کبھی کبھار جب ٹوٹنے اور گرنے لگتا ہوں تومجھے ہالی وُوڈ کی فلم ”کاسٹ اوے” کا مرکزی کردار چک نولاند (ٹام ہانکس)یاد آ جاتا ہے ۔ وجہ کوئی خاص نہیں بس جی چاہا ہے کہ آپ کو اس کی کہانی سناوں ۔ نولاند ایک بین الاقوامی کورئیر کمپنی میں سسٹم انجینئر کے طور پر ملازمت کرتا ہے ۔ ایک ہوائی سفر کے دوران اس کا جہاز طوفان کی وجہ سے سمندر میں گر کر تباہ ہو جاتاہے اور وہ سمندر کی بے رحم موجوں کے تھپیڑے کھاتا کھاتا ایک بے نام جزیرے پر جا پہنچتا ہے ۔
اس جزیرے پر زندگی کا کوئی امکان نہیں ہوتا ۔ اس کے پاس ایک ٹیوب ،اپنی گرل فرینڈ کیلی فریئیرز(ہیلن ہنٹ) کی طرف سے تحفے میں ملی ہوئی ایک گھڑی ، جس کے ڈھکن کی اندرونی چھت میں اس نے کیلی کی تصویر لگائی ہوتی ہے ۔ موت سامنے کھڑی دیکھ کر بھی وہ آخر دم تک جینا چاہتا ہے ۔ اس جزیرے پر ناریل کے چند درخت ہوتے ہیں اور وہ ناریل کا پانی پی کر جزیرے پر اپنی زندگی شروع کرتا ہے ۔ آہستہ آہستہ اسے سمندر سے مچھلی شکار کرنے کا طریقہ بھی آ جاتا ہے ۔ وہ اپنی آگ خود ہی بناتا ہے ۔ اسے سمندر کی لہروں پر تیرتے اپنی ہی کمپنی کے کچھ پاسلز ملتے ہیں ۔ ایک ڈبے سے فٹ بال نکلتا ہے جس پر کمپنی کا نام ”ولسن” لکھا ہوتا ہے ۔ وہ اپنا زخمی ہاتھ اس پر رکھتا ہے تو ہتھیلی کا نشان بن جاتا ہے ۔ نولاند اس کی آنکھیں اور منہ بنا کر اسے اپنے سامنے ایک جگہ رکھ دیتا ہے ۔ اب اسے ولسن کی صورت میں اپنی تنہائی کا ساتھی میسر آ جاتا ہے جس کے ساتھ وہ باتیں کرتا ہے ، جھگڑتا بھی ہے اور پھر اس کو منا بھی لیتا ہے ۔
قریب ہی ایک غار میں وہ طوفان کی راتیں گزارتا ہے ۔ سامنے اس گھڑی کو کھول کر رکھتا ہے اور وقفوں وقفوں سے کیلی کی خوبصورت چہرہ دیکھتا رہتا ہے ۔ اسی طرح اس کے چار سال بیت جاتے ہیں ۔ بال اور داڑھی بے ہنگم طریقے سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور جسم قدرے چُھریرہ سا ہو جاتا ہے ۔اس کا لباس گھٹ کر اب صرف اتنا رہ جاتا ہے جو جسم کے انتہائی اہم حصوں کو ہی ڈھانپ سکتا ہے ۔ پھر اسے ایک ترکیب سُوجھتی ہے ۔ وہ لکڑیاں اکھٹی کرتا ہے اوردرختوں کی چھالوں سے رسیاں بنا کرانہیں جوڑتا ہے ۔ اپنے دوست ولسن(فٹ بال) کو اس پر نصب کرتا ہے ۔ کیلی کی دی ہوئی گھڑی گلے میں رسی کے ساتھ باندھ لیتا ہے ۔ جب موافق ہوا آتی ہے تو وہ اس کشتی پر لیٹ کر ہوا کے رخ بہنا شروع کر دیتا ہے ۔ سمندر کی لہروں پر کئی دن ہچکولے کھاتے ہوئے اسے نیند آ لیتی ہے ۔ اسی دوران تیز ہوا چلتی ہے جس سے ولسن (فٹ بال)کشتی سے الگ ہو کر دُور سمندر میں جا گرتا ہے ۔ کچھ دیر بعد نولاند جاگتا ہے تو دوست کو نہ پا کر بہت چیخ وپکار کرتا ہے ۔ ولسن اسے اگلی لہر سے بھی آگے ڈولتا دکھائی دیتا ہے ۔ وہ کوشش کرتا ہے مگر ناکام ہی رہتا ہے ۔ کتنا درد ناک ہوتا ہے وہ لمحہ جب آپ کا کوئی پیارا آپ سے بچھڑ رہا ہواور آپ بے بس ہو جائیں ۔ وہ منظر دیکھ کر آنکھیں ٹپک پڑتی ہیں ۔
نولاند اپنی خشک لکڑیوں سے بنی کشتی پر اوندھا لیٹا ہوا ہوا کے رحم کرم پر نامعلوم منزل کی جانب رواں دواں ہوتا ہے کہ ایک دن قریب سے کوئی بڑا بحری جہاز گزرتا ہے ۔ اس کے عملے کی نگاہ نولاند پر پڑتی ہے ۔وہ اسے بچا لیتے ہیں ۔اس طرح نولاند واپس اپنے شہر میں ، اپنی کمپنی میں آ جاتا ہے ۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ اس کے طوفان میں لاپتہ ہو جانے کے بعد جب سب مایوس ہو گئے تو اس کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں تھیں ۔ اس کی گرل فرینٖڈ کیلی اسی ڈینٹسٹ کے ساتھ شادی کر لیتی ہے جو اس کے نولاند کے دانتوں کا علاج کرتا تھا ۔ واپس آ کر اس کی دنیا گویا بدل گئی ہوتی ہے ۔ فلم ایک ایسے موڑ پر ختم ہوتی ہے جہاں ابھی ایک قسم کا تجسس باقی ہوتا ہے لیکن میرا خیال ہے اسے وہیں ختم ہو جانا چاہیے تھا ۔
کسی کا یہ جملہ مجھے بہت دلچسپ لگتا ہے کہ ”آدمی کو مرنے تک جینا چاہئے ۔” اگر اسے تنہائی کاٹنے لگے تووہ نولاند کی طرح کسی بے جان شے کو اپنی زندگی سے جُڑا ایک کردار بنا لے اور اس سے باتیں کرے۔ اس سے جھگڑا کرے ۔ اسی کو منا لیا کرے ۔ اس کے ساتھ ہنسے اور روئے لیکن جیتا رہے ۔ آخری امکان تک جیتا رہے ۔ اس تنہا نولاند کو دیکھے جس نے ایک بے نام جزیرے میں چار سال تک اپنی دنیا بسائے رکھی مگر زندگی سے ہار نہیں مانی ۔ وہ امید نہیں کھویا تھا ۔