سبحان تیری قدرت

حاجی صاحب کی آنکھوں کی چمک میں اضافے کے ساتھ ہی انکی رال بھی بے ساختہ ٹپک پڑی۔ انہوں نے رومال کی مدد سے اپنا منہ تو صاف کر لیا لیکن منہ میں پان کی پیک بھری ہونے کے باعث انکی سفید قمیض پر سرخ لائن بن گئی تھی جو شاید اتفاق سے انکی جیب کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔باہر بلاکی گرمی تھی لیکن اندر دکان کے ائر کنڈیشنر نے ٹھنڈی ہوا کا جھکڑ چلایا ہوا تھا۔چاروں جانب شفاف آئنے لگے ہوئے تھے۔شوکیسوں میں انوا ع و اقسام کے سونے کے زیورات سجے تھے اور اوپر جگمگاتے قیمتی فانوس میں لگے ہزار واٹ کے بلبوں کی روشنی میں زیورات پر جڑے موتیوں کی چمک آنکھوں کو خیرا کر رہی تھی ۔ دکان کا ماحول ایساخوشگوار تھا کہ گاہک اند داخل ہونے کے بعد جلد باہر جانے کی خواہش نہ کرتا۔سامنے لگی کرسیوں پر دو خوبصورت طرح دار خواتین بیٹھی تھی۔اگرچہ حاجی صاحب قدرے دل پھینک واقع ہوئے تھے۔اور ان میں شروع سے دو ہی کمزوریاں تھیں ۔۔ایک پیسہ دوسری عورت۔۔۔اور تیسری کمزوری جو اب اس عمر میں آ کر پیدا ہوئی تھی اسکی وجہ بھی عورت ہی تھی۔ یعنی تیسری کمزوری جسمانی کمزوری تھی۔ لیکن بظاہر اب بھی چاق و چوبند دکھائی دیتے۔ لیکن اس وقت حاجی صاحب کی رال ان خواتین کو دیکھ کر نہیں ٹپکی تھی۔ وسیے بھی وہ گاہک کو بھگوان کا روپ سمجھتے تھے۔یہ رال پانچ ہزار والے نوٹوں کی گڈی کو دیکھ کر ٹپکی تھی جو دائیں ہاتھ کو بیٹھی خاتون نے پرس سے نکال کر سامنے شوکیس پر انکے سامنے رکھی تھی۔اسے قیمتی ہیرے کانیکلس پسند آگیا تھا۔حاجی صاحب نے جھٹ سے وہ گڈی اٹھا کر لاکر میں رکھی اور ملازم کو اشارہ کیا جو طرح دار خواتین گاہکوں کے سامنے کیک،روسٹ اور کولڈ ڈرنک سجانے لگا۔۔

حاجی صاحب کے اصل نام سے تو شاید بازار کے بہت کم لوگ واقف تھے۔لیکن چونکہ ہر سال حج بیت اللہ کو جایا کرتے اس لیے حاجی صاحب ہی مشہور ہو گئے ۔اور خود کو حاجی صاحب کہلوانا بھی انکی عاجزی و انکساری تھا کیوں کہ جتنے حج وہ کر چکے تھے انہیں الحاج کہا جانا چاہیے تھا لیکن حاجی صاحب کی کسر نفسی کہ حاجی کہلوانے تک ہی محدود رہے۔ ہر سال حج سے واپسی پر وہ چوبیس کیرٹ کے خالص سونے کے کئی بسکٹ بھی چھپا کر ہمراہ لے آیا کرتے۔ کیوں کہ دین کے ساتھ ساتھ دنیا بھی تو ضروری تھی۔اور تجارت تو ویسے بھی انبیا کا پیشہ تھا۔ حاجی صاحب شہر کے ایک صاحب حیثیت صراف تھے۔اور ان پر خدا کا بہت ہی کرم تھا۔اپنی تیز طرار اور ملنسار طبیعت کے باعث وہ صرافہ بازار کے بھی سالہا سال سے صدر تھے،اور کامیاب صدر تھے مجال ہے کہ کوئی پولیس والا کسی صراف کو چوری کاسونا خریدنے کے الزام میں اٹھا کر تھانے لے جائے۔کیوں کہ انکے تھانے ک ایس ایچ او بھی انہی کی آشیر باد سے لگتا تھا۔حاجی صاحب اپنے حلقے کے منتخب نمائندوں کی پارٹی کو بھی باقائدگی سے چندہ دیتے تھے۔معاملہ فہم بھی تھے۔اسی سیاسی گھوڑے پر پیسہ لگاتے جس نے جیتنا ہوتا ۔ویسے بھی وہ معاملے کو موقع پر ختم کرنے پر یقین رکھتے تھے۔پولیس والے بھی خوش اور دکاندار بھی خوش۔ حاجی صاحب کا ماننا تھا کہ چوری کے سونے پر کون سا مہر لگی ہوتی ہے کہ یہ چوری کا ہے۔ اور کب کوئی رسیدیں سنبھال کر رکھتا ہے۔ اور دوسرا اگر کوئی بے چارہ ضرورت مند سونا بیچنے بازار آیا ہے تو ہم کیوں نہ اس سے کم قیمت پر خریدلیں کہ لین دین ہی تو ہمارا کاروبار ہے۔اگر ہم انکار کر دیں گے تو اس ضرورت مند کی ضرورت کیسے پوری ہو گی۔۔اور یہ تو سراسر گناہ بھی ہے۔حاجی صاحب گناہ و ثواب کا خاص خیال رکھا کرتے تھے۔

انکا کہنا تھا کہ ان پر جو خدا کی خاص عنایت کے باعث دولت کی ریل پیل ہے۔معاشرے میں عزت و استحکام ہے اسکی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ وہ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔اسی لیے تو حاجی صاحب بازار کی جامع مسجد کی انتظامی کمیٹی کے بھی چیرمین تھے۔اور کیوں نہ ہوتے۔ مسجد کی تعمیر بھی انہی کی مرہون منت تھی۔تعمیر کے اخراجات خود انہوں نے اور انکے بازار کے دیگر مخیر حضرات نے برداشت کیے تھے۔اور اب بھی سب سے زیادہ چندہ بھی تو وہ خود ہی دیتے ۔اور دوسروں سے بھی دلواتے۔ لیکن حاجی صاحب ڈسپلن کے بہت سخت واقع ہوئے تھے ۔ اسی لیے انہوں نے اس مسجد کے کئی امام فارغ کیے اور آخری والا تو اس قدر بد تہذیب تھا کہ دکان میں گاہکی کے سبب اگر حاجی صاحب کومسجد میں آنے میں دیر سویر ہو جاتی تو کمبخت زرا انتظار نہ کرتا انکے بغیر ہی جماعت کھڑی کروا دیتا۔اور اس طرح کئی مرتبہ حاجی صاحب نماز باجماعت کی سعادت اور ثواب سے محروم رہ گئے۔بارہا سمجھانے پر بھی اس نے اپنا وطیرہ نہ بدلا تو مجبورن انہیں اسے بھی نوکری سے برخواست کرنا پڑا۔لیکن شکر ہے کہ مذہب سے پیارکرنے والے بیروزگاروں کی بھی کمی نہیں۔ اگلے ہی دن تین نئے امیدوار لائن میں آ لگے۔جنکے مسلک و فرقہ کی جانچ پڑتال کے بعد ایک کو دس ہزار ماہوار پر حاجی صاحب نے امام بھرتی کر لیا ۔ساتھ کپڑا لتہ مفت اور کھانا تو ویسے بھی صرافہ بازار کے تاجر پلیٹیں بھر بھر مسجد میں بھجوایا ہی کرتے ہیں۔لیکن یہ نیا امام تو ایسا خدا کا عاجز اور فرمانبردار بندہ نکلا کہ مجال ہے ہ حاجی صاحب کی آمد سے قبل نماز کھڑی کرے۔بلکہ پچھلے جمعے جب حاجی صاحب علیل تھے تو دوپہر کے ساڑھے تین بج گئے اورنئے امام صاحب نے خطبہ نہ ختم کیا۔وہ تو ایک باخبر نے انکے کان میں بتا دیا کہ حاجی صاحب آج آنے کے نہیں تب جا کر جماعت کھڑی ہوئی۔ورنہ عصر تو ہو ہی جاتی۔

حاجی صاحب نے اپنی دکان کے باہر ایک الیکٹرک واٹر کولر بھی لگا رکھا تھا۔یہ کولر بھی انکے ایک دوست نے ہی انہیں تحفے میں دیا تھا۔جنہیں چوری کا سونا خریدنے کے کیس میں حاجی صاحب نے مکھن میں سے بال کی طرح نکال لیا تھا۔چونکہ حاجی صاحب کو اس کولر کی ضرورت نہ تھی سو انہوں نیصدقہ جاریہ کی غرض سے دکان کے باہر لگوا دیا۔ پیاسے راہگیر جب رک کر پانی پیتے تو انکے دل سے دعا تو ضرورنکلتی ہو گی۔ اور یہی حاجی صاحب کو عزیز تھی۔اور دعا کو حتمی طور پر اپنے حق میں سمیٹنے کے لیے حاجی صاحب نے کولر پر اپنا نام بھی پینٹر سے خوب بڑا کر کے لکھوا رکھا تھا۔

رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو گیا تھا۔حاجی صاحب کو اس مقدس ماہ میں کبھی کسی نے دن میں کھاتے پیتے نہ دیکھا تھا۔حاجی صاحب کی نیکی اور خدا ترسی کی صفات رمضان میں تو خاص طور پر عیاں ہو جاتی تھیں۔دوستوں اور اشرافیہ کی افطاریوں کا خاص اہتمام کیا کرتے اور دل کھول کر خرچ کرتے۔اور اسکے نتیجے میں ملنے والی داد و تعریف پر پھولے نہ سماتے۔ آج تو خوب سما بندھا ہوا تھا۔دکان کے باہر کھلے آسمان تلے سخت گرمی میں غرباء مرد و خواتین کی کثیر تعداد جمع تھی۔ دکان کے باہر شیڈ میں لگے کنڈوں پر پانچ خوبصورت پنجرے لٹکے ہوئے تھے جن میں کالے تیتر بند تھے ۔ تیتروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے شیڈ پر لگے تینوں پنکھوں کو چلایا گیا تھا۔حاجی صاحب کا ماننا تھا کہ یہ تیتر ہر وقت خدا کی حمد و ثنا کرتے ہیں ۔اور یہ انکے کاروبار میں برکت کا سبب ہیں۔میڈیا کے چند کیمرہ مینوں کو بھی مدعو کیا گیا تھاآآج حاجی صاحب غرباء میں زکات تقسیم کرنے والے تھے اور یہ سب اہتمام اسی کا تھا۔ غریب پسینے میں تر ہوئے آنکھوں میں حسرت و یاس لیے لائنوں میں سہمے کھڑے تھے۔اچانک حاجی صاحب کی جدید لینڈ کروزر آ کر رکی اور وہ ہمیشہ کی طرح سفید لباس میں ملبوس وارد ہوئے۔چندغریبوں کو زکات کے پیسے پکڑاتے وقت کیمروں کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔کلک کلک کی آواز کے ساتھ کئی فلیشیں چمکیں۔حاجی صاحب میڈیا کا شکریہ ادا کر کے دکان کے اندر چلے گئے۔میڈیا بھی روانہ ہو گیا۔اب حاجی صاحب کے کار خاص زکات بانٹنے لگے۔ گرمی سے بے حال ہجوم بے لگام ہو چکا تھا۔گارڈوں نے ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے ان پر بے دردی سے ڈنڈے برسانے شروع کر دیے۔بھگدڑ سی مچ گئی۔ کسی خاتون کی قمیض پھٹی اور کسی کا جوتا گما۔ ایک بوڑھی تو بے حال ہو کر گر ہی پڑی۔ اور پھر اٹھ نہ سکی۔اچانک پنجرے میں بند ایک کالا تیتر تیز آواز میں چلایا۔۔۔سبحان تیری قدرت۔۔۔سبحان تیری قدرت۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے