نواز شریف اور فیصلہ کن جنگ

1990 میں صدر غلام اسحاق خان نے اپنے صدارتی اختیار 58 ٹو بی کو استعمال کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کر دیا۔ نواز شریف نے صدر کے اس اقدام کا بھرپور انداز میں خیر مقدم کیا۔

1993 میں صدر غلام اسحاق خان نے اپنے اسی اختیار کو دوبارہ استعمال کرتے ہوئے کرپشن کے الزمات کے تحت ہی نواز شریف کی حکومت ہٹانے اور اسمبلیاں توڑنے کا حکم جاری کیا تو نواز شریف نے صدر کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا۔

نواز شریف نے صدر کے اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا اور سپریم کورٹ نے 26 مئی 1993 کو اپنا ایک انتہائی متنازع فیصلہ سنایا جس میں وضاحت کی کہ کرپشن اور بیڈ گورننس سے آئین شکنی نہیں ہوتی لہذا صدر مذکورہ صورتوں میں اسمبلیاں نہیں توڑ سکتے۔
ایوان صدر اور نواز شریف کے درمیان تنازع جاری رہا جس پر باالآخر پاک فوج نے مداخلت کی اور دونوں سےا ستعفی لے کر معاملہ ختم کر دیا۔

1997 میں نواز شریف دوسری بار ملک کے وزیراعظم بنے تو اس نے فوری طور پر 14ویں آئینی ترمیم کرتے ہوئے صدر کی اسمبلیاں توڑنے کا اختیار ختم کر دیا۔ اس آئینی ترمیم کے بعد وزیراعظم کسی کے سامنے جوابدہ نہ رہے۔ نواز شریف نے مزکورہ آئینی ترمیم میں ایسی شقیں ڈالیں جس کے بعد پارلمنٹ بھی اس کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہ رہی۔ کچھ اراکین پارلیمنٹ نے اس آئینی تریم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی تو نواز شریف سخت طیش میں آگئے اور کھل کر سپریم کورٹ پر تنقید کی۔ جب پر سپریم کورٹ نے ان کو توہین عدالت کا نوٹس بھیجا۔

حاالت خراب ہوتے دیکھ کر صدر پاکستان اور پاک فوج کے اس وقت کے سربراہ نواز شریف کو سمجھانے آئے اور درخواست کی کہ اس معاملے کو اچھے طریقے سے حل کریں۔ نواز شریف نے ضد کی کہ ” چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو اپنا عہدہ چھوڑنا ہوگا” ۔ ساتھ ہی نہایت جارحانہ انداز میں نہ صرف سپریم کورٹ میں اپنے مرضی کے ججز تعینات کرنے شروع کر دئیے بلکہ جسٹس سجاد علی شاہ کے قریب سمجھے جانے والے ججوں کی تنزلی بھی کر دی۔ جن ججوں کی تنزلی ہوئی انہوں نےنواز شریف کے اس حکم کے خلاف کوئٹہ ھائی کورٹ میں اپیل کر دی اور بہت سے ججز چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔

اسی دوران پشاور ھائی کورٹ سے ان دو ججز کی معزولی کا حکم آگیا جنکی تنزلی ہوئی تھی اورپشاور ھائی کورٹ کے چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے خود کو سپریم کورٹ کا عبوری چیف جسٹس قرار دےد یا۔ تاہم چیف جسٹس سجاد علی شاہ اپنی کرسی پر موجود رہے اور نواز شریف کے خلاف کیس کی سماعت جاری رکھی جس پر 30 نومبر 1997 کو عین اس وقت جب کیس کی سماعت جاری تھی نواز شریف کے کیبنٹ کے وزراء اور بہت بڑی تعداد میں پارٹی اراکین نے سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا اور عدالتی کاروائی روک دی۔

چیف جسٹس نے پاک فوج سے مدد طلب کرتے ہوئے فورا 14 ویں آئینی ترمیم کو منسوخ کر دیا اور صدر کے اختیارات بحال کر دئیے۔ پاک فوج نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس کا یہ حکم ماننے سے معذوری ظاہر کی۔ نواز شریف نے فوری طور پر صدر فاروق لغاری کو استعفی دینے پر مجبور کر دیا اور وسیم سجاد کو عبوری صدر مقرر کرتے ہوئے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو برطرف کر دیا۔ یوں نہ صرف اپنی مرضی کا صدر مقرر کیا بلکہ سپریم کورٹ میں بھی اپنی مرضی کے ججز تعینات کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

جنرل جہانگیر کرامت جنرل وحید کاکڑ کی جگہ نئے چیف آف آرمی سٹاف مقرر ہوئے۔ انکی مدت ملازمت جنوری 1999 میں ختم ہونی تھی۔ لیکن نیشنل سیکورٹی کاؤنسل میں پاک فوج کا نمائندہ شامل کرنے کی تجویز پر نواز شریف نے غضب ناک ہو کر اکتوبر 1998 میں جنرل جہانگیر کرامت سے زبردستی استعفی لے لیا۔ پھر کئی جنرلز کی سینیارٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے پرویز مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا۔ پاک فوج نے نواز شریف کے اس فیصلے کو خاموشی سے برداشت کر لیا۔

لیکن کارگل جنگ میں پسپائی کے فیصلے کے بعد پاک فوج اور نواز شریف میں موجود سرد مہری نے باقاعدہ اختلافات کی شکل اختیار کر لی۔ نواز شریف کے اس فیصلے نے ایک جیتی ہوئی جنگ ہروا دی۔ اسی سال 1999 میں نواز شریف نے پاک فوج کے ان جوانوں کی لاشیں قبول کرنے کے انکار کر دیا جو افغان جنگ میں طالبان کا ساتھ دیتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ اس پر پورے ملک خاص کر پاکستان کے مغربی علاقوں میں پرزور احتجاج ہوا۔ نواز شریف نے دباؤ میں آکر وہ لاشیں قبول کر لیں لیکن ساتھ ہی حکم جاری کیا کہ پاک فوج ملا عمر کی امداد بند کر دے۔ پرویز مشرف نے نواز شریف کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور ملا عمر کی امداد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ پاک فوج کے ساتھ معاملات مزید خراب گئے۔

اگست 1999 میں دو انڈین ائر کرافٹس نے پاکستانی نیوی جہاز مار گرایا جس میں نیوی کے 16افیسرز شہید ہوگئے۔ نواز شریف نے معاملے کو نظر انداز کر دیا۔ اپنے وزیراعظم کی اس بے حسی نے نیوی پر بہت برا اثر ڈاال اور اس وقت کے نیوی ایڈمرل عبد العزیز مرزا بھی نواز شریف کے خلاف ہوگئے۔

پاک فوج پر قابو پانے کے لیے نواز شریف نے 12 اکتوبر 1999 کو اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف کو برطرف کر کے ان کی جگہ پر اپنے وفادار جنرل ضیاالدین بٹ کو لگانے کی کوشش کی۔ اس وقت جنرل مشرف سری لنکا دورے سے واپسی پر تھے اور انکا جہاز ہوا میں تھا۔ نواز شریف نے حکم جاری کیا کہ کراچی ائر پورٹ مذکورہ جہاز کے لیے سیل کر دیا جائے۔ لینڈنگ کی صورت میں اس وقت کے آئی جی سندھ کو آرمی چیف کو گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا۔

جہاز کے کیپٹن نے ری فیولنگ کے لیے نواب شاہ ائرپورٹ پر اترنے کی اجازت مانگی تو نواز شریف نے حکم جاری کیا کہ یہ ری فیولنگ انڈیا میں کروائی جائے۔ یوں پاکستان کے حاضر سروس چیف آف آرمی سٹاف کو انڈیا بھیجنے تک پر تیار ہوگئے۔
پاک فوج کے ساتھ جاری اس خطرناک کھیل پر باالاخر پاک فوج کے کئی اعلی جرنیلوں نے بغاوت
کردی اور نہ صرف جنرل ضیاالدین بٹ کو گرفتار کر لیا بلکہ ملک کی کئی اہم عمارات کا کنٹرول
بھی سنبھال لیا اور جہاز کو نواب شاہ ائر پورٹ پر اترنے کا حکم دے دیا۔ جس کے بعد پرویز مشرف
نے پورے ملک میں مارشل لاءنافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔
یہ نواز شریف کو وہ ماضی ہے جس کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ اقتدار کی ھوس میں وہ اپنے ہی ملک کے
ریاستی اداروں کے خالف مسلسل برسرپیکار رہے اور ہر حد عبور کر لی۔
نواز شریف کی یہ ھوسناک جنگ آج بھی جاری ہے جسکا مشاہدہ اس وقت پوری قوم کر رہی ہے۔ تاہم
یہ جنگ لڑنے کے لیے اس کے پاس جھوٹ، مکر، چالبازی، فریب اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ امید ہے کہ اس بار یہ جنگ فیصلہ کن ہوگی !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے