ہم ایک دوسرے سے خوفزدہ کیوں ہیں؟

یہ 2007 کے اوائل کا قصّہ ہے۔ لندن میں ہوئے دہشت گردی کے واقعات کو حالانکہ دو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا تھا مگر پھر بھی لوگوں کے ذہنوں پہ اور ان کی گفتگو میں ان واقعات کے اثرات کو ابھی زنگ نہیں لگا تھا۔ میں اپنی رات کی شفٹ ختم کر کے بذریعہ بس گھر لوٹ رہا تھا۔بس میں لوگوں کی تعداد گنجائش کی نسبتا کافی کم تھی۔ اکثر سیٹیں خالی تھیں اور اس کی وجہ صبح کے اوقات تھے ےیعنی قریب 6 بجے کا وقت تھا۔ برطانیہ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہاں ہر رنگ ، نسل اور مذہب کے لوگ پائے جاتے ہیں اور اس حقیقت کا اعتراف بس میں موجود مسافر بھی تھے۔

ایک سٹاپ پہ بس رکی تو ایک نوجوان جس نے عربی طرز کا ایک لمبا سا جُبہّ پہن رکھا تھا ،سوار ہوا۔ ہاتھ میں تسبیح، زبان پہ ورد، لمبی سیاہ گھنی داڑھی ، وہاں اس طرز کے جُبے ّ بہت مقبول ہیں۔ خاص طور پہ ان لوگوں میں جو باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہیں۔ اپنے چہرے کے خدوخال سے وہ بھارتی، پاکستانی یا بنگلہ دیشی کوئی بھی ہو سکتا تھا مگر اس کا حلیہ اسے ایک مسلمان ثابت کرنے کے لئے کافی تھا۔ سب سے پہلے جس بات نے میری ادھ سوئی آنکھوں کو چونکنے پہ مجبور کیا وہ بس میں موجود سبھی لوگوں کا اسے سر تا پا گھورنا تھا۔ یہاں اس بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ اسے وہاں کی معاشرتی اخلاقیا ت کے برعکس ایسے معیوب انداز میں گھورنے والوں میں فقط گوری یا سیاہ چمڑی والے ہی نہیں تھے ” اپنے ” بھی تھے۔ اپنے کا لفظ وہاں پاکستانی نک نیم کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔مختصراً وہ ان چبھتی نگاہوں کا شکار مسلم، غیر مسلم دونوں سے ہوا تھا۔

دوسری بات جو زیادہ حیران کن اور غور طلب تھی وہ سبھی مسافروں کا اسے خوف زدہ نگاہوں سے بار بار دیکھنا تھا۔ مجھے بھی مجبوراً معاشرتی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک نظر مڑ کے سبھی کے چہروں کو دیکھنا پڑا اور اس ایک طائرانہ سی نظر نے یہ واقعی آشکار کیا کہ لوگ اس کی موجودگی میں بے چینی سی محسوس کر رہے تھے۔ ایک خاتون تو خاصی گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔ بقیہ سبھی مسافروں کا یہ حال دیکھ کےخدا گواہ ہے جو پہلا خیال میرے ذہن میں اترا تھا کہ مجھے بھی باقاعدگی سے نماز شروع کر دینی چاہئے وہ نہ جانے ماحول کا اثر تھا یا میرے اندر کے کسی وہم کا کہ وہ خیال خوف میں بدل کر آیت الکرسی کی صورت میری زبان پہ جاری ہونے لگا اور سبھی کی طرح میں بھی اپنے اندر ایک بے نام سی بے چینی سی محسوس ہونے لگی۔ وہ نوجوان مسافروں کے اس طرز کے ردّعمل ساے مکمل بے خبر اپنی تسبیح میں مصروف تھا۔

اتنے میں وہ خاتون اٹھیں اور ڈرائیور سے بس روکنے کا تقاضا کرنے لگیں۔ بس اپنے سٹاپ سے پہلے نہیں رک سکتی تھی مگر وہ خاتون ہیجانی سی کیفیت میں ڈرائیور پہ چلانے لگی۔ ڈرائیور شاید چالان کے خوف سے بس روکنے کی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ خاتون اونچی آواز میں چلا بھی رہی تھی اور ساتھ ساتھ اس نوجوان کو بھی دیکھ رہی تھی آخر کات سٹاپ پہ بس رکی اور وہ خاتون اچھلتے ہوئے بس سے ایسے اتری جیسے موت اس کا پیچھا کر رہی ہو اور وہ اس سے بھاگ کے دور جانا چاہتی ہو۔ میرے سمیت سبھی یہ اندازا لگا چکے تھے کہ وہ شدید خوف کے اثر میں تھی۔ نوجوان حقیقت سے بے خبر خاتون کے ایسے رویئے پہ کافی حیران لگ رہا تھا۔ وہ جانے اس کی نظریں پڑھ سکا یا نہیں مگر وہ اس حقیقت سے لا علم ہی رہا کہ اس کایہ سلامتی، محبت اور بھائی چارے کے مذہب کی نمائندگی کرنے والا حلیہ آج کسی کے لئے اس درجہ خوف کی علامت بن گیا کہ ایک خاتون اس کی موجودگی میں چند میل کا سفر سکون سے طے نہ کر سکی اور بس کو اپنے مطلوبہ مقام سے پہلے ہی اپنے لئے غیر محفوظ سمجھا اور بس سے اتر گئی۔

وہ خاتون اتر گئی ۔ وہ نوجوان بھی اپنے سٹاپ پہ بس کو الوداع کہ گیا مگر یہ واقعہ میرے ذہن میں ایک سوا ل جوبیدار کر گیا وہ یہ تھا کہ کیا واقعی ہم ایک دوسرے سے ڈر گئے ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ہمارے جیسے انسانوں سے ہی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ کیا انسان ہی انسان کے لئے خوف کی علامت بن چکا ہے۔ ہم اس قدر سہم گئے ہیں کہ اپنے سائیوں سے بچتے پھر رہے ہیں۔ معاشروں کی بنیاد تو قربتوں سے ہے، فاصلے تو توڑ پھوڑ اور تفریق کی نشانی ہیں۔

ہم نےایک دوسرے سے چند گز کے فاصلے پہ رہتے ہوئے بھی میلوں کی مسافتوں پیدا کرنی شروع کر دی ہیں۔ اس خوف نے ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ مار دیا ہے۔ ہم آدھی رات کو ویران سڑک پہ کھڑے کسی بزرگ کو اپنے گاڑی میں اس لئے نہیں بٹھاتے کہ رستے میں کہیں اس کے کمزور بازو ہم سے ہماری جمع پونجی نہ چھین کے لےجائیں۔ ہم مجبوری میں کسی کو اپنا فون اس لئے استعما ل نہیں کرنے دیتے کہ کہیں وہ لے کے بھاگ نہ جائے۔ ہم کسی سنسان جگہ پہ کھڑی کسی برقعہ پوش خاتون کے ہاتھ کے اشارے کو اس لئے نظرانداز کر دیتے ہیں کہ ہم رکے تو جھاڑیوں کی اوٹ سے چند مسلح افراد ہمیں اپنے اشاروں پہ نہ نچانے لگیں ۔ اس خوف نے ہماری عبادتوں کا سکون چھین لیا ہے، ہم نماز پڑھتے اسی پریشانی میں گھرے رہتے ہیں کہیں یہ نماز ہماری آخری نماز کی وجہ نہ بن جائے۔ ہماری مساجد، امام بارگاہ، درسگاہیں جو امن و تحفظ کی علامت سمجھی جاتی تھیں آج وہاں داخل ہونے والاہر شخص پہلے تلاشی کے ذریعے اپنے پر امن ہونے کا ثبوت دیتا ہے تب اسے داخلے کی اجازت ملتی ہے۔

شرمندگی مجھے اس دن ہوئی جب ایک دن ہمارے گھر کے دروازے پہ دستک ہوئی کوئی معمر سی خاتون تھیں، کہا بیٹا کچھ نہیں چاہئیے، بہت بھوک لگی ہے، کھانے کا وقت ہے اگرکچھ کھانے کو مل جائے تو؟ میں نے انہیں اندر ڈرائینگ روم میں بٹھانا چاہا تو والدین گھبرا گئے، کہا بیٹا ان کے ساتھ ڈاکو ہوتے ہیں، یا تو یہ اندر کے حالات کا جائزہ لینے آئی ہے یا اس کے اندر آتے ہی اس کے پیچھے وہ بھی گھس آئیں گے، ہم خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ مجبوراً مجھے انہیں روٹی، سالن اور پانی باہر گیٹ کے پاس زمین پہ بٹھا کے دینا پڑا ۔ یہ اس خاتون کی تذلیل تھی ، انسانیت کی تذلیل تھی۔ وہ کھانا کھا کے چلی گئی اور میں یہ سوچتا رہاکہ وہ تو کھانا کھانے ہی آئی تھی ہم اگر خوف ذدہ نہ ہوتے تو اسے عزت سے اندر بٹھا کے کھلا سکتے تھے۔

ایک دن میرا ایک دوست بڑے مزے سے اپنا ایک کارنامہ سنا رہا کہ ہم کچھ دوست مارکیٹ میں گئے۔ عید کی آمد قریب ہونے کے باعث رش کافی تھا کہ اچانک ہمیں ایک شرارت سوجھی، ہم میں سے ایک نے زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور ساتھ ہی زمین پہ بیٹھ گیا ، لوگوں نے نہ جانے اس کا کیا مطلب لیا کہ ایک ہلچل سی مچی اور لوگ کلمہ پڑھتے ہوئے زمین پہ لیٹنے لگ گئے۔ میرے دوست کے لئے یہ فقط ایک مزاح تھا مگر میرے لئے ایک لمحۂ فکریہ کہ کیا واقعی ہم اتنے ڈر گئے ہیں کہ آج اگر کوئی اچانک بھیڑ میں اس ذات باری تعالیٰ کہ جس کی رحمت بے حساب ہے کا نام اونچی آواز میں کوئی بلند کرے تو ہمیں بجائے سکون کے جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔

پڑوسی جاسوس لگنے لگا ہے، نمازی ، نمازی سے خائف ہے، مسافر اپنے ساتھ بیٹھے دوسرے مسافر پہ بھروسہ نہیں کرتا، رشتے بے اعتبار ہوتے جا رہے ہیں، خلوص غرض لگنے لگا ہے، ایمان ملاوٹ ذدہ محسوس ہونے لگا ہے، اپنے علاوہ ہر مذہب سے کفر کی بدبو آنے لگی ہے اور اسے سونگھنے والے ایسے بھی ہیں کہ جنہیں اس حس کی ح سے بھی واقفیت نہیں ہے۔ ہر سچ میں جھوٹ کا گماں ہوتا ہے، والدین اولاد، اولاد والدین سے غیر محفوظ ہونے لگے ہیں، امیر کو غریب سے چوری کا خدشہ، غریب کو امیر سے ظلم کا خوف۔ ہم اس خوف کی پکڑ میں ہیں اور یہ رفتہ رفتہ ہماری ایک دوسرے کے بیچ مسا فتوں کی دیوار کو بلند سےبلند تر کرتا جا رہا ہے ہم ایک دوسرے سے دور ہونے لگے ہیں ، ہم ایک دوسرے سے ڈرنے لگے ہیں۔

مجھ کو انساں کوئی مار ہی ڈالے گا
مروائے گا مجھ کو میرا انساں ہونا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے