اور ماریہ بھی مر گئی

ایک اور ہوا کی بیٹی کو جلا دیا گیا اور کئی گھنٹے موت اور زندگی کی جنگ لڑتے لڑتے وہ اپنے خالق حقیقی سےجا ملی ۔ سکول ٹیچر ماریہ کا قصور صرف یہ تھا کہ اسنے سکول مالک شوکت کے شادی شدہ بیٹے سے شادی سے انکار کیا تھا ۔ ماریہ کو شادی سے انکارپر اس وقت جلایاگیا جب وہ گھر پر چھوٹی بہن کے ساتھ اکیلی تھی اور پٹرول چھڑک کر آگ لگا کر اسے کھائی میں پھینک دیا گیا ۔

ماریہ کو شدید زخمی حالت میں اسلام آبادکے پمز اسپتال منتقل کیا گیا لیکن ڈاکٹر کے مطابق ماریہ کا پچاسی فیصد جسم جھلس چکا تھا اور کوئی معجزہ ہی اسے بچا سکتا ہے۔لیکن چوبیس گھنٹے بھی نہ گزرے تھے جب ماریہ جان کی بازی ہار گئی۔

ماریہ جیسی کئی خواتین آئے روز اسی طرح تشدد کا نشانہ بنتی ہیں اور جان سے چلی جاتی ہیں ۔ ابھی عنبرین والی تکلیف کم نہیں ہوئی تھی کہ ماریہ کا واقعہ ہو گیا۔ ایسے واقعات پر حکومتکی جانب سے کمیٹیاں بنتی ہیں لیکن نہ جانے کیوں یہ کمیٹیاں صرف بنتی ہی ہیں انکی کارکردگی کبھی نظر نہیں آئی یاہمارے ملک میں ملزم پولیس اور عدالتوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ نہ انکے خلاف "ٹھوس ” ثبوت ملتے ہیں اور نہ "جرم” ثابت ہوتا ہے۔

جھلس کر فوت ہو جانے والی ماریہ کے غم سے نڈھال لواحقین
جھلس کر فوت ہو جانے والی ماریہ کے غم سے نڈھال لواحقین

آج تک ہمارے کان یہ سننے کو ترس رہے ہیں کہ کبھی تو خواتین پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والا کوئی شخص قانون کی گرفت میں آنے کے بعد قرار واقعی سزا پا سکے۔ کبھی تو پولیس کی جانب سے ایسا چالان پیش کیا جا سکے جس سے ملزم کو عدالت میں مجرم ثابت کرنا آسان ہو جائے۔ اور وہ اپنےکئے کی سزا پا سکے۔

وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف صاحب کمیٹیاں ضرور بنائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں آپ کی بنائی گئی کمیٹی پر لیکن براہ کرم کبھی اس کمیٹی کی کارکردگی بھی دکھا دیا کریں ۔ یا آپ کی بنائی گئی کمیٹی کی اہلیت ہی مشکوک ہوتی ہے۔ یا یہ کمیٹی کا ڈرامہ بھی صرف اپنوں کو نوازنے کے لئے رچایا جاتا ہے۔

ہماری پولیس کی کارکردگی تو دنیا میں مشہور ہے۔ دو ٹکوں کی خاطر کس طرح پولیس کیس کا رخ موڑتی ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ جب تک پولیس کی جیب میں قائداعظم کی تصویر نہ آ جائے ان کی آنکھ ہی نہیں کھلتی۔ ہمارا قانون سویا رہتا ہے۔

 ماریہ کے رشتہ دار غم سے نڈھال ہیں
ماریہ کے رشتہ دار غم سے نڈھال ہیں

حکومتی سطح پر طرح طرح کےقوانین بنا دئیے گئے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ یہ قوانین آج تک نظر نہیں آسکے۔ یہ قوانین شاید صرف قانون کی کتاب کی زینت بنانے کے لئے بنائے گئے تھے۔ حقوق نسواں بل، وومن پروٹیشکن بل بن گئے عالمی سطح پر بہت واہ واہ ہو گئی پاکستان خواتین کے معاملے پر سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔لیکن حقیقت انتہائی شرمناک۔ خواتین سے ناروا سلوک اور زیادتی کا کوئی ایک ملزم قانون سے سزا نہ پاسکا ۔

حکومت سے سوال پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا فائدہ ایسے بلوں کا ایسے قوانین کا جن کےبعد حالات مذید خراب ہو رہےہوں ۔ آج پاکستان میں کون سی خاتون محفوظ ہے۔ اس بل کے آنے کے بعد کس خاتون کو تحفظ حاصل ہو گیا ، ان بلوں کے بعد کونسی ماریہ اور عنبرین بچ گئیں ۔ کسی کو شادی میں مدد کرنے کے شبہ میں مار دیا گیا تو کسی کو شادی سے انکار پر ۔۔

پارلیمنٹ سے صرف ڈیڑھ گھنٹے کی دوری پر ماریہ کو زندہ جلا دیا گیا ۔ کوئلہ بنی لڑکی پمز میں موت سے لڑتے لڑتے ہار گئی۔ لیکن ہمارے منتخب نمائندوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ آج تک ان واقعات پر منتخب نمائدے دلجوئی کی خاطر ہی سہی کبھی دکھی ٹوٹے ہو ئے خاندان کے پاس نہ جا سکے ۔یہ کیسے حکمران ہیں جو نہ سن سکتے ہیں ، نہ بول سکتےہیں اور نہ ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ کیا یہ احساس بھی ہے انہیں کہیں ان سب کا حساب بھی دینا ہے؟؟ جس ملک میں بہن بیٹیوں کی زندگی کی قیمت پٹرول کی ایک بوتل کے برابر ہو وہاں کیسے حقوق نسواں کے قوانین اور کیسے وومن پروٹیکشن بل ؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے