئی ’’دہشت گرد‘‘ تنظیموں نے بھی ایسی ہی کمپنیوں کے لئے اپنے لئے سرمایہ اوراسلحہ جمع کرنا شروع کردیا۔ دہشت گردی کا نشانہ بنے ملک چوکنا ہوگئے اور نائن الیون کے بعد بینکاری کے نظام کو مانیٹر اور ریگولیٹ کرنے کے لئے بہت سے ایسے اقدامات لئے گئے جنہیں نام نہاد آزاد یعنی سرمایہ دارانہ تجارت کے اصولوں کے منافی سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان کی طرف لوٹتے ہوئے مجھے یاد صرف اتنا دلانا ہے کہ اگر آپ پانامہ دستاویزات کے ذریعے منکشف ہوئے اپنے ہم وطنوں کے ناموں پر غور کریں تو ان میں سے سیاستدانوں کی مجموعی تعداد 3فیصد سے بھی کم ہے۔ بے پناہ اکثریت کا تعلق ان خاندانوں سے ہے جو 60ء کی دہائی میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے برپا کئے ’’صنعتی انقلاب‘‘ کی بدولت مشہور ہوئے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے صنعتوں کو قومیانے کے بعد ان خاندانوں کو بیرون ملک جانے پر مجبور کیا۔ غیر ملکی روابط میں اضافے کی وجہ سے ان خاندانوں نے پاکستان میں اپنے دھندے چلانے اور منافع کمانے کے لئے آف شور کمپنیوں سے رجوع کرنا شروع کردیا۔ 5جولائی 1977ء کے بعد سے پاکستان میں جو بھی سیاسی یا فوجی حکومت آئی وہ ان خاندانوں کے نازنخرے اٹھاتی رہی۔ ان ہی خاندانوں کو خوش کرنے کیلئے ڈاکٹر محبوب الحق جیسے ذہین ماہرمعیشت نے کالے دھندے کو سفید کرنے کے لئے 1985ء میں بانڈز متعارف کروائے تھے۔ نواز شریف کی پہلی حکومت نے ڈالروں میں بینک اکائونٹس کھولنے کی سہولت متعارف کروائی جن میں لگائے سرمایے پر کوئی سوالات نہ اٹھانے کے وعدے ہوئے۔

سیاسی یا فوجی حکومتوں کی تمام ترکاوشوں کے باوجود ہمارے روایتی سرمایہ دار خاندانوں کے دلوں میں اعتماد کی فضاء اب بھی پیدا نہیں ہوسکی۔ ’’احتساب‘‘ وغیرہ کے نام پر ہوئے چند اقدامات بلکہ ان کے دلوں میں موجود خوف کو نہ صرف برقرار بلکہ مضبوط تر بناتے رہے ہیں۔ پاکستانی سرمایہ دار آف شور کمپنیاں کیوں بناتے ہیں؟ اس سوال پر پانامہ-پانامہ کے نام پر برپا ہوئے سیاپے کے جنون میں کوئی غور ہی نہیں کررہا۔ اپوزیشن میں جمع ہوئے سیاست دانوں کو فکر لاحق ہے تو صرف نواز شریف اور ان کے خاندان سے متعلق سرمایے اور آف شور کمپنیوں کی۔ جواب آں غزل کے طورپر حکومت کی میڈیا ٹیم روزانہ کی بنیاد پر تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے لوگوں سے جڑی کمپنیوں کا تذکرہ کئے جارہی ہے۔

اندھی نفرت میں وحشی ہوئے سیاست دان اس بات کا احساس ہی نہیں کر پارہے کہ ایک دوسرے پر گند اچھالتے ہوئے انہوں نے خلقِ خدا کو پیغام یہ دیا ہے کہ اس ملک کے تمام سیاستدان بلااستثناء ’’چور اور لٹیرے‘‘ ہیں۔ ان کو چوکوں میں اُلٹا لٹکا کر ’’قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے لئے‘‘ عسکری قیادت کو ایک بار پھر متحرک ہوجانا چاہیے۔

عسکری قیادت میں جلادصفت ’’دیدہ ور‘‘ ڈھونڈتے ہوئے ہماری قوم یہ حقیقت بھول بیٹھی ہے کہ 1958ء سے 1999ء تک اس ملک میں ایک نہیں چار فوجی حکمران آئے ہیں۔ یحییٰ خان کے علاوہ ایوب، ضیاء اور مشرف نے اوسطاََ ایک دہائی تک مکمل اختیارات کے ساتھ اس ملک پر حکمرانی کی۔ ان کے ادوار میں لیکن کرپشن ہرگز ختم نہیں ہوئی۔ اسے فروغ دینے کے بلکہ بے تحاشہ نئے طریقے ایجاد ہوئے۔ حکومتی اثر کی بنیاد پر اپنی ذات، خاندان اور چمچوں کے لئے بغیر کوئی محنت کئے کروڑوں بناکر غیر ملکوں میں جائیداد خریدنے اور کاروبار چلانے کی گھنائونی عادت سیاسی حکمرانوں نے درحقیقت مارشل لائوںکی چھتری تلے راتوں رات ارب پتی بنے لوگوں ہی سے سیکھی ہے۔ ان کا احتساب ہر صورت ہونا چاہیے مگر اس احتساب کو حقیقی صورت دینے کے لئے ضرورت ہے مؤثر قوانین کی۔ قوانین کا بلااستثناء اطلاق اس کے بعد کا ایک اور مرحلہ ہے۔

یہ سب مگر اسی صورت ممکن ہے اگر اس ملک میں اطلاعات تک رسائی کا حق عام شہریوں کو میسر رہے اور صحافیوں کو یہ آزادی کہ وہ ٹھوس اطلاعات کی بنیاد پر کرپشن سے جڑی داستانوں کو بے نقاب کرتے رہیں۔ جمہوری نظام کی عدم موجودگی میں اصل سوالات اٹھائے ہی نہیں جاسکتے۔ سوالات اٹھائے نہ جائیں تو کرپشن کے انسداد کے لئے قوانین کی ضرورت کا احساس بھی ہمارے لوگوں میںپیدا نہیں کیا جاسکتا۔

پانامہ-پانامہ والے شور نے ہمارے منتخب لوگوں کو کرپشن کے انسداد کے لئے مؤثر قوانین اور ان کے اطلاق کو یقینی بنانے کا ایک تاریخی موقعہ فراہم کیا تھا۔ ایک دوسرے پر گند کی بالٹیاں اچھالتے ہوئے ہمارے بے عقل اور سفاک سیاست دانوں نے مگر اس موقعے کو بے رحمی سے ضائع کردیا ہے۔ آف شور کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس چھپا کر دولت کے انبار لگانے والے لوگوں کی اکثریت مطمئن ہے۔ کوئی ان کا ذکر ہی نہیں کررہا۔ فی الوقت صرف سیاست دان اور وہ بھی بلااستثناء آف شور دھندے میں ملوث اور اس کا تحفظ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اجتماعی خودکشی کے سوا میں اس سارے عمل کو اور کیا نام دے سکتا ہوں؟!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے