ہم بدقسمت نوجوان

شعور کی آنکھ کھولی تو افغانستان پر امریکی حملہ ہو چکا تھا، کچھ ہی دن گزرے تو بارڈر کے اس جانب بھی لڑائی شروع ہو گئی، صدر مشرف کا آزاد و روشن خیال میڈیا ہر دوسرے لمحے کسی خودکش حملے کی بریکنگ نیوز دے رہا ہوتا تھا، صبح گھر سے نکلنے والے کا شام میں عافیت سے واپس آنا انہونی سی بات تھی، تعلیم روپے پیسے کے عوض بک رہی تھی، اعلی سے اعلی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود اچھے مستقبل کی امید ناپید تھی، یہ اور ان جیسے بہت سے عوامل نوجوانوں کے اعصاب کو مضمحل کر رہے تھے، ٹینشن اور فرسٹریش نے بے حال کر رکھا تھا کہ وکلاء تحریک شروع ہوئی، نوجوانوں نے سابق چیف جسٹس کو نجات دہندہ سمجھا اور تن من دھن لٹانے کو تیار ہو گئے، تپتی دوپہر ہو یا یخ بستہ رات نوجوان ہر لمحہ اس تحریک کی جان رہے لیکن ایک آدمی کو واپس اس کی کرسی تک پہنچاتے ہی سب لوگ تھکاوٹ کا شکار ہو گئے، نوجوانوں کو ”ریاست ہوگی ماں کے جیسی” کا خواب دکھانے والی تحریک نے انہیں چیف جسٹس کی بحالی کا لولی پاپ دے کر گھر بھیج دیا، انہی دنوں کچھ حلقوں کی جانب سے عمران خان صاحب کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا تو نوجوان اس امید پر کہ شاید اب ہماری سن لی جائے تحریک انصاف کی جانب یوں لپکے جیسے پروانے شمع کی طرف آتے ہیں، جلسہ لاہور کا ہو یا کراچی کا، ریلی ہو یا دھرنا، نوجوان جی جان اور جہان ایک کیے خان صاحب کی آواز پر لبیک کہتے رہے۔۔۔۔

لیکن آفسوس صد افسوس کہ خان صاحب کی وزیر اعظم بننے کی منہ زور خواہش نے یہاں بھی نوجوانوں کا استحصال کیا، خان صاحب کے ہر جلسے میں ہزاروں نوجوانوں کو صرف یہ سنوایا جاتا کہ دنیا میں صرف ایک میں ہوں جو پاکباز ہوں، مجھے کوئی ضرورت نہیں لیکن صرف تمہاری خاطر یہ سب کچھ کر رہا ہوں، جو میرے ساتھ ہیں ان کے سارے جرائم معاف، جو میرے مقابل ہیں وہ سارے مجرم۔۔ یہاں ایک بڑی خرابی یہ ہوئی کہ اختلاف میں شائستگی کا عنصر غائب کر دیا گیا، مخالفین پر تنقید کے لیے اخلاق اور اقدار کی ساری حدیں پھلانگ دی گئیں، جو بذات خود ایک المیہ تھا۔۔

گزرتے سالوں میں جب نوجوان خان صاحب سے مایوس ہونے لگے تو خان صاحب نے ایک خطرناک حربہ اختیار کرتے ہوئے نوجوانوں کو استعمال کرنا شروع کیا، اپنے جلسوں میں ہر قسم کی بد زبانی کی اجازت دے دی، ہنگامہ آرائی کی حوصلہ افزائی، ہیجان انگیز میوزک سے بدمست کر کے عمران خان صاحب نے ان نوجوانوں کو جو مایوسی کی آخری حد کو چھو رہے تھے، بھوکے درندے بنا دیا۔. نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خان صاحب کے قابو سے باہر ہو گئے، جہاں مقابل نظر آیا بدتمیزی کی حدود پار کر دیں، کوئی اپنا بھی اصلاح کی بات کرے تو گھر بھیج دیتے ہیں اور اخلاقی پستی کی انتہاء دیکھئے کہ جہاں خواتین دیکھتے ہیں جنسی درندے بن جاتے ہیں۔۔

ہم نوجوانوں کی بد قسمتی دیکھیے کہ جس کو ملے اس نے استعمال کر کے پھینک دیا۔۔۔ میں تو یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا ہوں کہ فرسٹریشن کا شکار یہ نسل آنے والی نسلوں کو بطور ورثہ کونسی فکر منتقل کرے گی۔۔؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے