سیاسی زبان درازیاں اور عمران خان

عمران خان نے اب کی بار اسمبلی میں بہت اچھی تقریر کی ۔ مسلم لیگ نواز کے خواجہ آصف نے جوابی خطاب فرمایا ۔ انہوں نے بھی مسلم لیگ نواز کے باقی وزراء اور ٹی وی مباحثوں کے جنگجوؤں کی طرح عمران خان کو نامناسب لب ولہجہ استعمال کرنے والا سیاست دان قرار دیا ۔ ایوان میں خواجہ آصف کے خطاب کے دوران میاں صاحب کی اطلاعات کے وزیر پرویز رشیدبھی انہیں لفظی کُمک بہم پہنچاتے رہے ۔ ان کی تلقین کردہ لفظیات بھی کارروائی سے حذف کیے جانے کے قابل تھیں ۔ پھر خواجہ آصف نے جوش خطابت میں عمران خان کو پنجابی میں ’’مِیسنا‘‘ کہہ دیا اور پھر اس بلیغ لفظ کی تشریح بھی فرمائی۔ سامنے بیٹھے قائد حزب اختلاف کو پنجابی زبان میں سراہتے ہوئے کہا کہ شاہ جی!آپ نے بہت اچھا کیا کو اسے پریس کانفرنس کے دوران ’’نُکرے‘‘ لگائے رکھا ۔ یہ سن کر خورشید شاہ کے سپاٹ کے چہرے پر منفی یا مثبت کوئی تأثر نہیں آیا ۔پرانے سیاست دان ہیں ۔چہرے کے تأثرات پر قابو رکھ سکتے ہیں ۔

میرے دوست نے درست کہا کہ یہ لوگ جتنی بھی توانائی صرف کر لیں عمران خان کو کرپٹ ثابت نہیں کر سکیں گے ۔ اب اگر عمران خان پریس کانفرنس میں خورشید شاہ کے عقب میں کھڑے ہو گئے تو اس پر حکومتی وزراء کی فوج کیوں بغلیں بجا رہی ہے ۔ یہ اور کچھ نہیں صرف اور صرف بوکھلاہٹ ہے جس کا اظہار وہ کر رہے ہیں ۔ عمران خان نے ایوان کے فلور پر کہا کہ اگر میں کچھ دیر کے لیے پیچھے کھڑا ہو بھی گیا تو کیا قیامت آ گئی ہے ۔ عمران خان پر الزام ہے کہ اس کا رویہ ہمیشہ غیر جمہوری قسم کا رہا ہے ۔اب اگر وہ جمہوری انداز میں چلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں توبوکھلائے ہوئے حکومتی وزیروں اور مشیروں کی جانب سے طعنہ زنی شروع ہو جاتی ہے ۔

میرا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ عمران خان کوئی بہت بڑا وژینری رہنما ہے جو پاکستان کو بدل کر رکھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یہ سامنے کی حقیقت ہے کہ وہ اس عہد کا مقبول ترین سیاست دان ہے ۔المیہ مگر یہ ہے کہ اسے بدعنوانی میں لتھڑے ہوئے مشیر میسر آئے ہیں ۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ سیاسی روایت میں غیر مناسب زبان کی ترویج کا سہرا عمران خان کے سر ہے ،انہیں چاہیے کہ اخبارات کی پرانی فائلیں جھاڑ کر لیاقت علی خان، ایوب خان، محترمہ فاطمہ جناح ،ذوالفقارعلی بھٹو،ضیاء الحق،شیخ رشید، شہباز شریف وغیرہ کی زبان بیان کے بارے میں بھی جانکاری حاصل کر لیں ۔ بھٹو صاحب تو اس میدان کے شہہ سوار رہ چکے ہیں ۔

عمران خان سے اختلاف ضرور کیجیے لیکن ٹھوس بنیادوں پر ۔ سیاسی اخلاقیات کے بھاشن اس وقت اچھے لگتے ہیں جب آپ خود بھی کوثر وتسنیم میں دھلی زبان استعمال کرتے ہوں ۔ میاں صاحب کی ایوان میں موجودگی کے دوران اگر ان کا کوئی وزیرِ بے تدبیر مخالفین کی نامناسب لفظوں کے ساتھ دھجیاں اڑا رہا ہو اور میاں صاحب اپنے سُرخ گال کو مُٹھی پر ٹِکائے خاموشی سے انجوائے کر رہے ہوں تو یہ سمجھا جائے گا کہ انہیں میاں صاحب کی تائید حاصل ہے ۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ پہلے آپ اپنے گھر میں شائستگی کی مثال قائم کیجیے اورپھر دوسروں کو اخلاقیات کا درس دینے نکلیے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے