شیخ حسینہ یا قاتل حسینہ

شیخ حسینہ کی سیاست پر روشنی ڈالنے سے پہلے اُنکے والد شیخ مجیب الرحمان کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اُنکے دور حکومت میں بنگلہ دیشی عوام کو اُنکی پالیسیوں سے کتنا فائدہ ہوا ؟ اورآگے چل کر شیخ حسینہ کی سیاست پر روشنی ڈا لیں گے کہ کیا وُہ اپنے والد کے نقش قدم پر چل رہی ہیں یا انکا ایجنڈا کوئی اور ہے؟ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے اس وقت کے امیر جماعت اسلامی پروفیسر غلام اعظم کی شہریت منسوخ کر دی اور جماعت کے کچھ رہنماء اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ پرفیسر غلام اعظم کے حوالے سے ممتاز صحافی جناب حامد میر صاحب کا خیال ہے کہ 1971 ء میں فوجی آپریشن سے قبل جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے امیر پروفیسر غلام اعظم و اضح الفاظ میں اقتدار اکثریتی جماعت عوامی لیگ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کی مجلس شورٰی نے طویل بحث و مباحثے کے بعد یہ فیصلہ کیاکہ اگر پاکستان کا وفاق قائم نہ رہا تو جماعت اسلامی مسلح جدوجہد کے ذریعہ آزادی حاصل کرنے کی بجائے آئینی علیحدگی کو ترجیح دے گی۔

جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے کارکنان البدر اور الشمس میں شامل ہو گئے اور پاکستانی فوج کے ساتھ ملکرمکتی باہنی کا بھرپور مقابلہ کیا۔ یہی وجہ تھی شیخ مجیب نے اقتدار سنبھالتے ہی جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دے دیا۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کیلئے یہ لمحہ کسی اذیت سے کم نہیں تھا بالآخر 1974ء کو سہہ فریقی سمجھوتے پر ستخط ہوئے جس میں بنگلہ دیش کی طرف سے ڈاکٹر کمال حسین ، پاکستان کی طرف سے وزیر مملکت برائے امور خارجہ عزیر احمد اور بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ شامل ہوئے۔ اس سمجھوتے کے تحت پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے کے ہاں پھنسے ہوئے شہریوں کی آبادکاری اور واپسی پر رضامندنظر آئے اس سمجھوتے میں یہ بھی طے پایاکہ بنگلہ دیش ماضی کی تلخیوں کو نظر اندز کرنے سمیت 195 پاکستانی فوجی افسران پر انسانی سوز جرائم کی پا داش میں جنگی جرائم کے ٹر یبونل میں مقدمہ نہیں چلائے گااور 1973 ء میں اسی حوالے سے خصوصی ٹریبونل قائم کیا گیااسے توڑ دیا جائے ۔ یہ وہ موقع تھاجب شیخ مجیب الرحمن نے اس خواہش کا اظہار کیاکہ ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرتے ہوئے ایک نئے سفر کا آغار کیا جائے پھر وہ وقت آیا جب اس سہہ فریقی سمجھوتے کے تحت 195 جنگی قیدیوں کی راہ ہموار ہو گئی ۔

شیخ مجیب ا لر حمان کیلئے مشکلات نے اس وقت جنم لیا جب انھوں نے اپنی پارٹی کا نام کرشک عوامی پارٹی رکھا۔ بھارت نواز پالیسیوں اور غریبوں کے روز بروز بڑھتے ہوئے مسائل کے سبب انکے خلاف عوام میں شدید غم و غصہ ابھر کر سامنے آیا بالآخر فوج کے نوجوان افسروں نے انکے خلاف بغاوت کر دی اور 15 اگست 1975 کو اپنے دھان منڈی والے مکان میں اہل و عیال سمیت قتل کر دیئے گئے شیخ حسینہ وہاں موجود نہ ہونے کی صورت میں بچ نکلی اس غیر یقینی کیفیت کے بعد جنرل ضیاء الرحمن نئے سربراہ مملکت کے طور پر سامنے آئے اور جنرل ضیاء الرحمن کی حکومت نے آتے ہی جماعت اسلامی اور اسکی ذیلی تنظیموں کی رکنیت بحال کر دی اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش ایک بار پھر سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی جنرل ضیاء الرحمن کے قتل کے بعد جنرل حسین محمد ارشاد کی فوجی آمریت کے خلاف ملک کی بڑی سیاسی پارٹیاں بشمول خالدہ ضیاء، شیخ حسینہ اور جماعت اسلامی نے مشتر کہ تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں جنرل حسین کی آمریت ختم ہوئی۔1991ء کے عام انتخاب میں خالدہ ضیاء کی حکومت قائم ہوئی اور جماعت اسلامی 18 نشستوں کے ساتھ اتحادی کے طور پر نظر آئی حالانکہ اس انتخابات میں شیخ حسینہ نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل علی احسن مجاہد کو پیغام دیا تھا کہ ہم غلام اعظم کو وزیر بنانے کیلئے تیار ہیں لیکن شیخ حسینہ کی یہ کوشش رائیگاں گئی پھر 1996ئکے عام انتخابات میں شیخ حسینہ کو 20سال بعد کامیابی ملی اور جماعت اسلامی اسکی اتحادی حکومت کے طور پر شامل ہوئی۔

2001 کے عام انتخابات میں ایک بار پھر خالدہ ضیاء کی حکومت آئی اور جماعت اسلامی 17 نشستوں کے ساتھ اسکے اتحاد میں دوبارہ شامل ہو گئی خالدہ ضیاء کی حکومت میں صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف صاحب ڈھاکہ تشریف لے گئے اور انکو یادگارشہدا پر لے جایا گیا جہاں مہمانوں کے تاثرات کیلئے رکھی گئی کتاب میں 1971 ء کے واقعات پر معذرت کی۔2009ء کے عام انتخابات میں شیخ حسینہ نے 1971 ء کے جنگی مجرموں کے احتساب کا نعرہ لگایا اسی انتخابات میں انکی جماعت دوتہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اور2010 میں 1971 ء کے جنگی جرائم کے حوالے سے عدالتی کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ وار کرائمز ٹریبونلز قانون کو ترمیم کے ذریعے دوبارہ بحال کر دیا گیا شروع میں تو پذیرائی ملی لیکن پھر انصاف کے بین الاقوامی تقاضوں اور انتقامی سیاست کی بوآنے لگی اور2013 میں جماعت اسلامی کو ایک بار پھر کالعدم قرار دے دیا گیا اور سزاؤں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں خالدہ ضیاء کی پارٹی کے رہنما محمد قیصر اور صلاح الدین قادرسمیت جماعت اسلامی کے بزرگ رہنماؤں کو پھانسی کی سزا بھگتنا پڑی یہی وجہ ہے شیخ حسینہ کی نام نہاد اس عدالت کے حوالے سے اب سوالات پیداہورہے ہیں۔

1۔ 1996 کے سیاسی اتحادی2016 میں جنگی مجرم کیوں؟
2۔ جنرل حسین محمد ارشاد کی آمریت میں سیاسی اتحادی اور اب جنگی جرائم کے مجرم کیوں؟
3۔1974 کے سہہ فریقی سمجھوتے کی سنگین خلاف ورزی ہے؟
4۔ یہ واحد عدالت ہے جس میں سنی سنائی گواہی کو بھی شہادت کے طورپے تسلیم کیا جاتا ہے۔
5۔ آزاردی اور غیر جانبدارعدالتی کاروائی اور انسانی حقوق کو یکسر پامال کیا گیا؟
6۔ اس بین الاقوامی عدالت میں ججز، تفتیش کار اور وکلا سمیت تمام تر عملہ بنگلہ دیشی ہے۔
جبکہ انٹرنیشنل آبزرور اور میڈیا کو کاروائی دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
7۔ انسانی حقوق کی کئی عالمی تنظیمیں وارکرائمز ٹریبونل کی سزاؤں پر اعتراضات کر چکی ہے
8۔ مطیع الرحمان کی سزا موت کے خلاف اپیل خارج کرنے سے ایک دن پہلے بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سرندرا کمارہیں جن کا تعلق ہندومذہب سے ہے جنہوں نے مطیع الرحمان کی سزا موت سے ایک دن پہلے بھارتی ہائی کمیشنر سے ڈھاکہ میں ملاقات کی جس کی تصدیق سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے کی ۔


ملاقات سے پہلے چیف جسٹس نے مطیع الرحمان کی سزاموت کے حوالے سے مقدمہ میں پیش کئے گئے ثبوتوں کو ناکافی قرار دیا مگر بعد میں یہ کہہ کر کہ پاکستان کا ساتھ دینا ہی کافی ہے۔مطیع الرحمن کو سزائے موت سنادی گئی۔

شیخ حسینہ کے اس اقدام کے بعد شدت پسندی کے رجحان کو دن بدن تقویت مل رہی ہے ۔شیخ حسینہ کی انڈیا نواز پالیسی کے پیچھے نندرا مودی کا گذشتہ سال بنگلہ دیش کا دورہ تھا جس میں اُنھوں نے مکتی باہنی کے حوالے سے ذکر کیا کہ کس طرح بنگلہ دیش کو پاکستان سے علیحدہ کیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان نے بنگلہ دیش سے اپنے تعلقات کیوں ٹھیک نہیں کیے جسکا فائدہ مودی سرکار لے رہی ہے کیا یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں ہے؟ اور دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے مطیع الرحمان کی سزا موت پر ترکی نے بنگلہ دیش سے اپنا سفیر واپس بلا لیالیکن افسوس حکومت پاکستان کو اتنی ہمت نہ ہوئی کہ وُہ بنگلہ دیش سے اپنا سفیر ہی واپس بلا لیتی ۔شیخ حسینہ کو چاہیے کہ وہ انڈیا کی محبت میں اپنے سیاسی حریفوں پر اتنا ظلم کی انتہا نہ کرے کہ کل کو اپنے والد شیخ مجیب الرحمان کی طرح اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے ۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اس مسئلہ کو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذریعے سے سزاموت کے سلسلہ کونہ صرف رُکوایا جائے بلکہ شیخ حسینہ کے مقاصد کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے کہ کیا یہ شیخ حسینہ ہے یا قاتل حسینہ۔۔۔فیصلہ آپکا۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے