بول کی بندش کا ایک سال اور ہمارے خواب

یہ تقریبا آج سے دو سال پہلے کی بات ہے ہم اسلام آباد کے رپورٹرز ایک دوسرے سے صرف ایک ہی سوال کرتے تھے ، یار تمہیں بول سے کال آئی ؟ تم نے اپلائی تو کیا تھا نا؟ کچھ سینئر رپورٹرز اور اینکرز دوستوں سے ہم یہ پوچھتے تھے اچھا سر بتائیے پھر کب جا رہے ہیں بول ٹی وی ، صرف ہم ہی نہیں میڈیا سے وابستہ تمام شعبوں کے لوگوں کے دلوں میں دماغ میں زبان پر یہی سوال ہوتا تھا ، کیمرہ مین ، ڈی ایس این جی سٹآف ، مارکیٹنگ سٹاف ، پروڈیوسر ، سب ایڈیٹر ، کاپی ایڈیٹر اور دیگر سب ایک دوسرے سے یہی پوچھتے تھے ، روز اپنی ای میل چیک کرتے تھے ، پھر جنہوں نے بول میں اپلائی کیا تھا ان کو بول ٹی وی کی طرف سے موبائل پر ایک میسج آتا تھا وہ نارمل میسج ہوتا تھا بول ٹی وی کے حوالے سے اپ ڈیٹ ہوتی تھی لیکن وہ میسج پڑھ پڑھ کر تھک جاتے تھے ،

کچھ ہمارے دوست جو سینئر تھے جو بول ٹی وی انٹرویو دے کر آ گئے تھے انہیں ہم اس طرح رشک سے دیکھتے تھے جیسے وہ کوئی خلائی مخلوق ہوں ، وہ بھی اس طرح اتراتے تھے جیسے کوئی قلعہ فتح کر لیا ہو ،پھر ان کی فیس بک پر جاتے تو بول ٹی وی ان کی پروفائل تصویر لگی ہوتی تھی ، ایک دن میں نے بھی ویسے ہی اپنا کور فوٹو لگا دیا بول والا ، یقین کریں پچاس مبارکبادیں آ گئیں کہ شاید میں بھی بول میں جا رہا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم بھی اس معیار پر پورا اترتے ہیں شاید ہم بھی بول میں جا رہے ہیں شاید ہمیں بھی کبھی پی ٹی سی ایل نمبر سے فون آ جائے ، ہر لینڈ لائن سے آنے والا فون اس امید پر اٹینڈ کرتے تھے کہ شاید بول ٹی وی کا ہو ،

بول ٹی وی ایک خواب تھا ، میڈیا سے وابستہ افراد کے لیے ایسا خواب جیسے ایک مہران گاڑی کے مالک کے لیے بی ایم ڈبلیو گاڑی کا خواب ہوتا ہے

یہ کوئی ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے ہمارے کچھ دوست ضیغم نقوی ، عیسی نقوی ، سہیل اقبال بھٹی اور دیگر بول ٹی وی سے وابستہ ہو گئے ، ہم ان کے دفتر دیکھنے گئے وہاں پر جا کر تصاویر بنائیں ، سیلفی بناتے رہے اور حسرت سے سب کو دیکھتے رہے جو وہاں پر کام کرتے تھے ، اسی دن شام کو اپنے نیب کے دوستوں ، وزارت داخلہ کے دوستوں اور دیگر سورس کو فون کیے کہ سر خبریں دیں اچھی اچھی بڑی بڑی خبریں دیں شاید ہماری کوئی بہت اچھی خبر شائع ہو جائے اور بول والوں کی ہم پر بھی نظر پڑ جائے ۔

یہ خواب تھا پھر ایک دن چکنا چور ہو گیا
یہ زندگی تھی ہماری جو ایک دن ہار گئی
ہماری دھڑکن تیز ہو جاتی تھی بول کے نام پر لیکن پھر ایک دن تھم سی گئی
ایک انتہائی گھٹیا اور گندے دماغ کے سیٹھوں اور بلیک میلروں کے ہاتھوں میں یرغمال بنے ہوئے ہمارے ملک کے میڈیا نے بول ٹی وی کو آنے سے پہلے ہی روک دیا
ایک خبر جسے پڑھ کر ہم پر سکتہ طاری ہو گیا ، اٹھارہ مئی دو ہزار پندرہ کو ٹی وی چینل پاگل ہو گئے جیسے ا ن کا دل کر رہا تھا خود بول ٹی وی جا کر قبضہ کر لیں ،میڈیا کے سب عام لوگوں کے خواب کو نوچ ڈالا گیا ہمارے سامنے سب کے سامنے ایک سوچی سمجھی چال کے زریعے
یہی جیو اور ایکسپریس گروپ کئی سالوں سے ایک دوسرے کا مخالف لیکن بول کے معاملے پر ایک ہو گئے ، اسی طرح باقی بھی سب اس لیے ان کے پیچھے چل پڑے کہ جیسے ان کی اپنی کوئی سوچ پالیسی ہی نہ ہو ،
بول ٹی وی کو بند کرنے کے آج ایک سال بعد ایسے لگ رہا ہے ہم میڈیا کے لوگ پھر دو ہزار پانچ یا دو ہزار چھ میں کھڑے ہیں ، وہی دفتروں کی گھسی پٹی پالیسیاں ، وہی میڈیکل الائونس کے نام پر دھوکے ، وہی انشورنس کے نام پر کٹوتیاں ، وہی تنخواہوں میں ایک ہزار پانچ سو چالیس روپے سالانہ اضافہ ، وہی دفتر کے کیری ڈبہ میں چھ چھ لوگ بیٹھے جا رہے ہوتے ہیں ، کچھ گھر والوں کو جو خواب دکھائے ان کا بھی سامنا کرنے سے گریزاں ، ایک طرح سے ہم ایک سال سے خود سے ہی شرمندہ شرمندہ پھر رہے ہیں
کاش ہماری دعائیں ہی لگ جاتیں ، کاش کسی کی بددعائیں ہی نہ لگتیں
ہمارے ایک دوست نے بول ٹی وی جوائن کیا اس کے بعد اس کا ارادہ تھا کہ پنڈی کی تنگ گلیوں اور دور رش والے علاقے سے اسلام آباد منقتل ہو جائے وہاں پر پندرہ ہزار کرایہ دے رہا ہے یہاں چوبیس پچیس ہزار تک گھر مل جائے گا بول کی تنخواہ اور مراعات کے آگے یہ پچیس ہزار کیا ہے ، آج سے ایک ماہ قبل اس سے ملاقات ہوئی تو وہ کہہ رہا تھا ایک سال سے گھر والے سامان پیک کر کے بیٹھے تھے ابھی تک نہ ان کو منع کر سکا اور نہ سمجھا سکا ، اتنی شرمندگی ہوتی ہے
دکھ صرف اس بات کا ہے کہ بول کی بندش پر ہمارے بڑے بڑے اینکرز نے ، میڈیا کے نام نہاد لیڈروں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا ، یہ بھی بول کی بندش کرنے والوں کے آلہ کار بن گئے ، آج جیو کو ایک گھنٹے کے لیے بند کردیں یہ نام نہاد ہمارے پریس کلب اور یونین کے لیڈر سیاہ پٹیاں باندھ کر جیو کے آگے بیٹھ جائیں گے
ہم کسی دوسرے کا تو شاید کچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن ان پریس کلب، یونین ، پی ایف یو جے ، آر آئی یو جے کے نام نہاد لیڈروں کو ننگا کریں ان کویہ احساس دلائیں کہ انہوں نے صرف ہم چند ہزار لوگوں کے ساتھ نہیں آنے والی نسلوں کے ساتھ کتنی بڑی زیادتی کی کتنا بڑا ظلم کیا ہے ، میڈیا کو کئی سال پیچھے ھکیل دیا ،
میری دعا ہے کہ بول انشا اللہ ایک دن ضرور آئے گا ، ہمارے خواب پورے ہوں گے ، ہم بھی ایک اچھی روشن زندگی گزاریں گے ہمارے بچے بھی اچھے سکولوں میں پڑھیں گے ہم بھی اچھے ماحول میں رہیں گے کم از کم ہم صحافت تو کریں گے اس وقت جو ہم سیٹھوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اس سے تو نجات ملے گی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے