متاثرینِ پانامہ لیکس کےنام خط

محترم متاثرینِ پانامہ لیکس ۔۔۔۔السلام علیکم!

امید ہے آج کل آپ لوگوں کی حالت خوب پتلی ہو گی۔یقین مانیں آپ جب میڈیا کے سامنے آ کر بونگیاں مارتے ہیں تو ہمیں اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے،کیوں کہ ہم نے بھی بچپن میں ایک مرتبہ کرپشن کی تھی۔ ویسے تو بچپن کی یہ باتیں ہم نے آج تک کسی کو نہیں بتائیں، حتیٰ کہ اپنی "ہوم منسٹری” کے سامنے بھی کبھی ان باتوں کا تذکرہ نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب آپ سے کیا چھپانا۔ بات یہ ہے کہ بچپن میں جب ہم دوسری تیسری جماعت میں پڑھا کرتے تو ہمارے والد صاحب کا ایک جنرل سٹور ہوا کرتا تھا۔ یہ جنرل سٹور والد صاحب نے آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد بنایا تھا۔ جس میں دال چاول کے علاوہ کھانے پینے کی ورائٹی بھی واہ واہ تھی۔ والد صاحب کا یہ معمول تھا کہ وہ نمازوں کا وقفہ کیا کرتے تھے اور یہ کوئی اتنی خاص بات نہیں اصل بات تو یہ تھی کہ وہ اس وقفے کے دوران ہمیں دکان کی حفاظت کیلئے بٹھا کر جاتے تھے۔ بس پھر ہم دکان کی ایسی حفاظت کرتے جیسے آپ لوگ قومی خزانے کی کرتے ہیں ۔ ہماری حفاظت کا عالم یہ تھا کہ ہم اپنے مطلب کی ہر چیز پر ہاتھ صاف کرتے اور جب پیٹ بھر کر گھر پہنچتے تو کوئی کھانا ہمارے اندر نہ جاتااور یوں والدہ ہمارے آئے روز خراب ہوتے معدے کو دیکھ کر پریشان ہو جاتیں اور دوائی ٹوٹکوں میں مصروف ہو جاتیں۔ہمارے دکان پر موجودگی کے اوقات میں اگر کبھی کوئی ہم جماعت دوست آ جاتاتو اس سے ڈیل بھی کر لیتے کہ” کل سائنس کے ٹیسٹ کے دوران تم ہماری مراد پوری کرنا اور ابھی ہم تمہاری مراد پوری کیے دیتے ہیں ،بولو کون سی بوتل پیو گے”؟؟

شروع شروع میں نماز کے اس وقفے کے دوران دکان پہ بیٹھنا ہمارے لئے ایک مصیبت سے کم نہ تھا اور ہمارے لئے سب سے بڑی مصیبت یہ ہوتی کہ ہمارے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت ہوتا تھا۔ دوسرا دکان میں کھانے پینے کی چیزوں کی ورائٹی اتنی زیادہ تھی کہ ہمارا بہت سا وقت یہ سوچنے میں ضائع ہو جاتا کہ پہلے کس چیز پر ہاتھ صاف کیے جائیں ۔ یہ ایک ایسی پریشانی تھی کہ جس نے ہم سے ہمارا سکون چھین لیا۔ ہمیں ڈر ہوتا کہ کہیں کھاتے پیتے والد صاحب کی واپسی کا ٹائم ہو گیا اور انہوں نے ہمیں اس حالت میں دیکھ لیا تو ہماری شامت آ جائے گی۔ بس یہی وہ پریشانی تھی جو ان دنوں ہمارے دل و دماغ پر سوار رہتی۔ گھر میں ایک روز عجیب کام ہوا کہ والد صاحب ہمیں حساب کا سوال حل کرنے کو دے کر خود کہیں باہر چلے گئے۔اسی دوران ہمارے ذہن میں اپنی پریشانی کے حوالے سے ایک ایسا آئیڈیا آیا کہ ہم جھوم کے رہ گئے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ آئندہ ظہر کے وقفے میں ہم وقت بھی ضائع نہیں کریں گے اور پسند کی چیزوں کی بھی خوب خیر خبرلیں گے۔ لیکن یہ سب ہو گا ایک ٹائم ٹیبل کے تحت۔۔۔۔ چنانچہ ہم نے فوراً کاپی کاایک صفحہ پھاڑا اور اس پر اپنا مینیو لکھنا شروع کر دیا۔ یقین مانیں جس دن سے ہم نے کھانے پینے کا مینیو بنایا ، ہماری زندگی ہی بدل گئی۔اسی مینیو کی رہنمائی میں بڑے مزے سے ہم اپنے شب و روز بتا رہے تھے کہ اچانک ایک روز ہماری کم بختی آ گئی۔

ہوا یوں کہ ہماری دکان کی گھڑی خراب ہو گئی اور جیسے ہی اس گھڑی کے مطابق دن کا ایک بجا ، والد صاحب نے حسبِ معمول ہمیں دکان میں بٹھایا اور خود نماز پڑھنے چلے گئے ۔ ہم بھی ان کے نظروں سے اوجھل ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ ادھر یہ نظروں سے اوجھل ہوئے اور ادھر ہم کرسی سے چھلانگ مار کے اترے جیب سے ٹائم ٹیبل والی پرچی نکالی اورآج کا مینیو دیکھنے لگے۔ مینیو کے مطابق آج ہم نے کارنیٹو کی آئسکریم کھانی تھی اور بوتل میں آج مرنڈا کا نمبر تھا۔ ہم نے فریزر کھولا آئسکریم نکالی اوربڑے فاتحانہ وشاہانہ انداز میں آ کر والد صاحب کی کرسی پر براجمان ہوگئے۔آئسکریم کھانے کے بعد ہم نے نمکو کا بڑا پیکٹ اٹھا یا ، کولڈ ڈرنک نکالی اور اسے پینا شروع کر دیا۔ یہ منظر آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے ہم ٹانگوں پر ٹانگ رکھے والد صاحب کی طرح بیٹھے تھے۔ مٹھی بھر نمکو منہ میں ڈالتے اور ساتھ کولڈ ڈرنک کا گھونٹ لگاتے۔ابھی تو آئسکریم کا خالی ریپر بھی ہمارے سامنے ہی تھا کہ اوپر سے والد صاحب آ گئے۔ ہماری سب ٹھاٹھ باٹھ وہیں کی وہیں رہ گئی اور گویا سانپ سونگھ گیا ۔والد صاحب کو کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہ تھی سب کچھ ان کے سامنے تھا۔ ہم مجرموں کی طرح ان کے سامنے کھڑے تھر تھر کانپ رہے تھے اور وہ ٹکٹکی باندھے ہمیں گھورے جا رہے تھے۔ ان کی نظریں ہمیں سوئی کی طرح چبھ رہی تھیں اور ہم دل ہی دل میں کہہ رہے تھے کہ کاش !والد صاحب ہمیں مار مار کر ادھ موا کر دیں لیکن یوں نہ دیکھیں ۔کافی دیر گزر نے کے بعد والدصاحب کی زبان حرکت میں آئی اور وہ سمجھانے کے انداز میں کہنے لگے” بیٹا ! یہ دکان اور اس میں موجود سامان سب تمہارا ہی ہے،یہی سب چیزیں اگر تم مجھ سے مانگ کر کھا لیتے تو کیا میں تمہیں منع کر دیتا”؟ پھر تھوڑی دیر بعد بولے ” میں پوری زندگی ایسے کھانے سے خود بھی بچا اور تم سب کو بھی بچایا لیکن پتہ نہیں میرے سے کون سا گناہ ہو گیا ہے جس کی آج مجھے یہ سزا مل رہی ہے”۔
والد صاحب کی آواز میں ایسا درد تھا کہ جس نے سیدھا میرے دل پہ آ کے دستک دی ۔مجھے یوں لگا جیسے والد صاحب نے اپنا دل چیر کے میرے سامنے رکھ دیا ہو۔ میں نے نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا تو میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی اور میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں ابھی کا ابھی اور یہیں کا یہیں مر جاؤں کیوں کہ یہ منظر ہی ایسا تھا۔والد صاحب کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ کر کے گر رہے تھے۔اللہ کی قسم !ان آنسوؤں میں اتنی طاقت تھی کہ آج بیس سال گزر نے کے بعد بھی میں اپنے اندر غلط مال یا لقمہ کھانے کا حوصلہ نہیں پیدا کر سکا۔

محترم متاثرینِ پانامہ!
کاش کوئی آپ کو بھی سمجھانے والا ہوتا کہ پاکستان آپ ہی کا گھر ہے اوریہ قومی خزانہ آپ ہی کا خزانہ ہے ۔ اسے آپ نے چوری نہیں کرنا بلکہ گھر کا نظام چلانے میں استعمال کرنا ہے۔ لیکن آپ کبھی پاکستان کو اپنا گھر سمجھیں تو تب ہو نا یہ سب۔۔۔۔کاش ۔۔کاش۔۔۔کاش

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے