چند خواتین رپورٹرز اور سینکڑوں مرد صحافی

کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے

آج کل کے دور میں کوئی بھی شخص بہترین نہیں ہے ہم خود سمیت کسی کو بھی پرفیکٹ نہیں کہ سکتے ، لیکن مرد میں ایک عزت نفس ا ور انا کا کچھ نہ کچھ ہونا بہت ضروری ہے ، میں اپنے گریبان میں جھانکنے کے بعد ہی یہ تحریر لکھ رہا ہوں ، اسلام آباد کی خواتین رپورٹرز کتنی ہوں گی ، ہر ٹی وی چینل کی دو یا تین ، اور چند اخبارات کی کچھ ، سب ملا کر میرا خیال ہے بیس پچیس رپورٹرز کر لیتے ہیں ، ان بیچاری بیس پچیس خواتین رپورٹرز کا اس وقت صرف ایک مقصد ہے کہ کسی طرح اچھی رپورٹرز بن جائیں اپنے مستقبل کے لیے کوئی بہتر زریعہ معاش بھی بنا لیں اور اپنا نام بھی بنا لیں تاکہ ہمیں بھی فیلڈ میں بہترین صحافی کے طور پر جانا جائے ، ان کے پاس اس وقت صرف دو ہی آپشن ہیں ، ایک یہ آپشن کے یہ بھی اپنے سینئرز اور دوسرے صحافیوں کے ساتھ فرینڈ شپ کر لیں ان کے ساتھ باہر جانا شروع کر دیں ، کافی اور چائے کی دعوتیں قبول کرنا شروع کر دیں ، یا پھر دوسرا آپشن کہ اپنی فیلڈ اور بیٹ میں پاگلوں کی طرح محنت کریں سورس بناتی رہیں اور رپورٹنگ کرتی رہیں اور قسمت پر چھوڑ دیں کہ وہ کب اور کیسے اچھی شہرت کی بہترین صحافی بن سکیں ، جنہیں لوگ عزت کے ساتھ وہ مقام دیں جو ہر کوئی اپنے خاندان کی عورتوں کو دیتا ہے ۔

یہ چند رپورٹرز کو اس وقت کیا مسائل کا سامنا ہے یہ پڑھ کر آپ سب حیران ہو جائیں گے آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کیسے کیسے لوگ کیسے کیسے موبائل پر میسج کر سکتے ہیں، دل تو میرا یہ کر رہا تھا کہ یہ تمام میسج سکرین شاٹ کے ساتھ شائع کیے جائیں ، لیکن پھر ایک اور پروگرام بنایا کہ فیس بک پر ایک پیج بنایا جائے جس پر جس خاتون کو بھی جو فیلڈ کا رپورٹر، کیمرہ مین ، چیف رپورٹر، بیوروچیف ، اینکر یا سیاستدان جو میسج کرتا ہے وہ اس کے سکرین شارٹ اس پر شائع کیے جائیں تاکہ پھر شاید کچھ انہیں شرم و حیا بھی آئے ،
ایک خاتون رپورٹر جس نے اپنے سب بیٹ رپورٹرز کے ساتھ رابطے میں رہنا ہوتا ہے ان کے ساتھ موبائل پر وٹس ایپ پر ہر وقت رابطے میں رہتی ہے تاکہ وہ بھی کوئی خبر مس نہ کر سکے ، اسی طرح وہ اپنے آفس کے گروپس میں بھی متحرک رہتی ہے ، وہ ایک پروفائل تصویر تبدیل کرتی ہے تو وہ وہ لوگ اس پر ایسے ایسے کمنٹ کرتے ہیں کہ اس بیچاری کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں ، اور تو اور کچھ خواتین رپورٹرز کو تو کئی سینئر رپورٹرز اور دیگر سینئر صحافی مشہور صحافی غیر اخلاقی تصاویر بھی بھیج دیتے ہیں ۔

اس کے علاوہ کوئی بھی خاتون رپورٹر ہو اس کو جس بھی دوسرے مرد صحافی سے واسطہ پڑتا ہے سب سے پہلے اس کو باہر اکیلے ملنے کا کہا جاتا ہے پھر اس کے بعد اس کو فوری طور پر مری جانے عیاشی کرنے کی آفر دی جاتی ہے ، پھر رہی سہی کسر ہمارے محترم سینئر صحافی حضرات رات کو نشے میں دھت ہو کر شراب تک کی آفرز کرتے ہیں فلیٹوں میں جانے اور ہر طرح کی آفرز کی جاتی ہیں ،

ایک خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ وہ اس قدر تنگ ہو گئی ہے کہ اس کے پاس اس وقت کوئی بھی آپشن نہیں ہے ، اگر وہ ان سینئر صحافیوں کے ساتھ بگاڑ لے ان کو شٹ اپ کال دیدے تو وہ ایک تو دن رات کام کرنے میں لگی رہے گی اس کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی بلکہ اس کی ڈبل ڈیوٹیاں اور دور دراز ایونٹ پر ڈیوٹی لگا دی جائے گی ، اور دفتر سے ہٹ کر جو سینئر صحافی ہیں جو کبھی خبر یا کوئی نمبر لینا ہو تو جو مدد حاصل ہو سکتی ہے اس سے ہاتھ دھو بیٹھے گی ، وہ اس وقت کیا کرے اسی کشمکش میں ہی رہتی ہے ۔

ایک محترم اور سینئر صحافی اپنی پرانی کولیگ کو یہ پیغام موبائل پر بھیجتے ہیں کہ تم ابھی رپورٹر ہو تمہیں اگر اچھا اور مشہور اینکر بننا ہے تو تم اپنے Hipps کم کر و اس کے لیے ، اب یہ سمجھ نہیں آتی کہ ایک اینکر کے لیے یہ کون سی شرط ہے کہ جس کے بعد وہ صحیح خبریں پڑھ سکتی ہے ۔

شرم آتی ہے ہمارے اپنے دوست ساتھی صحافیوں کے اس طرح کے رویے سے ، ہمیں بجائے اس کے کہ انہیں سپورٹ کرنی چاہیے کہ وہ خواتین ہو کر بھی اس طرح فیلڈ میں کام کر رہی ہیں ، ان کا حوصلہ بڑھانا چاہیے ان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے ، اور یہ کتنی رپورٹرز ہیں بیس پچیس بس ؟ ان کا پیچھا چھوڑ دیں اگر اور ہزاروں لاکھوں لڑکیاں ہیں ان بیچاریوں کا کیا قصور ہے کہ یہ مجبور ہیں انہیں صحافت کا شوق ہے اور بہت جلدی انہیں کوئی بہت بڑا پلیٹ فارم نہیں مل سکا ْ ؟ بس یہ قصور ہے ان کا ؟

پارلیمنٹ کی بیٹ کرنے والی خواتین کا یہ شکوہ ہے کہ وہاں پر وہ دو چار رپورٹرز گیٹ پر ڈیوٹی دیتی ہیں اور کم از کم صرف ان تین چار رپورٹرز پر کم از کم پچیس تیس کیمرہ میں اور پندرہ بیس مرد رپورٹرز کی نظریں ہوتی ہیں وہ کام کرنے کی بجائے خود کو ان کی نظروں سے بچاتی رہتی ہیں ان حالات میں اگر کہیں کوئی میڈیا ٹاک ہو جائے تو پھر تو ان کے لیے کام عذاب سے کم نہیں ، یہی حال پی ٹی آئی کی بیٹ رپورٹرز کا ہے عمران خان کے گھر کے باہر ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے ۔

ہم سب صحافی دوستوں کو کم از کم اس طرح کے حالات میں ان چند خواتین رپورٹرز کا خیال رکھنا چاہیے ، بلکہ ان کو بہتر سے بہتر مواقع فراہم کیا جائے تاکہ وہ بہترین اور مناسب ماحول میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر سکیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے