خواجہ سرا کا عمران خان کے نام خط

ہائے ہائے ..عمران خان صاحب! آپ نے خیبر پختونخواہ میں تبدیلی کا اعلان کیا تھا لیکن یہ کونسی تبدیلی ہے جو گذشتہ تین سالوں میں دیکھنے میں نہیں آرہی – ہائے اللہ! ہم تو بہت سنتے تھے کہ عمران تبدیلی لیکر آرہا ہے لیکن یہ تبدیلی کہاں پر ہے کہ آج لوگ پشاور کے بڑے ہسپتال میں مر رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں- تین سال قبل جب کوئی تبدیلی کی بات کرتا تو ہم بھی یقین کرتے کہ شائد آپ کی تبدیلی ہمارے لئے بھی کچھ بھلا ہو لیکن پتہ نہیں ہمارے اس معاشرے میں تو ہم ” خود تبدیل” ہیں .. ا ف اللہ ! میں بھی کتنی تیزی سے لکھتی جارہی ہوں پہلے میں آپ کو اپنا تعارف کرواؤں ..

صدقے جاؤں عمران آپکے .شائد آپ میری باتوں سے حیران بھی ہونگے میں ایک خواجہ سرا ہوں پختون معاشرے کیا اس پورے پاکستان میں میری کوئی قانونی حیثیت نہیں .بلکہ مجھے تو کوئی انسان ہی نہ مانے حالانکہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں کہ ایسی پیدا ہوئی ہوں-.اسی معاشرے میں رہتے ہوئے پاپی پیٹ نے مجھے اتنا ڈھیٹ بنا دیا کہ آپ جیسے لوگ ہمیں بے شرم بھی کہتے ہیں لیکن ہم خواجہ سراؤں سے بڑے بے غیرت تو یہ نام نہاد پختون معاشرے کے مرد و خواتین ہیں کہ جن کیساتھ روزانہ زیادتی ہوتی ہے لیکن اپنے ساتھ ہونیوالی ناانصافی و زیادتی پر آواز تک بلند نہیں کرتے- بلکہ سب سے بڑے بے شرم تو وہ لوگ ہیں جو اس معاشرے میں عام لوگوں کیلئے تبدیلی کے اعلانات کرتے آئے تھے لیکن کچھ نہیں بدلا-

قربان جاؤں عمران خان ! مجھے تو لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں آکر پتہ چلا کہ باہر بازاروں میں اکڑ اکڑ اور مونچھووں کو تاؤ دیکر چلنے والے نام نہاد مرد کتنے بزدل ہیں – ڈر کے مارے کچھ کہہ بھی نہ سکتے- روزانہ یہاں پر ان کیساتھ جوکچھ ہوتا ہے وہ دیکھنے کے قابل ہے-میرے ایک ساتھی کو گولیاں مار دی گئی اور اسے رضاکار تنظیم ہسپتال لیکر پہنچ گئی ہم تو بیس منٹ بعدپہنچے تھے لیکن یہاں آکر پتہ چلا کہ یہ کم بخت سارے جنسی مریض ہیں ہسپتال میں آتے ہی کلاس فورملازم سے لیکر نرسوں اور ڈاکٹروں کی تضحیک کا ہم نشانہ بنے-

ہسپتال میں تبدیلی کے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں لیکن یہاں تو پیسے لیکر مریضوں کو سٹریچر اب بھی ملتا ہے اور پیسے لیکر یہاں کے اردلی مریض کے سٹریچر کو دھکے دیتے ہیں – اس ہسپتال میں ہمارے لئے کوئی جگہ تک نہیں ، مرد ہمیں اپنے وارڈ میں نہیں چھوڑتے تھے جبکہ عورتیں ہمیں اپنے وارڈوں میں جگہ دینے پر راضی نہیں-اف اللہ ! میں وہ لمحے نہیں بھول سکتی جب میرا وہ ساتھی ہسپتال انتظامیہ کی بے حسی کی وجہ سے زمین پر پڑا تھا لہمیں لوگ ہمددی کے بجائے ایسے نظروں سے دیکھتے تھے جیسے ہم اچھوت ہوں کسی اور جگہ کی مخلوق ہوں-عام لوگوں کی روئیے تو ہمیں پہلے سے پتہ ہیں کیونکہ ہم بھی اسی معاشرے میں رہتے ہیں لیکن جو لوگ انسانیت کی خدمت پر مامور ہیں اور جو مسیحا کہلاتے ہیں جن میں ڈاکٹر، نرسز بھی شامل ہیں … اف اللہ میرا تو گلا رندھ گیا ہے- ارے او … رانی … مجھے پانی دینا لکھتے اور سوچتے ہوئے میرا قلم رک اور زبان بند ہوگئی ہے-

میں واری جاؤں آپ کے عمران خان ! آپ کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک اہم سرکاری شخصیت کی آمد کے موقع پر ہمیں ہسپتال کے بولٹن بلاک میں کمرہ دیدیا گیا جس کیلئے ہم سے پانچ ہزار روپے لئے گئے اگر ہمیں پہلے بتا دیا جاتا کہ ہم جیسوں سے بھی پیسے لئے جاتے ہیں تو ہم دے بھی دیتے ہمیں مفت میں تنگ کیا گیا -یا شائد اس بڑے شخصیت کو دکھانا مقصود تھا کہ ہم کیسے خدمت کرتے ہیں. لیکن خان صاحب …یہ کیسے ڈاکٹر ہیں جو ہمارے ساتھی خواجہ سراء کی خون کو نہ روک سکے نہ ہی ہمارے ساتھی کو جسے چار گولیاں لگی تھی کو آئی سی یو میں بھیجا گیا ہمیں بتا یا گیا کہ آئی سی یو میں جگہ ہی نہیں … اف اللہ میں وہ لمحے کیسے بھول سکتی ہوں.. جب علیشاء کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں اور ہم بے بسی کی تصویر بنے اسے دیکھ رہے تھے-علیشاء تو مرگئی ہمیں افسوس بھی نہیں کیونکہ اس معاشرے میں زندہ رہتے ہوئے بھی ہم مردہ ہیں کیونکہ نہ تو ہمارا اس معاشرے میں کوئی مقام ہے نہ ہی ہمیں کوئی توجہ دیتا ہے اس لئے اب ہمارے لئے شرم ، موت و زندگی کی کوئی اہمیت نہیں-ویسے عمران خان ! ہم خواجہ سراء تو اس معاشرے میں رہنے والوں سے اچھے ہیں جو کم از کم اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں و ناانصافیوں پر آواز تو اٹھا لیتے ہیں —

واری جاؤں عمران خان آپ کے …. آپ نے تو بڑے دعوے کئے تھے کہ ہم ہسپتالوں کا انتظام بہترکرینگے لیکن میں ایک خواجہ سراء کی حیثیت سے کہتی ہوں کہ ہسپتالوں میں کوئی تبدیلی، کوئی بہتری تو نہیں آئی ہاں تبدیلی آئی تو اتنی سی کہ آپ کے رشتہ دار ، پارٹی رہنماؤں کے کاروباری پارٹنر یہاں پر آگئے ہیں – اور ہاں یہاں پر ان لوگوں کی حالت بدل گئی جو انسانیت کی خدمت کے دعوے کرتے ہیں ان کی تنخواہیں دگنی ہوگئیں لیکنانکے کام کا حال کیا ہے …کبھی غلطی سے آکر دیکھ لیں.. لاؤ لشکر کیساتھ مت آئیں پھر دیکھیں یہاں انسانیت کیسی بکتی ہیں…

عمران خان صاحب ! سال 2013 ء میں جب انتخابات ہورہے تھے تو اس صوبے کے نوجوانوں کے خوشی میں لگتے ٹھمکے دیکھ کر ہمیں امید ہو چلی تھی تھا کہ "آنیوالی ہے تبدیلی” کیونکہ انکے ٹھمکے دیکھ کر ہم اپنے ٹھمکے بھول جاتے تھے انہی ٹھمکوں کی بناء پر تو ہمیں تو خواجہ سراء کہا جاتا ہے لیکن اب یقین ہوگیا ہے کہ ” ٹھمکے” لگانے والوں میں بڑے بڑے بھی شامل ہیں.. جنہیں کوئی کچھ نہیں کہتا … باقی آپ بھی سمجھدار ہیں…

اپنے عمران خان ! خواجہ سراء کی حیثیت سے ہسپتال میں آنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ یہاں پر "سسٹم "نہیں. آپ کی حکومت نے تو ابھی تحقیقات کیلئے کمیٹی قائم کردی ہے لیکن کیا یہ کمیٹی صرف کلاس فور ملازمین کو ٹارگٹ بنانے کیلئے تو نہیں بنائی گئی ویسے ہسپتال انتظامیہ تو بڑے دعوے کرتی ہے کہ سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیں کیا انکوائری کمیٹی ان سی سی ٹی وی کیمروں میں نہیں دیکھ سکتی کہ کیا ہوا تھا-یا یہ سی سی ٹی وی کیمرے بھی صرف "نعرے "ہیں-

عمران خان صاحب! میں کہنا نہیں چاہتی لیکن اب مجبوری ہے ہمیں کہا جارہا ہے کہ حکومت پر تنقید نہ کریں آپ کو حکومت بہت کچھ دیگی.. لیکن ہم اس معاشرے میں رہنے والے ان بزدل رہنماؤں کی طرح نہیں جو صرف اپنا سوچتے ہیں ہم اپنی کمیونٹی کا سوچتے ہیں.. بھلے سے کچھ بھی ہو جائے… لیکن ہم بولیں گے اور ڈٹ کر بولیں گے…
اب آخری بات جس پر میں اپنی بات ختم کرنا چاہونگی کہ ہماری زبانیں بہت کالی ہوتی ہیں. یعنی ہماری بد دعا قبول ہوتی ہیں.. جن لوگوں نے ہمارے ساتھ ظلم کیا، ہمارا مذاق اڑایا اور ہمیں جینے کا حق نہیں دے رہے ہم ان کیلئے یہی دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ انہیں ہماری طرح اولا د دے کہ انہیں ہماری دکھوں کا احساس ہو…

فقط
ایک خواجہ سرا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے