کراچی میں سال 2015 میں ٹریفک حادثات کی وجہ سے 1022 افراد موت کا شکار ہوئے ، جبکہ کل 31 ھزار حادثات ریکارڈ کئے گئے ۔
یہ اعدا دو شمار اربن ریسورس سینٹر کے تحت "روڈ ٹریفک کریشسز ڈیٹا ” پر کی جانے والی تحقیقی کے بعد جاری کئے گئے ہیں ۔ یہ تحقیق کراچی کے پانچ بڑے ہسپتالوں سے لیے گئے ڈیٹا پر تیار کی گئی ۔ جن میں سول ہسپتال، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، عباسی شہید، آغا خان ہسپتال اور لیاقت نیشنل ہسپتال شامل ہیں۔
جناح ہسپتال کے شعبہ ٹریفک انجریز اینڈ پریوینشن سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر رشید جمعہ کے مطابق2015 میں 31041 ٹریفک حادثات ہوئے۔جن میں 1022 اموات ہوئیں جبکہ شدید زخمیوں کی تعداد 5403 اور معمولی زخمیوں کی تعداد 24616 رہی۔ ان حادثات میں 1372 موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ سب سے نمایاں رہے اور اس کے بعد پیدل چلنے والے راہگیروں کے 480حادثات ریکارڈ کیے گئے۔
مردوں میں حادثات کا تناسب 84٪ رہا جبکہ 16٪ خواتین حادثات کا شکار ہوئیں۔ ان حادثات میں پچیس سال سے کم عمر کے نوجوانوں کی تعداد 52 فیصد ہے اور چھبیس سال سے چھتیس سال کے 31 فیصد افراد حادثات کا شکار ہوئے۔
کراچی کے وہ علاقے جہاں بڑی گاڑیوں ، ٹرک، ٹرالر، ٹینکر کے چلنے سے بھاری اور تیز رفتار ٹریفک رہتی ہے، وہاں حادثات کا تناسب بھی سب بھی زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق گڈاپ ٹاؤن 12فیصد ، کورنگی ٹاؤن 8فیصد، کیماڑی 6فیصد کے ساتھ ٹریفک حادثات کے سب سے خطرناک علاقے ہیں ۔۔۔۔جبکہ 25فیصد حادثات شہر کے دوسرے مختلف علاقوں میں ہوئے۔ شارع فیصل ، سپر ہائی وے، نیشنل ہائی وےاور کورنگی روڈ پر ٹریفک نہ صرف تیز ہے بلکہ یہاں پر مختلف اقسام کی سواریاں جیسے بڑی بھاری گاڑیوں اور چھوٹی عوامی گاڑیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ لائن مارکنگ نہیں ہیں۔ یہ مخلوط ٹریفک حادثات کی ایک اہم وجہ ہے۔ ان حادثات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ مختلف قسم کی سواریوں کے لیے علیحدہ لینز بنائی جائیں ۔بہت سی سڑکوں پر بڑے گڑھے اور روڈ فرکشن زیادہ ہونابھی حادثات کی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ بڑی گاڑیوں(ٹرک، ٹریلر وغیرہ) کے سڑک پر آنے کے اوقات کار رات دیر سے شروع کیے جائیں ۔اس پر سختی کے ساتھ عملدرآمد کروایا جائے۔
ریٹایئرڈ سپر ٹنڈنٹ پولیس اسد جہانگیر کے مطابق ٹریفک حادثات کی ایک بڑی وجہ سواریوں کا سڑکوں پر الٹا چلنا اور یو ٹرن پر الٹا آنا بھی ہے۔ کراچی میں بننے والے سگنل فری کوریڈور پر یو ٹرنز بین الااقوامی معیار کے مطابق ہیں مگر عوام میں سماجی شعور نہ ہونے کی وجہ سے چند روپے کے پیٹرول بچانے کی خاطر جان کا خطرہ مول لیتے ہیں۔
میر شبر علی شعبہ اربن اینڈ انفرا اسٹرکچر انجیرنگ، این ای ڈی یونیورسٹی کے چیئر مین نے کہا کہ آج موٹر بائک ایک فیملی سواری بن چکی ہے مگر پیچھے بیٹھے فرد ہیلمٹ نہیں پہنتے جس کی وجہ سے حادثات میں زیا دہ تر موٹر بائک ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے ہوئی سواری کو جانی و جسمانی نقصان پہنچتا ہے۔ نوجوانوں کو تحفظ دینا سرکار کی ذمہ داری ہے، اس کے لیے موٹر بایئک سواروں میں ہیلمٹ کے استعمال کو لازمی بنانے کی ضرورت ہے۔ ہیلمٹ کا معیاری ہونا ، ان کی جانچ کرنا بھی لازمی ہے۔ کیونکہ غیر معیاری ہیلمٹ کا استعمال حادثے کے وقت اکثر اوقات مکمل تحفظ نہیں دے پاتا ہے اور جانی نقصان کا خدشہ ہوتا ہے۔ نیز پچھلے تین سالوں میں رکشہ اور چنچی کے بڑھتی ہوئی تعداد نے بھی ٹریفک حادثات میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ ان ڈرائیور کا غیر تربیت یافتہ ہونا اور چنچی کی غیر متوازن ساخت کا حادثات میں بڑا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق عوامی سطح پر سماجی شعور کے پھیلاو سے ان حادثات میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔