ہندوانہ رسوم کے سوا ہمارے پاس کیا ہے!

رسم ورواج سماجی زندگی کی علامت ہواکرتے ہیں اور تہذیب کے اجتماعی پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہرقوم کی انفرادی واجتماعی زندگی میں ان رسوم ورواج کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور تہذیب وثقافت، اخلاق وعادات، مذہبی عقائد، ذہنی رجحانات اور طرز معاشرت پر ان کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہ رسوم درحقیقت مختلف اسباب کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ان کے اسباب میں ملک یا علاقے کے مخصوص حالات، جغرافیائی کیفیت، باشندوں کی ذہنی وجسمانی خصوصیات، مذہبی عقائد، تاریخی وسیاسی ارتقا، اقتصادی حالت اور تہذیبی اثرات کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔رسمیں بالعموم دو طریقوں سے پروان چڑھتی ہیں۔ ایک معاشرتی دباؤ اور دوسرے مذہبی جذبات۔ بعض دفعہ کسی خاص حالت میں اور کسی خاص ضرورت کے تحت ایک کا م کیا جاتا ہے اور لوگ اسے حالات وضروریات کے مطابق مفید پاکر اس پر عمل کرنے لگتے ہیں۔ یہ عمل رفتہ رفتہ اجتماعی اور پھر روایتی شکل اختیار کرلیتا ہے اور آخر کار معاشرہ کی اجتماعی قوت کی بدولت اس کو رسم یا رواج کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کچھ مذہبی افراد دوسرے مذاہب کے پیرو کا روں کی دیکھا دیکھی اپنے مذہبی جذبات کی تسکین کے لیے کچھ ایسے کام شروع کرلیتے ہیں جو بظاہر دینی اقدار کو جلا بخشنے والے ہوتے ہیں۔پھر دھیرے دھیرے ان کو ایسی مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے کہ وہ رسم کا درجہ پاجاتے ہیں اور ان کے حسن وقبح پر غور کیے بغیر ان کی پاس داری کو ضروری سمجھا جانے لگتا ہے۔ مذہبی ومعاشرتی ہر دو طرح کی رسوم میں بظاہر کچھ خیر کا پہلو ہوتا ہے اور کچھ شرکا۔ معاشرہ بالعموم خیر وشر میں تمیز کئے بغیر پورے کا پورا اختیار کرلیتا ہے اور ان کی پاسداری کو ہر حال میں ضروری سمجھتا ہے۔ یہی اس کا سب سے تاریک پہلو ہے۔

تاریخ کا کوئی زمانہ رسوم ورواج کے اثرات سے خالی نہیں رہا ہے۔ بلکہ ہر قبیلہ، ہرقوم اور ہر تہذیب میں اسے عمومی دستور العمل کی حیثیت حاصل رہی ہے، انبیا کرام نے جن شریعتوں کو متعارف کرایا، ان کا بنیادی مقصد انسانی معاشرہ کی تہذیب تھا۔ ان شریعتوں میں بھی مروجہ رسومات کی قبولیت واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے، یہاں تک کہ آخری نبی حضرت محمد مصطفی ۖ نے جو آخری شریعت متعارف کرائی، ان میں بھی عرب کی متعدد پاکیزہ روایات کو شریعت اسلامی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اور ان کی پاسداری کو موجبِ اجر وثواب بتایا گیا ہے۔

اس سلسلے میں اسلام کا نقطہ نظر بالکل واضح ہے، جو رسمیں انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی کے لیے موزوں ومفید ہیں۔ اسلام نے انہیں اختیار کیا ہے اور ان پر عمل آوری کی ترغیب دی ہے۔ اور جو رسمیں اسلامی مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور انسانی معاشرہ کے لیے مضرہیں۔ اسلام نے ان کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اور ان کے خاتمے کے لیے تدابیر کی ہیں۔ اس بنیادی اصول کی تطبیق کی بہترین مثال خطبہ حجة الوداع ہے جس میں آپ نے بیک وقت کئی جاہلی رسومات کی بیخ کنی کی اورکئی نئی رسموں کی بنیاد ڈالی اور تابندگی بخشی۔ ایک طرف آپ نے عرصہ دراز سے چلی آرہی سماجی تفریق، انتقامی کارروائی اورسودی لین دین کے یکسر خاتمے کا اعلان کیا تو دوسری طرف جاہلی نظام میں غلام، یتامی اور خواتین جیسے معاشرے کے کمزور طبقات جو اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم تھے، ان کے حقوق متعین کرکے ان کے وقار کو بلند کیا،آخر میں آپ نے تمسک بالکتاب والسنة کی تلقین کرکے یہ بات اچھی طرح واضح کردی کہ جو کام یا رسوم ورواج قرآن وسنت کے مطابق اور انسانی معاشرے کے لیے مفید ہوں گے، صرف انہیں اختیار کیا جائے گا باقی تمام معمولات ورسومات کو اسی معیار پر پرکھ کر ان کے رد وقبول کا فیصلہ کیا جائے گا۔

علما نے قرآن وسنت کی روشنی میں کچھ اصول ومعیار مقرر کردیئے ہیں۔ ان کی روشنی میں مروجہ رسومات کا آسانی سے تجزیہ کیا جاسکتا ہے، جو رسمیں زمانہ بعید سے چلی آرہی ہیں اور جن میں خیر کا پہلو نمایاں ہے، وہ باقی رکھی جائیں گی۔ اسی حوالہ سے عرف وعادت کو فقہا نے شریعت اسلامی کے ضمنی مآخذ میں شمار کیا ہے اور اس سے کئی اہم مسائل حل کیے ہیں۔ مثلا لباس کا مسئلہ ہے جو لباس ساتر ہو اور معاشرے کے شرفا نے جسے اختیار کرلیا ہو وہی شرعی لباس کہلائے گا۔ ہر ملک، علاقہ اور خطے کا الگ الگ لباس ہوسکتا ہے۔ اور جو رسومات مذہبی عقائد کے خلاف ہوں، یا جن میں اسراف، تفاخر، تکاثر، ریا، تکلیف مالا یطاق، کفار سے مشابہت اور معصیت میں تعاون کا پہلو پایا جاتا ہو، ان سے بہرحال چھٹکارا حاصل کیا جائے گا۔رسم ورواج کی پاسداری یا اس کی خلاف ورزی میں معاشرے کے تعلیمی اور تہذیبی معیار کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں جہالت اور لا شعوری کا غلبہ ہوتا ہے، وہاں رسومات کا اثر سرچڑھ کر بولتا ہے اور جس معاشرے میں بیداری، شعور اور تعلیم وتہذیب کا فروغ ہوتا ہے، وہاں رسمیں اپنے آپ دم توڑنے لگتی ہیں۔

کسی بھی عزیز یا رفیق کا انتقال پسماندگان کے لیے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اس موقع پر مختلف مذاہب اور مختلف علاقوں میں الگ الگ رسمیں رائج ہیں، ان رسموں کی نگہبانی میں لوگ طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اسلام میں میت کی تجہیز وتکفین کا بہت سادہ طریقہ بتایا گیا ہے جس میں میت کا پورا احترام ہے اور پسماندگان کے لیے تسلی کا سامان بھی۔ ہندوؤں سے متاثر ہوکر کچھ لوگوں نے چند رسمیں اس موقع پر بھی گھڑلی ہیں،گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک عزیزکے ہاں تعزیت کیلئے جانا ہوا وہاں پر موجود اکثر لوگ سفید کپڑوں میں ملبوس تھے ایک صاحب نے مجھے توجہ دلائی کہ آپ نے احباب کے لباس پہ غور کیا ؟میں نے نفی میں سر ہلایا تو انہوں نے بتایا کہ ہندو تعزیت کے موقع پر سفید لباس پہنتے ہیں یہ انڈین ڈراموں اور فلموں کا اثر ہے کہ اب مسلمانوں نے بھی دیکھا دیکھی اسے اپنا لیا ہے ۔سفید لباس میں کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ ایک درجہ دیگر رنگوں پر اسے فضیلت ہے لیکن اگر ہندوؤں کی تقلید میں سفید لباس پہنا جائے تو پھر یہ غور طلب بات ہے اور اسے معمولی نہیں لیا جا سکتا کیونکہ لباس سے بات آگے بڑھے گی اور پھر شادی بیاہ میں دیگر رسموں کے سا تھ ساتھ لوگ آگ کے گرد سات پھیروں پر بھی اصرار کرنے لگیں گے ۔

مختلف مواقع پر جن معیوب اور مضر رسموں کا تذکرہ آیا وہ اسلامی معاشرے کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ ان رسومات کی پاسداری سے اسلامی تہذیب اور مسلم معاشرہ کی رسوائی ہوتی ہے۔ اسلام نے جن بلند قدروں کو پروان چڑھانے کی ترغیب دی ہے، وہ نظر انداز ہوجاتی ہیں۔ بعض دفعہ دینی عقائد واحکام کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر اسراف وفضول خرچی سے جو مالی خسارہ ہوتا ہے، وہ بہت ہی تباہ کن ہوتا ہے، اصحاب ثروت کی قائم کردہ روایات پر غربا بھی تقلید کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلاہوکر عزت وآبرو تک داو پر لگا بیٹھتے ہیں۔ان حالات میں علماء اور ادباء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام میں شعور کو اجاگر کریں اور حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹی وی پر انڈین کلچر کی روک تھام کے لئے ٹھوس لائحہ عمل وضع کرے کیونکہ یہ ہماری نسل کے مستقبل اور اعلی اقدار کے تحفظ کا معاملہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے