شام میں بم دھماکے، 100 سے زائد افراد ہلاک

بیروت: شام کے 2 شہروں میں ہونے والے7 بم دھماکوں کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ان دھماکوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ (داعش) نے قبول کرلی۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے شام میں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے آبزرویٹری گروپ کے حوالے سے بتایا کہ ساحلی شہر جبلہ میں ہونے والے دھماکے میں 51 جبکہ تارتوس میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 48 افراد ہلاک ہوئے۔آبزرویٹری گروپ کے سربراہ رمی عبدالحمٰن نے مارچ 2011 سے جاری تنازع کے دوران حالیہ حملوں کو ‘بغیر کسی شک و شبہ کے مہلک ترین حملے’ قرار دیا۔

دوسری جانب اسلامک اسٹیٹ نے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے جنگجوؤں نے جبلہ اور تارتوس میں حملہ کیا۔شامی شہر جبلہ اورتارتوس پیر کی صبح 7 دھماکوں سے گونج اٹھے تھے، جن میں سے زیادہ تر خود کش تھے۔شام کے سرکاری ٹی وی نے دھماکوں کی رپورٹ دی لیکن کل ہلاکتوں کی تعداد 78 بتائی گئی، جن میں سے 45 جبلہ میں جبکہ 33 تارتوس میں ہلاک ہوئے۔سرکاری ٹی وی پر تارتوس کے ایک بس اسٹیشن کی فوٹیج بھی دکھائی گئی جو حملے کے نتیجے میں تباہ ہوا۔

فیس بک پر مقامی خبریں دینے والے ایک پیج نے جبلہ کے ایک بس اسٹیشن پر دھماکے کی بھی رپورٹ دی۔جبلہ اور تارتوس شامی صدر بشار الاسد کے مضبوط علاقے تصور کیے جاتے ہیں، جن کا تعلق جبلہ سے محض 25 کلومیٹر پر واقع ایک گاؤں قارداہ سے ہے۔خیال رہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت میں 2011 میں خانہ جنگی شروع ہوئی تھی، جس کے بعد سے گزشتہ 5 سال میں 2 لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد اس جنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔

جون 2014 میں شام اور عراق کے ایک بڑے رقبے پر شدت پسند تنظیم داعش نے قبضہ کرکے خلافت کا دعویٰ کیا اور ابوبکر البغدادی کو اپنا خلفیہ مقرر کیا تھا، داعش کے خلاف شام اور روسی اتحاد کے علاوہ امریکا اور اس کے حامی ممالک فضائی کارروائیاں کر رہے ہیں، دوسری جانب داعش مخالف القاعدہ کی حامی النصرہ فرنٹ سمیت مختلف چھوٹے گروہ بھی شام کے دیگر علاقوں پر قابض ہیں۔شام میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے مذاکراتی عمل بھی شروع کیا گیا، مذاکراتی عمل کے دوران فروری میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا لیکن اس جنگ بندی کا اطلاق داعش اور القاعدہ پر نہیں کیا گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے