قُلی​ کالباس نہیں حالات بدلنے ہوں گے

انیسویں صدی کے نصف میں ریل نے سیٹی بھری- دھواں اڑاتی ٹرین جب برصغیر کے طول و عرض سے گزری تو اک نئے دور کا آغاز ہوا ،کہاں بیل گاڑیوں پر مہینوں کا سفر اور کہاں ٹرین کا گھنٹوں کا سفر – ریل نے یہاں کی معیشت کو بدلا ،روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ،مزدور کا تیشہ سنگلاخ پہاڑوں کو چیرتا ہوا ،آہنی لائنوں کا رستہ صاف کر رہا تھا – نئے پیشوں نے جنم لیا ، کچھ گینگ مین ،گیٹ کیپر اور قلی ہوئے اور کچھ ریلوے گارڈ ہو ئے -سرخ کُرتا پہنے اور بازو پر پیتل کا ٹیگ لگائے مسافروں کا سامان ڈھوتا قلی ، جو اپنے نام کے ساتھ حقارت اور نسل پرستی لیے ہو ئے اس زمانے کی یاد دلاتا ہے جب یورپ اور بعد ازاں امریکہ میں غلامی کا خاتمہ ہوا – بعد میں اس کمی کو ٹھیکے کے مزدوروں یعنی قُلیوں نے پورا کیا ۔ امریکہ اور کریبین میں مشرقی اور جنوبی ایشائی مزدوروں کو جہازوں میں بھر کے لایا جاتا -جو گنے کے کھتیوں میں کام کرتے یہ محنت کش مقامی مزدور رہنماؤں، سیاست دانوں اور مقامی شہریوں کی سخت تنقید کا نشانہ بنے ،جن کا مؤقف تھا کہ بیرونی مزدور اجرتوں میں کمی کا باعث اور غیر منصفانہ طریقے سے مقامی مزدوروں کی جگہ لے رہے ہیں-ان ٹھیکے پر کام کرنے والے مزدوروں کی اکثریت چینیوں کی تھی- قُلیوں کو غلامانہ دور کی نئی شکل بھی کہا گیا لیکن قُلی کسی کی ذاتی ملکیت کی حیثیت سے کام نہیں کرتے تھے بلکہ ان کو مزدوری ملتی جو سال کے تقریباََ 45 ڈالر ہو تے اور علاج کی سہولیات بھی انہیں میسر تھی۔ انگریز یہاں سے مزدور لیتے اور انہیں نوآبا دیا ت کے دیگر علاقوں میں کام پر لگاتے عام طور پر یہ کنٹریکٹ 5 برس کے لئے ہوتا ۔ امریکہ میں چینی قُلیوں کی بڑھتی تعداد کو روکنے کے لئے 1860 میں ابراہم لنکن نے ” اینٹی قُلی بِل ” پاس کیا جس کی رو سے امریکیوں کو قُلیوں کی امریکہ داخلے پر پابندی لگا دی گئی- لیکن روزویلٹ کے دور میں، پانامہ کینال کی تعمیر کے دوران لیبر کی بڑھتی ضرورت نے قُلیوں کے لئے روزگار کے دروازے کھول دیے –
قُلی غیر ہنر مند مزدور ہو تے جو زیادہ تر وزن اٹھانے کے لئے رکھے جاتے ریلوے کے قلی ان سے مختلف نہ تھے ۔ جو کہ کنٹریکٹ لیبر ہوتے ہیں ۔ ڈیڑھ صدی گزری ،ہندوستان میں ریل کے راستے تو نہ بدلے مگر ان راستوں میں کئی سرحدیں آگئی ، ترقی ہوئی ،سٹیم انجن سے ڈیزل انجن اور پھر برقی انجن آگئے ۔ جدت نے پرانی ٹیکنالوجی کو رخصت کیا – ٹرین رواں رہی اور قلی بھی سامان کا بو جھ تھامے رہے – ان کا ڈیڑھ صدی پرانا لباس جو نوآبادیاتی دور کی یاد دلاتا بھی ویسا رہا اور ان کے معاشی حالات بھی ویسے ہی رہے – لیکن اب وزارت ریلویز نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ قُلی کا پرانا یونیفارم تبدیل ہو گا جو سبز رنگ کا ہو گا اور اس فیصلے کا اطلاق یکم جون سے ہو گا -قُلی ریلوے کے ملازم نہیں ہوتے بلکہ ایک ٹھیکے دار کی ماتحت ہوتے ہیں جو ان سے ان کی مزدوری کا 30 فیصد لیتا ہے -ہر سال ریلوے دوکروڑ روپے قُلیوں سے اکھٹا کرتی ہے ۔لیکن ریلوے سٹیشن پر ان کے لئے نامناسب سہولیات ہیں نہ ان کے بیٹھنے کے لئے جگہ نہ آرام کے لئے ، اب ان کا یونیفارم تبد یل ہو رہا شاید اب قُلی کے نئے یونیفارم سے اس کا پسینہ نظر آئے گا-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے