ڈاکٹر پرویز ہُود بھائی کی کہانی

میں ایک اسماعیلی فیملی میں پیدا ہوا۔ میرے نانا حیدرآباد کے نواح میں ایک جگہ سے تعلق رکھتے تھے، جسے اب سلطان آباد کہا جاتاہے۔ وہ (پرنس کریم )آغا خان کے ساتھ بہت مخلص تھے۔ گاؤں میں اُن کے پاس خاصی زیادہ زمین تھی۔ انہوں نے وہ ساری زمین ’’آغاخان‘‘ کو ڈونیٹ کردی اور اس طرح خود’’وارث‘‘ بن گئے۔

(نوٹ: غالباً ’’وارث‘‘، اسماعیلی برادری میں کسی مذہبی عہدے کا نام ہے)

میرے داد بھی بہت زیادہ مذہبی آدمی تھے۔ حقیقت یہ ہےکہ کراچی میں اسماعلیوں کا پہلا ’’جماعت خانہ‘‘ میرے دادا نے اپنی ذاتی رقم سےبنوایا تھا، جس کے نتیجہ میں ’’سلطان محمودشاہ‘‘ نے انہیں، ’’مُکھی‘‘ (سردار) کا لقب دیا۔ میرا نام ’’ھُود بھائی‘‘، ایک پیغمبر ’’ھُود‘‘ کے نام پر ہے۔ ھُود پیغمبر قران کے ’معمولی انبیأ ‘ میں سے ایک ہیں۔ سو میں ایسے خاندان میں پیدا ہوا جس کی جڑیں ’’اسماعیلیت‘‘ میں بہت گہری تھیں۔ البتہ میرے والد ایسے ماحول سے مطمئن نہ تھے۔ وہ اسماعیلی نظام کو استحصالی نظام سمجھتے تھے۔ان کی اس باغیانہ طبیعت کے اثرات تمام بچوں پر پڑے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے کزنوں کی طرح روایتی ماحول میں بڑے نہیں ہوئے۔ بارہ سال کی عمر میں، میں نے اپنے اندر بغاوت کا پہلا عنصر محسوس کیا۔ میری بڑی بہن، صوم و صلاۃ کی روایت سے بڑی تنگ تھی۔ اُس کی یہ بے چینی مجھے منتقل ہوئی اور میں نے اسماعیلی ازم کے خلاف بغاوت کردی۔ مجھے یاد ہے میں اپنے گھر میں علی الاعلان کہا کرتا تھا کہ، ’’آغاخان فراڈ ہے‘‘۔ اس بات سے میرے والدین غم وغصہ کا شکارہوجاتے تھے۔ ایک دن جب میرے والدین گھر پر نہیں تھے، میں نے آغاخان کی تصویروں والے فریمزاپنے سارے گھر میں سے اُتارے اور انہیں توڑ دیا اور خود ایک دن کے لیے گھر سے بھاگ گیا۔ بعد میں انہوں نے مجھے معاف کردیا کیونکہ وہ میرے گھر سے چلے جانے پر پریشان ہوگئے تھے۔

اس طرح میں اسماعیلیت سے ’’پراپر اسلام‘‘ کی طرف آیا اور میں نے مسجد میں جانا شروع کردیا۔ چودہ سال کی عمر تک میں اسلامی تعلیمات میں مکمل شامل رہا۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے، میں نے ’’برناڈ شا‘‘ کے ڈرامے پڑھنے شروع کردیے اور پھر بعد میں ’’برٹرینڈ رسل‘‘ کا مطالعہ کیا۔ اس مطالعہ نے مجھے چاروں خانے چت ،گردایا ۔ اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی۔ میں ہارگیا۔ میں ’’تمام اچھی چیزوں‘‘ سے ہار گیا۔

میں نے ’’کراچی گرامر سکول‘‘ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ یہ ایک ایسا سکول تھا جہاں کوئی شخص معاشرے کے مسائل پر بات نہیں کرتا تھا۔ یہاں سب بچے طبقۂ اُمرأ سے تھے اور وہ ہروقت ، ڈانس اور پارٹیاں اور مزے اُڑانے کی باتیں کیا کرتے تھے۔میں اُن کے ساتھ کچھ عرصہ ایسی پارٹیوں میں جاتارہا ہوں لیکن اِس لائیف سٹائل سے میں کبھی خوش نہیں تھا۔ میرے والد زیادہ اَمیر نہیں تھے اور انہوں نے ، 1964 میں، جب میں چودہ سال کا تھا، ایک مالی بحران کا سامنا بھی کیا تھا۔ اُن دنوں یہ عین ممکن تھا کہ مجھے اُس سکول سے نکال دیا جاتا اور قدرے کم مہنگے سکول میں بھیج دیا جاتا۔ لیکن کسی نہ کسی طرح میرے والد نے مجھے اُسی سکول میں رکھا کیونکہ اُن کی مدد میرے بڑے بھائی بھی کررہے تھے جو امریکہ چلے گئے تھے اور وہاں سے رقم بھیج کر فیملی کی مالی سپورٹ کررہے تھے۔ خیر!، تو میں ایسے سکول کی پیداوار تھا اور اِس لیے معاشرے اور اپنے گرد پھیلی دنیا کے معاملے میں بے حس تھا۔

یہ فی الحقیقت، میرا امریکہ جانا اور ’’ایم آئی ٹی‘‘ (MIT) میں آنا ہی ہے جس نے مجھے مکمل طور پر بدل دیا اور اُس شخص سے بالکل مختلف شخص بنا دیا جو میں پہلے ہوا کرتا تھا۔ میرے والد ایک سطح پر تو باغی تھے لیکن دوسری سطح پر پکے پیروکار تھے۔ یعنی کبھی کبھار وہ غیر مستقل مزاج ہوجاتے تھے۔ کچھ لوگ اُنہیں سَنکی بھی کہتے تھے۔ وہ آغاخان کے اُس استحصالی تعلق سے باخبر تھے جو آغاخان کا اپنی کمیونٹی کے ساتھ تھا۔ اُنہیں یہ بات بہت غلط لگتی تھی کہ لوگ آغا خان کو بھاری رقوم عطیہ میں دیتے ہیں اور آغاخان اُس دولت کو گھوڑوں کی ریس میں خرچ کردیتے ہیں۔ میرے والد نے ’’جَنیوا‘‘ میں ایک اچھی زندگی گزاری ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ میرے والد اپنی زندگی کے آخری پچاس سالوں میں کبھی ’’جماعت خانہ‘‘ گئے ہو نگے۔ میری والدہ کا اگرچہ ’’مذہبی ایمان‘‘ نہیں تھا لیکن ایک پیروکار کے طور پر وہ اب بھی جماعت خانہ جاتی ہیں۔ ان سب حالات نے مجھے متاثرکیا لیکن میں سوچتا ہوں کہ میری لڑکپن کی بغاوت نے میری چھوٹی بہنوں پر ضرور اثرڈالا ہوگا۔

جب میں نے پاکستان میں اپنی تعلیم مکمل کرلی تو میں نے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کی کوشش شروع کردی۔ میرے لیے اس وقت تک بیرونِ ملک جاکر پڑھنا، جب تک مجھے ’’فُل سکالرشپ‘‘ نہ ملتی، ممکن نہیں تھا ۔ میں خوش قسمت تھا کہ ’’ایم آئی ٹی‘‘ نے مجھے داخلہ اور سکالرشپ تو آفر کردی لیکن یہ سکالرشپ کُل فیس کا صرف پچاس فیصد تھی، جو کہ اُس وقت فی سمسٹر، 3200 ڈالر کی رقم تھی۔ میں جانتاتھا کہ اب باقی کی رقم مجھے خود کمانا ہوگی۔ لہذا پہلے دن ہی جب میں، بوسٹن میں اُترا تو میں نے نوکری کی تلاش شروع کردی۔ پہلی نوکری جو مجھے ملی وہ ایک کیفے ٹیریا میں تھی۔ میں وہاں ٹائیلٹس صاف کیا کرتاتھا۔ میں میڈیکل کی فیلڈ میں تجربات کے لیے خودایک ’’سبجیکٹ‘‘ کے طور پر بھی کام کرتارہا ہوں۔ میں ہفتے میں تیس گھنٹے کام کیا کرتا تھا۔ لیکن میں پھر بھی خوش تھا۔ میں محسوس کرتا تھا کہ میں اب ’’دانشوری کی جیل‘‘ سے آزاد ہوچکاہوں۔

مجھے ایم آئی ٹی میں اپنے کورسز سے محبت تھی۔ وہ تمام کورسز ایک ’’تازہ ذہن شخص‘‘ کے لیے خاصی لذیذ پیشکشیں تھیں چنانچہ میں نے اپنے آپ کو کورسز سے ’’اوور لوڈ‘‘ کرلیا۔ تب میری عمر صرف سترہ سال تھی۔ یہ بالکل ایسا تھا جیسے آپ کسی خوبصورت باغ میں سیر کررہے ہوں اور آپ کے چاروں طرف خزانے ہی خزانے ہوں۔ سو میں کورسز کا لالچی ہوگیا اور میں نے پہلے سمسٹر میں ہی کورسز کا دُہرا بوجھ اُٹھا لیا، جبکہ ہفتے میں تیس گھنٹے کام بھی ساتھ ساتھ کرتارہا۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ اب میں ٹھیک سے سو نہیں پارہاتھا۔ اِس وجہ سے پہلے سال کے اختتام تک میں ’’اعصابی تباہ حالی‘‘ کا شکار ہوگیا۔ میری فیملی (اُن دنوں) شدید مالی مسائل میں مبتلا تھی سو میں نے اُن کی مدد کے لیے کچھ رقم گھر بھیجنا بھی شروع کردی۔ لیکن تب میں نے محسوس کرنا شروع کردیا کہ مزید میں امریکہ میں نہیں رہ سکتا۔ میں وہاں نہیں رہنا چاہتاتھا۔ مجھے وہاں رہنے سے شدید نفرت ہونے لگی۔ میں اپنے کورسز سے تو مکمل طور پر خوش تھا لیکن اُس معاشرے کے لیے میرے دل میں نفرت پروان چڑھ چکی تھی۔ میرا وہاں کوئی ایک بھی دوست نہیں تھا۔ مجھے اُس مشینی معاشرے سے نفرت ہوگئی تھی۔ مجھے اپنا آپ کسی بڑی گراری کا ایک دندانہ محسوس ہوتاتھا۔ میں اپنے آپ کو مکمل طور پر اجنبی اور مشینی سا محسو س کرتاتھا جس کی شخصیت معدوم ہوچکی تھی۔

مجھے پاکستان میں اپنی زندگی اتنی بُری طرح سے یاد آتی تھی کہ بالآخر میں ٹُوٹ گیا اور سمسٹر کو چھوڑ کر پاکستان واپس آگیا۔ یہاں میں نے اپنی صحت اِس طرح بحال کی کہ میں نے اپنے اُسی پرانے سکول میں پڑھانا شروع دیاجس کے ساتھ میرا مضبوط جذباتی رشتہ تھا۔ اب ماضی کے جھرونکے میں پیچھے مُڑ کردیکھتاہوں تو لگتاہے کہ وہ میرا ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ بہرحال ایک سمسٹر گزارنے کے بعد میں اب دوبارہ واپس جانے کے لیے تیار تھا۔ جب میں واپس ’’ایم آئی ٹی‘‘ آیا تو میں نے وہی سابقہ معمولات دوبارہ بحال کردیے، یعنی زیادہ کورسز لینا اور ہفتے میں تیس گھنٹے کام کرنا۔ لیکن اب کی بار میں میں ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہوا۔ اب میں اُن تمام موتیوں کو حاصل کرنے کے لیے آمادہ تھا سو میں نے دوبارہ اپنی جیبوں کو(ان موتیوں سے) بھرلیا۔ نتیجۃً چار سال کے اختتام پر، میرے پاس دو ڈگریاں تھیں۔ ایک الیکٹریکل انجنیئرنگ میں اور دوسری میتھ میں اور ایک ماسٹرڈگری فزکس میں (ان کے علاوہ تھی) ۔ یہ سب میں نے بنیادی طور پر صرف ساڑھے تین سال میں کیا۔اگرچہ ایسا کرتے ہوئے میں نے خود پر اضافی دباؤ ڈال لیا تھا لیکن آخر میں مجھے اپنی محنت شاقہ کی اہمیت کا پتہ چل گیا۔

اسی عرصہ میں، میں اپنے سیاسی شعور کی تبدیلی کے مرحلے سے بھی گزرا۔ یہ تبدیلی دراصل اس وقت کے حالات کی وجہ سے وارد ہوئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا، جب ’’ویتنام کی جنگ‘‘ کے خلاف تحریک اپنے عروج پر تھی۔ یہ وہی وقت تھا جب مغربی پاکستان کی فوج نے بنگالیوں کا وحشیانہ قتل عام شروع کررکھا تھا۔ اسی زمانے میں بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔ مجھے ٹی وی کے وہ پروگرام یاد ہیں جوفوج کے مظالم دکھا تے تھے۔ میرے ذہن میں اب بھی ایک پاکستانی فوجی کی دھندلی سی تصویر ہے جس کے کٹے ہوئے سر کو بالوں سے باندھ کر لٹکادیاگیاتھا۔ یہ تصویر نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی تھی۔ ان تصاویر نے مجھے بہت زیادہ اذّیت میں مبتلا کیا۔ یہ وہی زمانہ ہے جب میں کچھ ایسے لوگوں سے ملا جو میری سوچ پر بہت زیادہ اثراندازہوئے اور میری زندگی کا دھارا ہی بدل دیا۔

اُن میں سے ایک اقبال احمد تھے۔ یہ 1971 کی بات ہے جب میں ان سے پہلی بار اُس وقت ملا جب انہوں نے ’’ویتنام کی جنگ‘‘ کے موضوع پر ایک تقریرکی تھی۔ جب میں نے انہیں پہلی بار بولتے ہوئے سنا تو مجھے گویا سانپ سونگھ گیا ۔انہوں نے بڑے زور دار طریقے سے ویتنامیوں کی تکالیف اور امریکییوں کی ویتنام میں، مکمل طور پر غیر اخلاقی کارپٹ بمباری کا نقشہ کھینچ کررکھ دیا۔ دوسری شخصیت جس نے مجھے متاثر کیا ، وہ نوم چومسکی ہے۔ میں دُور دُور سے اُس کی عبادت کیا کرتاتھا۔ یہ وہ حالات اور وہ لوگ تھے، جنہوں نے مجھے بے پناہ متاثر کیا۔ تب میں اپنے آپ کو امریکی معاشرت میں بالکل اجنبی محسوس کرنے لگا۔ یہاں تک کہ میں بایاں بازُو (لیفٹ وِنگ) کے ریڈیکل مارکسیوں سے بھی اجنبیت محسوس کرنے لگا، جن کے ساتھ میں نظریاتی طور پر متفق تھا، انہی کے ساتھ سماجی طور پر میں خود کو غیر متعلق پاتا تھا۔

ایک زمانہ تھا جب میں نے اُنہیں (مارکسیوں کو) ’’ایم آئی ٹی کے اَکوپیشنز‘‘ میں جائن کیا تھا اور ہم نے عمارتوں پرقبضہ کرکے اُن کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور پولیس نے ہمیں گھیر لیا تھا اور مجھے ’’پرووسٹ‘‘ نے خود آکر دھمکی دی تھی کہ وہ مجھے نکال دے گا۔ میں ڈرگیا تھا لیکن اُس وقت میں کچھ نہ کرسکتاتھا۔ لوگوں کا ہجوم میرے پیچھے تھا۔ اچانک مجھے لوگوں نے آگے کی دھکا دیا اور اُسی وقت ہم نے گولی چلنے کی آواز سنی۔ پولیس آفیسر نے (شاید ہوائی) فائر کیا تھا۔ گھبراہٹ سے سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ بہرحال میں بچ گیا۔

سیاسی تبدیلی کے ساتھ ساتھ میں فزکس سے محبت میں بھی مبتلاہوچکاتھا۔ پاکستان جاکر میں انجنئرنگ کرناچاہتاتھا۔ میں نے ’’ریڈیو ٹرانسمیٹرز‘‘ بنائے اور ’’آپٹکل کمیونکیشن ڈیوائسز‘‘ بنائیں اور بس میں دیوانہ تھا اس سب کے لیے۔ اصل میں الیکٹرانکس میرے خوابوں میں سے ایک تھی لیکن جب میں ایم آئی ٹی پہنچا تو میں نے اچانک (الیکٹرانکس میں) دلچسپی کھودی۔ میری یہ دلچسپی ، کہیں زیادہ تجریدی موضوعات کے ساتھ بدل گئی، مثلاً ’’زمانے کی نیچر کیا ہے؟، مکان کی نیچر کیا ہے؟ اور اِسی طرح بعض لوگوں سے ملنا، جیسے، فلپ موریسن (Phillip Morrison) نے مجھے واقعی متاثر کیا۔ اس وقت میں سوچتا تھا کہ فزکس سے زیادہ کوئی شئے خوبصورت نہیں ہے۔ سو میں نے بہت زیادہ محنت سے پڑھا اور بہت زیادہ محنت سے کام کیا اور اپنے گھروالوں کی مالی مدد کے لیے گھر بھی پیسے بھیجتارہا۔

کام اور تعلیم سے ہٹ کر میری کوئی زندگی نہیں تھی۔ میں کام اور پڑھائی کو ملا کر ایک دن میں اٹھارہ گھنٹے اور ہفتے میں سات دن مصروف رہتاتھا۔ میں اس سے ہٹ کر کچھ کرنا بھی نہیں چاہتاتھا۔ میں چاہتا تھا کہ میں اپنی تعلیم مکمل کروں، ڈگریاں حاصل کروں اور واپس پاکستان جاکر انقلاب کا حصہ بنوں۔ میں روایتی، مذہبی اور یہاں تک کہ سماجی اداروں کو پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ اب مجھے اُن سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اگرچہ میں ’’پاکستان سٹوڈینٹ فیڈریشن‘‘ کا صدر تھا لیکن مجھے پھر بھی ان کے ساتھ شدید سیاسی اختلافات تھے، خاص طور پر بنگلہ دیش کے مسئلہ پر۔ یہ سب تلخ تھا۔ ہم جب بھی ملتے تھے، ہم غصے میں ہوتے تھے۔ مجھے لگتا تھا کہ ’’ہم بنگلہ دیش میں (بنگالیوں کی) نسل ہی مِٹا دینا چاہتے ہیں‘‘۔ فلہذا میں پاکستان آنا چاہتا تھا اور یہاں کی سیاست میں شامل ہونا چاہتاتھا۔ مجھے امریکہ سے جذباتی قسم کی نفرت تھی۔ اب جب ماضی میں جھانکتاہوں تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں (امریکہ سے) اتنی شدت کے ساتھ کیوں نفرت کرتاتھا۔ میں سوچا کرتا تھا کہ سارے کے سارے امریکی مل کر ویتنام کو مٹانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب صدر نِکسن نے ’’ہنوئی‘‘ پر بم گرائے تو میں اپنی بہن کے ساتھ کار میں بیٹھا (ریڈیو پر) خبریں سن رہا تھا۔ جب میں نے بم گرانے کی خبریں سنیں، میں ٹوٹ گیا اور رونا شروع کردیا۔

اس واقعے نے مجھے جذباتی طور پر بہت محرک کردیا۔ اب میں مزید امریکہ میں نہیں رہ سکتاتھا اور وہاں سے نکل جانا چاہتاتھا۔ میں اپنے سیاسی فلسفہ میں مارکسی تھا۔ مجھے یقین تھا کہ سوشلزم اور پھر کمیونزم ہمارے معاشرے کے لیے آگے بڑھنے (یعنی ترقی کرنے) کا کا واحد حل ہیں۔ 1973 میں ، جب میں دو ’بی ایس سی‘ اور ایک ’ایم ایس سی‘ کی ڈگری حاصل کرچکا تھا تو اُن دنوں میں نے پاکستان ایمبیسی کے ’’بُلیٹن‘‘ میں ایک اشتہار دیکھا۔ ’’اسلام آباد یونیورسٹی‘‘ میں ایک آسامی خالی تھی، (اُس وقت اِس کا نام قائدِاعظم یونیورسٹی نہیں تھا)۔ میں نے درخواست ارسال کی، مجھے دعوت آئی اور میں ٹرین کے ذریعے واشنگٹن پہنچا۔ وہ رات میں نے ایک پارک میں گزاری اور اگلی صبح پاکستان ایمبیسی انٹرویو کے لیے چلا گیا۔انہوں نے مجھ سے ایک ہی سوال کیا، ’’آپ کتنی تنخواہ چاہتے ہیں؟ ‘‘ ، میں نے جواب دیا، ’’جو مناسب ہو‘‘۔ انہوں نے کہا، ’’آپ کی نوکری پکی‘‘۔ میں بوسٹن واپس آیا۔ دومہینے بعد مجھے لیٹر موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ مجھے اسلام آباد میں اسسٹنٹ پروفیسرلگادیا گیا ہے اور میری تنخواہ ماہانہ سات سو روپے ہوگی۔ اُس وقت مجھے رقم کی پرواہ نہیں تھی۔ میں نے وہ لیٹر، بے دھیانی سے اپنی کسی کتاب میں رکھ دیا۔ اور پھر یوں ہوا کہ جب میں نے اپنی کتابیں بیچیں تو وہ لیٹر بھی ان کے ساتھ چلاگیا۔ جب میں پاکستان واپس آیا تو میں زندگی میں پہلی بار اسلام آباد گیا، ۔ میں فزکس ڈیپارٹمنٹ گیا اور چیرمین کے دفتر میں حاضری دی۔ چیرمین نے مجھ سے پوچھا،

’’تم کون ہو؟‘‘۔
میں نے جواب دیا،
’’ مجھے فزکس ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر بھرتی کیا گیا ہے‘‘۔
چیرمین نے پوچھا،
’’لیکن تمہیں کس نے بھرتی کیا ہے؟ تمہارا لیٹر کہاں ہے؟‘‘۔
میں نے جواب دیا، ’’لیٹر تو کھوگیا‘‘۔
چیرمین نے کہا، ’’آئی ایم سوری! میں آپ کی کچھ مدد نہیں کرسکتا‘‘۔

تب میں وائس چانسلر ’’کنیز یوسف‘‘ کے دفتر گیا۔ وہ بہت تعاون کرنے والی (آفیسر) تھیں۔ انہوں نے کہا،

’’ویلکم ٹُو یونیورسٹی! میں نے سُنا ہے کہ تم لیفٹسٹ ہو۔ یہاں ’’جماعت‘‘کی وجہ سے ہمیں مسائل ہیں۔ ہوسکتاہے تم ہماری کچھ مدد کرسکو‘‘۔
(نوٹ: شایدیہاں جماعت، جمیعت والوں کو کہا گیا ہے)۔

پھر انہوں نے تھوڑی دیر توقف کے بعد دوبارہ کہا،
’’میں چاہتی ہوں کہ تم اِس یونیورسٹی کو ایم آئی ٹی (MIT) کے جیسابنادو!‘‘۔
میں نے سوچا، ’’ واہ! کیا چیلنج ہے؟‘‘۔
انہوں نے مجھے یہ بتاکر کہ انہوں نے مجھے بھرتی کرلیا ہے، واپس چیرمین کے دفتر بھیجا۔ چیرمین مجھے قبول نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ اس نے کہا،

’’تم وائس چانسلر کے ایجنٹ ہو‘‘۔
میں عجب سی حیرانی میں مبتلا تھا۔ میری جیب میں کُل ایک سو پچاس روپے تھے۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اب آگے کیا کرناہے۔جب میں انتظارکررہاتھا ۔ ایک شخص میرے پاس آیاا ور مجھ سے بولا،

’’آپ دلچسپ آدمی دکھائی دیتے ہیں‘‘۔

جب میں نے اپنا مسئلہ بیان کیا تو اُس نے کہا کہ وہ خود بھی لیفٹسٹ ہے ۔ اُس نے مجھے اپنے لیفٹسٹس دوستوں سے ملوایا اور انہوں نے میری مدد کی کوشش کی۔ میں وائس چانسلر اور چیرمین کے درمیان پھنس کررہ گیا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ چیرمین قانونی طور پر ٹھیک کہہ رہا تھا۔ اسسٹنٹ پروفیسر کے لیے میری تعلیم کم تھی۔ میرے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری نہیں تھی۔ آخرکار چیرمین نے کہا کہ وہ مجھے بطور لیکچرر بھرتی کرسکتاہے۔ میں مان گیا۔ میں اِس کنفیوژن کو ختم کرنا چاہتاتھا۔اُس وقت مجھے اسسٹنٹ پروفیسر اور لیکچرر کے درمیان فرق تک کا پتہ نہیں تھا۔ مجھے ایک کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا۔ جنہوں نے مجھ سے چند ٹیکنکل سوالات پوچھے اور لیکچرر کی حیثیت سے میری تقرری کردی کردی ۔ کمیٹی نے وائس چانسلر کو ایک لیٹر بھیجا جس میں میری حیثیت لیکچرر کی لکھی ہوئی تھی اور تنخواہ آٹھ سو روپے ماہانہ لکھی گئی تھی۔وائس چانسلر نے لیٹر واپس بھیجا اور اس میں لکھا،

’’اسسٹنٹ پروفیسراور تنخواہ سات سو‘‘۔

اس تمام کنفیوژن کے دوران وائس چانسلر (کنیز یوسف) کا ذہن بھی میرے بارے میں بدل گیا کہ میں کوئی پراسرار شخص ہوں۔ انہوں نے یونیورسٹی کے خزانچی کو ایک خفیہ خط لکھا ، جس میں لکھا کہ،

’’ھُود بھائی بائیں بازُو (لیفٹسٹ) کا ہے اور(امریکی خفیہ ایجنسی) سی آئی اے کی تنخواہ پر ہے۔ یہ خطرناک آدمی ہے۔اِسے کسی قسم کا ہاؤس الاؤنس نہ دیا جائے تاکہ یہ چھوڑجانے پر مجبور ہوجائے‘‘۔

خیر! اِن تمام ابتدائی مشکلات کے بعد بالآخرمیں لیکچرر بن گیا اور یہ میرے، یونیورسٹی میں ستائیس سال کا آغاز تھا۔ ہاں اب میں پروفیسر ہوں اور اِس نظام میں ہرشخص وقت کے ساتھ ساتھ اپنے مقام پر پہنچتاہے ۔ تقرری کے بعد ، اگلے دوسال میں ٹریڈ یونین کے ساتھ شامل ہوگیا اور ہم گاؤں گاؤں جاکر’’چیرمین ماؤزے تنگ‘‘ کا پیغام پہچانے لگے۔ وہ دوسال میری زندگی کے مشکل سال ہیں ، لیکن میرا خیال ہے کہ میں نے انہی سالوں میں بہت کچھ سیکھاہے۔

جہاں تک میری شادی اور گھرکی بات ہےتوہماری (یعنی میری اور میری بیوی کی) شناسائی سفر کے دوران شروع ہوئی۔واقعہ یوں ہے کہ ہماری ٹیم دور دراز کے ایک گاؤں جایا کرتی تھی۔ ہمیں چھ میل پیدل چلنا پڑتا تھا اور راستہ سارا پہاڑی تھا۔اُوپر چڑھو، نیچے اُترو، اُوپر چڑھو، نیچے اُترو، کوئی سڑک نہیں تھی، اور تواور، ایک صحت مند شخص کے لیے بھی وہ سفر خاصا دشوار ہوتا تھا۔اور پھر اُن دنوں ایک وبا پھیل گئی۔ ہماری ٹیم میں ایک ڈاکٹر تھا جس نے تجویز دی کہ گاؤں والوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جائیں ورنہ یہ لوگ وبا کا شکارہوجائینگے۔ ہم مردوں کو تو ٹِیکے لگا سکتے تھے، لیکن عورتوں کو ٹیکے لگانے کے لیے ہمیں ایک عورت کی ضرورت تھی۔ ہم جتنی عورتوں کو جانتے تھے، ہم نے سب کا ذکر کیا اور آخر میں نے اپنے ایک دوست کی بہن کا نام تجویز کیا۔ جب ہم نے اُس سے بات کی تو وہ راضی ہوگئی۔ یوں ہم نے کئی سفر ایک ساتھ کیے اور آخرہماری شادی ہوگئی۔

وہ دوسال خاصے مشکل تھے۔ میں نے ایک گاؤں کے سکول میں (وقتی طور پر) پڑھایا اورتب مجھے معلوم ہوا کہ گاؤں کے سکولوں میں ٹیچر کتنے ظالم ہوتے ہیں۔ وہ سدومیت پرست (یعنی جنسی تشدد کرنے والے) حرامی تھے ۔ وہ معصوم بچوں پر اپنے پٹھوں (عضلات) کی مشقیں کیا کرتے تھے۔ اسی دوران مجھے یہ پتہ چلا کہ لوگوں کو اُن کی سوچیں بدلنے میں مدد دینا کس قدر مشکل کام ہے۔ انہی دوسالوں میں، میں اکیڈمکلی اپنے آپ کو نامکمل سا محسوس کرنے لگا۔ مجھے احساس ہوا کہ مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری لینا پڑیگی۔ چنانچہ میں نے دوبارہ ’’ایم آئی ٹی‘‘ کے گریجویٹ سکول میں اپلائی کیا اور میں دبارہ امریکہ چلاگیا اور اِس بار پی ایچ ڈی کرکے لوٹا۔

اُن تین سالوں میں، جب میں لوٹا تو پاکستان کے سیاسی حالات یکسر بدل چکے تھے۔ میری واپسی کے چند مہینے بعد ہی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور ضیأالحق کی حکومت کا دور شروع ہوگیا۔ یہ ہماری تاریخ کا سب سے دردناک دور ہے۔ بہت لوگوں نے مشکلات کا سامنا کیا۔ خاص طور پر وہ لوگ جو ضیأ حکومت کے مخالف تھے۔ میں خوش نصیب تھا لیکن میرے بہت سے دوست خوش نصیب نہیں تھے۔ان دنوں ہم نے ایک میگزین شرو ع کیا، جس کا نام تھا، ’’امورِ پاکستان‘‘ اوراس کے ذریعے ہم نے مارشل لا کے خلاف جنگ کی۔ ہم نے دیواروں پر نعرے لکھنے شروع کیے۔ میں نے ایک ایسی ڈیوائس ایجاد کی جو دیوار پر کوئی بھی نعرہ صرف دومنٹ میں لکھ دیتی تھی جبکہ باقی لوگ پندرہ منٹ میں لکھتے تھے۔ ہم شیمپو کی ایک خالی بوتل میں موبائل آئل اور کالا رنگ بھر لیتےتھے اور بوتل کے منہ پر شیونگ برش لگا دیتے تھے۔ اس بوتل نے بڑے معجزے دکھائے۔ ایک دن جب ’امریکن سیکریٹری آف سٹیٹ‘ نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا، ہم نے دیواروں کو ضیأ الحق اور امریکہ کے خلاف نعروں سے بھر دیا۔ آرمی ، پولیس اور سیکیورٹی فورسز، سب دیواروں پر نعرے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ہم نے یہ کام باربار کیا، یہاں تک کہ اُنہوں نے پنڈی اور اسلام آباد میں رات کا گشت شروع لگادیا ۔ اسی دوران میں نے واشنگٹن میں اپنے پوسٹ ڈاکٹریٹ( ڈپلومہ) کے لیے اپلائی کیا۔ سومیں اپنے دوستوں کی گرفتاری سے ایک مہینہ پہلے نِکل گیا تھا۔میرے دوستوں میں سے ایک کسی دکان میں میگزین رکھ رہا تھا جب ایک سیکیورٹی آفیسر نے اسے دیکھ لیا اور گرفتار کرکے پولیس سٹیشن لے گئے۔

جب ضیاالحق کو پتہ چلا تو اس نے ایک بڑا کریک اَپ (آپریشن) کرنے کا حکم دیا۔اور اُس نے کہا،

’’ہمیں قائدِ یونیورسٹی سے سیاست کے اِس کینسر کا خاتمہ کرنا ہوگا‘‘

میرے دوستوں کو جیل میں ڈالا گیااور اُن پر ظالمانہ تشدد کیا گیا۔اُن میں سے ایک کو الٹا لٹکا کر ماراگیااور اُس کے جنسی اعضأ کو جلایا گیا۔ اُسے ذہنی اور جسمانی ہردوطرح سے تشدد کا نشانہ بنایاگیا ۔ وہ آج بھی ایک ٹوٹا ہوا شخص ہے، حالانکہ اتنے زیادہ سال بیت گئے ہیں۔ اُن میں سے ایک نے میرا نام پولیس کے سامنے ظاہر کردیا اور پولیس میرے گھر کی تلاشی لینے کے لیے گئی ۔ لیکن خوش قسمتی سے میرے بردارِ نسبتی (یعنی بیوی کے بھائی) نے پولیس کے پہنچنے سے پہلے پہلے ایسا تمام مواد گھر سے ہٹادیا جس کی انہیں تلاش ہوسکتی تھی۔ سوپولیس کو کچھ نہ ملا۔ پولیس میں ابھی تک میرے خلاف ایک کیس درجے ہے کسی جگہ ۔

خیر! ایک سال امریکہ میں رہنے اور اپنا پوسٹ ڈاکٹریٹ ڈپلومہ مکمل کرنے کے بعد میں 1983 میں پاکستان واپس آگیا اور یہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا کہ پاکستان میں علوم کو بھی اسلامائز کیا جارہا تھا۔ تب میں نے فیصلہ کیا کہ اب مجھے گاؤں گاؤں جانے کی بجائے اپنا کام ’’بول‘‘ اور ’’لِکھ‘‘ کر کرنا ہوگا۔

آپ کو یاد ہوگا( میں نے اقبال احمد کا ذکر کیا تھا) ، میری بیوی اقبال احمد کی بھتیجی ہے۔ جب اقبال احمد فوت ہوئے تو ہم دونوں بہت بُری طرح صدمے کا شکارہوگئے۔ ہم دونوں یعنی میرے اور میری بیوی کے ایک جیسے سیاسی نظریات ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ بچوں کی پرورش کے معاملے میں بھی ہم دونوں کے خیالات ایک جیسے ہیں۔ ہم اُنہیں سوچنے والا انسان بنانا چاہتے ہیں۔ میں اپنے بچوں کے طرزِ عمل سے خوش ہوں اور پُراُمید ہوں کہ وہ زندگی میں اپنے لیے درست جگہ ڈھونڈ نے میں کامیاب ہوجائینگے۔ میرا بڑا بچہ بیس اور چھوٹا پندرہ سال کا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں ایک ہی تاریخ کو پیدا ہوئے۔ ہاں! میرے بچے اور فیملی (میرے معاملات کی وجہ سے) خوفزدہ اور پریشان رہتے ہیں۔وہ اِسے (یعنی میرے مِشن کو) خطرناک سمجھتے ہیں لیکن زندگی میں کچھ پانے کے لیے رِسک تو لینے پڑتے ہیں۔

حالات نے مجھے تبدیل کردیاہے۔ میرا خیال ہے کہ میں ایک مشکل آدمی ہوں۔ میری بیوی اِس بات کی تصدیق کرے گی۔ اصل میں وہ کہے گی،

’’یہ صرف مشکل نہیں، یہ امپاسبل بندہ ہے‘‘۔

تجربہ بتاتاہے کہ آپ غصے میں ہوسکتے ہیں لیکن بہتر ہے کہ آپ اُس کا اظہار نہ کریں۔ آپ بے صبرے ہوسکتے ہیں لیکن آپ کو صبر کرنا چاہیے۔ کبھی کبھی میں بہت مایوسی کا شکارہوجاتاہوں کہ ہم نے کچھ خاص نہیں کیا۔ اگر آپ دیکھیں کہ پاکستان کے ساتھ گزشتہ تیس سالوں میں کیا کچھ ہوگیا تو آپ کہہ اُٹھینگے،

’’ اس ملک پر زوال آگیا اور یہ گِر گیا، اور نیچے اور نیچے‘‘۔

کچھ لوگ مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں،

’’جی ہاں! پاکستان ، اِ س سے مختلف ہوسکتاتھا‘‘۔

لیکن کبھی مجھے اس بات کا یقین آتاہے اور کبھی نہیں آتا۔ پھر سوچتا ہوں ، آخر اِس صورتحال کا متبادل کیا ہوسکتاہے؟ آپ کو کوشش ترک نہیں کرنی چاہیے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ، ’’چیزیں اتنی بُری حالت کا شکار ہوچکی ہیں کہ اب درستگی کی کوئی اُمید نہیں رہی‘‘ ۔ سچ تو یہ ہے کہ ذاتی حد تک میں بھی ٹھیک ٹھاک ہوں اور کچھ اور لوگ بھی ٹھیک ٹھاک ہیں۔ اگر ہم مجموعی طور پر آج ملک کو دیکھیں تو پہلے سے زیادہ گاڑیاں ہیں، پہلے سے زیادہ ٹی وی ہیں، پہلے سے زیادہ خوراک ہے، پہلے سے زیادہ ادویات ہیں اور لو گ پہلے سے زیادہ جیتے ہیں، وغیرہ ۔ بے شک یہ چیزیں اہم ہیں لیکن فی زمانہ پاکستان میں پہلے سے کہیں زیادہ مایوسی ہے۔ مہذب رویّے مفقود ہوچکے ہیں اورپہلے سے کہیں زیادہ گروہ بندیاں اور دشمنیاں ہیں۔اگر ہم ایک بیلسن شِیٹ بنائیں تو زیادہ تر لوگ یہی کہیں گے کہ ہم ڈاؤن جارہے ہیں۔ ممکن ہے یہ بات درست ہو لیکن کیا ہم کوشش ترک کردیں؟ اگر آپ کچھ کرنہیں سکتے تو کم ازکم پُراُمید تو رہنا چاہیے۔

(جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ میں مسلمان ہوں یا نہیں)

تو میں سمجھتاہوں کہ جن لوگوں کی تقدیر آپ بدلنا چاہتے ہیں، ان میں آپ کی کچھ ساکھ ہونا ضروری ہے اور آپ کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ،
’’میں ان میں سے نہیں ہوں‘‘۔
سچائی یہ ہے کہ میں پیدائشی طور پر ایک مسلمان تھا۔ (نوٹ: ھُود بھائی پیدائشی طور پر اسماعیلی برادری سے ہیں) کچھ عرصہ میں بہت عبادت گزار مسلمان بھی رہا۔ (نوٹ: یہ عرصہ چودہ سال کی عمر تک رہا) ہم میں سے ہرکوئی مسلم روایات کے تحت پرورش پاتاہے۔ ہم اپنے آپ کو اپنی جڑوں سے کاٹ نہیں سکتے۔ میں آپ کو اقبال احمد کی ایک کہانی سناتاہوں،

جب وہ وفات پانے لگے تو رضا قاسم کی بیوی جو ان سے بہت پیار کرتی تھیں، کمرے کے باہر کھڑی ہوکر گھنٹوں قران کی تلاوت کرتی رہیں۔ جب میں نے اقبال احمد کو اس بابت بتایا تو انہوں نے اُسے اندر بلایا اور بیٹھنے کو کہا۔ وہ اُس وقت بھی قران پڑھ رہی تھیں۔ آخر ایک مقام آیا کہ میں نے (تنگ آکر) ایک چھوٹا سا نوٹ لکھ کر اقبال احمد سے پوچھا کہ اگر وہ اجازت دیں تو خاتون کو تلاوت سے منع کردیا جائے؟۔ انہوں نے انگلی کے اشارے سے مجھے منع کیا۔ بعد میں جب وہ چلی گئیں تو میں نے اقبال احمد سے پوچھا،
’’آپ نے کیوں اتنی دیر (اس خاتون کو) برداشت کیا؟ آپ تو مسلمان نہیں ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا،
’’کیوں نہیں! میں مسلمان ہی ہوں‘‘۔
میں نے اصرار کیا ،
’’نہیں آپ نہیں ہیں، آپ اللہ کے ہونے کا یقین نہیں رکھتے، قران ، فرشتوں اور آخرت کے دن میں پر بھی آپ ایمان نہیں رکھتے‘‘۔
’’نہیں میں ہوں‘‘ انہوں نے پھر اصرارکیا۔ اور ساتھ ہی کہا،
’’میں مسلمان پیدا ہوا اور ہمیشہ مسلمان رہونگا‘‘۔
حالانکہ اُنہوں نے کبھی خدا سے کوئی دعا نہ مانگی تھی۔ کبھی بخشش طلب نہ کی تھی ۔ پھر بھی آخر تک وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ اُن کی جڑیں اُسی تہذیب میں ہیں جس میں انہوں نے عمر گزاری۔ میرے خیال میں، ’’یہ ہم سب کا مسئلہ ہے‘‘۔ اگرچہ یہ ہوسکتاہے کہ ہم مذہب کو نہ مانتے ہوں۔ پھر بھی ہم اس میں پیدا ہوئے اور یہ پیدا ہونا ہی ہم پر ہمیشہ کے لیے مُہر لگادیتاہے کہ ہم (مسلمان) ہیں۔ ہاں! ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ’’سیکولر مسلمان‘‘ ہیں۔

(جہاں تک میرے مِشن سے متعلق سوال کا تعلق ہے)

میرا خیال ہے کہ حالات آپ کو بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ اگر آپ ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور آپ کا واسطہ ایسے طلبہ کے ساتھ پڑتارہتاہے جو نچلی (تعلیمی) سطح سے اُوپر آتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ اُن کی سوچیں کتنی بُری طرح لِپٹی ہوئی (یعنی محدود اور تنگ) ہیں۔ تب آپ کو احساس ہوتاہے کہ آپ کی ذمہ داری دراصل یہ ہے کہ طلبہ اپنے لیے تعلیمی زندگی میں درست طرزِ عمل اختیار کرسکیں۔ اگر میں کسی گاؤں میں ہوتا اور اِس یونیورسٹی میں نہ ہوتا تو شاید میں نے عبدالستار ایدھی کو جوائن کرلیا ہوتا اور سماجی کاموں میں لگ جاتا۔ لیکن اب مجھ پر یہ بات کھل چکی ہے کہ مجھے لازمی طور پر لوگوں کو تعلیم کے ذریعے تبدیل کرنے کی کوشش کرناہوگی۔اور یہ کام ہرسطح پر ہونا چاہیے۔ میرے جیسی تعلیم اور بیک گراؤنڈ کے ساتھ تو شاید کسی یونیورسٹی میں کام کرکے ہی زیادہ بامعنی طور پر اپنا حصہ ڈالا جاسکتاہے بہ نسبت کسی پرائمری سکول کے۔ لیکن آپ کو پرائمری سکولوں میں بھی ایسے لوگ چاہییں۔ ہرطرح کی چیزیں ہرکہیں ہونا ضروری ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ اعلیٰ تعلیم اِس لیے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ یہاں سے قوم کے لیے لیڈرز نکلتے ہیں۔ اور اگر آپ اُن پر اثرانداز ہوسکتے ہیں تو پھر اس کا مطلب ہے کہ آپ دیگر بہت زیادہ لوگوں پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں سمجھتاہوں کہ اقبال احمد کے پاس درست تصور تھا جس کی بنا پر انہوں نے’’خلدونیا یونیورسٹی‘‘ کا آغاز کیا۔

میں سمجھتاہوں کہ میں نے اپنی توانائیوں ، ارادوں اور خوابوں کا درست سمت میں مرکوز رکھا اور اس بات کے لیے میں خود کو اقبال احمد کا ممنون ِ احسان بھی سمجھتاہوں (کہ یہ سب اُن کی رہنمائی سے ممکن ہوا)۔ اقبال احمد حیران کن انسان تھے۔ میں اتنا دُکھی کبھی نہیں ہوا جتنا اُن کی موت پر ہوا ۔ انہوں نے میری بانہوں میں جان دی۔

(اس سوال کا جواب کہ میں پکا امریکہ کیوں نہیں چلا جاتا یہ ہے کہ)

میرے پاس پہلے امریکہ میں رہنے کی چوائس تھی۔ اب نہیں ہے۔ اور میں رہ بھی نہیں سکتا۔ میں اگر امریکہ میں رہا تو وہاں، فزکس مجھے مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لے گی۔ فزکس ایسی چیز نہیں ہے جو ایک زندگی میں کی جاسکے ۔ فزکس کے لیے کئی زندگیاں درکار ہیں۔ آپ پچیس سال کے ہیں تو آپ خوش نصیب ہونگے کیونکہ آپ کے پاس ابھی بہت وقت ہوگا جدید فزکس کو سمجھنے کے لیے۔ فزکس میں ہروقت تجسس پیدا کرنے والے کام ہورہے ہیں۔ میں نے تو مشکل سے اس (فزکس) کی سطح کو کھرچا ہے۔ میرے اندر فزکس کے لیے بہت بھُوک ہے لیکن میں اب بوڑھاہوچکاہوں۔

جہاں تک ڈاکٹر عبدالسلام کا ذکرہے۔ ہاں! میں اُن سے فقط ملا ہی نہیں۔ میں نے اُنہیں اچھی طرح سے جانا۔ اور یہ بات بالکل درست ہے کہ ان کی کہانی المناک ہے۔ فزکس کے علاوہ، اُن کی پہلی وفاداری ’’تحریکِ احمدیہ‘‘ کے ساتھ تھی اور اُن کی ثانوی وفاداری پاکستان کے ساتھ تھی۔ اور یہ تینوں وفاداریاں بہرحال اچھی نہیں رہیں۔ یہ بات پہلے دن سے صاف تھی کہ وہ نہایت منفرد صلاحیتوں کے مالک انسان ہیں۔ شروع شروع میں وہ بالکل لبرل آدمی تھے۔ مجھے بتایا گیاہے کہ وہ شراب بھی پیتے تھے اور خوبصورت عورتوں کے شیدائی بھی تھے۔ اور پھر جب انہیں ایک خاص سطح کا مقام مل گیا تو مغرب میں اُن کی عزت بہت زیادہ بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ ابھی اُنہیں 1974 میں، نوبل پرائز بھی نہیں ملا تھا اور عالم یہ تھا کہ (کئی ممالک کے) وزرائے اعظم ان سے ملنے کی آرزو رکھتے تھے۔ یہ 1974 کی بات ہے جب وہ اچانک ایک ایسے شخص سے جو کہ مذہبی مزاج نہیں تھا، ایک ایسے شخص میں تبدیل ہوگئے جو تیز رفتاری کے ساتھ مذہب میں پھنستا چلا جارہا تھا اور یوں بالآخر وہ ’’تحریک ِ احمدیت‘‘ کے ایک انتہائی دقیانوسی قسم کے سپاہی بن کر رہ گئے۔

اس پر مستزاد یہ بات ہے کہ وہ سال بھی تو 1974 ہی ہے جب بھٹو نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ میری ملاقات اُن سے دس سال بعد ہوئی۔ اور یہ ملاقات فزکس کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ ایک بار جب میں اٹلی سیر کے لیے گیا تو انہوں نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ۔ دراصل انہوں نے میرا آرٹیکل پڑھ لیا تھا، جس کا عنوان تھا، ’’سائنس اینڈ اسلام‘‘۔اس کے بعد ہمارے اچھے تعلقات بن گئے جو دس سال تک قائم رہے۔ یہاں تک کہ ایک آرٹیکل ہم نے مل کر بھی لکھا جو بعد میں ایک کتاب کا دیباچہ بنایاگیا۔ وہ ایک المناک فِگر(Figure) اِس لیے بھی تھے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ انہیں پاکستان سے بے پناہ محبت تھی لیکن پاکستان نے انہیں مسترد کردیا کیونکہ وہ احمدی تھے۔

میں تو یہ کہونگا کہ وہ بہت زیادہ پیچیدہ انسان تھے۔ میں یہ بھی آپ کو بتانا چاہونگا کہ یہ پیچیدگی اس وجہ سے بھی اُن میں آگئی تھی کہ وہ ایٹم بم بنانے والے لوگوں میں بنیادی حیثیت رکھتےتھے۔1972 میں جب بھٹو نے تمام سائنسدانوں کو ملتان بلایا تو وہ اس میٹنگ کا رُوحِ رواں تھے۔ اِن سائنسدانوں سے کہا گیا کہ وہ نیوکلیئر دھماکے کے معاملے کی باریکیوں پر غور کریں۔ لیکن 1974 میں (یعنی دوسال بعد) اُنہیں اس پورے پراجیکٹ سے یکدم علحیدہ کردیاگیا۔ اگرچہ پراجیکٹ بہت آگے تک نہ جاسکا لیکن بہرحال وہ ایٹم بم بنانے کے تصور کے حمایتی تھے۔

دیانتدارانہ رائے کا اظہار کروں تو ڈاکٹر عبدالسلام غیرجانبدار انسان نہیں تھے کیونکہ وہ احمدیوں کی حمایت کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ احمدی طاقت میں آجائیں۔ انہوں نے یہ بھی محسوس کرلیا تھا کہ پاکستان کو انڈیا کے مقابلے میں کھڑا ہونا پڑیگا۔ ہندوؤں سے انہیں خاصا تعصب تھا۔ لیکن ایک اور معنی میں وہ کھلے ذہن کے بھی تھے۔انہوں نے کئی بار ہندوستان کا سفر کیا اور بعد میں تو خیر جب وہ اپنے آپ کو پاکستان کی جانب سے دھتکارا محسوس کرتے تھے، تو انڈیا کے بارے میں ،ان کے خیالات بدل بھی گئے تھے۔ آخری مرتبہ جب میں نے انہیں دیکھا تو وہ بے حد ناخوش تھے اور رورہے تھے۔ ایک مرتبہ کسی کی ریٹائرمنٹ کی تقریب میں ایک طالب علم اُن کے پاس آیا اور اُنہیں بتانے لگا کہ وہ اُن پر کتنا زیادہ فخر کرتاہے ، تب وہ وہیل چیئر میں تھے۔ وہ بُری طرح بے قابو ہوکر رونے لگ گئے۔ اُنہی اس حال میں دیکھنا خاصا افسوسناک تھا۔اور جب وہ فوت ہوئے تو کوئی ایک پاکستانی افسر بھی ان کی تجیزوتکفین میں شامل نہ ہوا۔اخبار میں بھی ایک چھوٹا سا فُٹ نوٹ شائع ہوا تھا، بس۔

یہ سب کچھ اُن کے ساتھ ہوا حالانکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ جذباتی طور پر وابستہ تھے اور انہوں نے ’’ایٹامک انرجی کمشن آف پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی۔ میں آپ کو عبدالسلام کی ایک اور کہانی سناتاہوں، جو یہ دِکھاتی ہے کہ عبدالسلام کے ساتھ پاکستان میں کیا سلوک کیا جاتا تھا۔

جب وہ فوت ہوئے تو میں پاکستان ٹیلی وژن کی ایک ڈائریکٹر ’’رعنا شیخ‘‘ سے ملا اور میں نے ان سے کہا کہ میں عبدالسلام پر ایک ڈاکومینٹری بنانا چاہتاہوں۔ وہ متفق ہوگئیں۔ وہ بالکل لبرل خاتون تھیں۔ فلہذا ہم نے ایک ٹیم بنائی اور جھنگ کے لیے روانہ ہوگئے، جہاں سَلام پیدا ہوئے تھے۔ہم نے وہاں سے کافی معلومات اکھٹی کیں۔ واپس آکر ہم نے ان کے بی بی سی ٹی وی کے انٹرویوز بھی جمع کیے۔اُن میں ایک وہ بھی تھا جو میں نے انہیں 1988 میں انٹرویو کیا تھا۔ خیر! جب ہم نے سب کچھ جمع کرلیا تو مجھے ایک ہفتہ کے لیے اسلام آباد سے باہر کہیں جانا پڑا۔ میں نے وہ تمام مواد ایک پروڈیوسر کو دیا ، جو پی ٹی وی نے میرے ساتھ مقرر کررکھا تھااور میں نے اسے کہا کہ میرے آنے تک انتظار کریں۔ میں محسوس کرچکا تھا کہ وہ پروڈیوسر اِس کام سے خوش نہیں تھا، اس لیے میں نے خاص طور پر اُسے ہدایت کی کہ میرے آنے تک مواد کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی نہ کی جائے۔ جب میں واپس آیا تو یہ جان کر مجھے حیرت ہوئی کہ اُس نے ڈاکومنٹری مکمل بھی کرلی تھی اور جو کچھ اس نے بنایا تھا وہ ہمارے پلان سے بالکل ہَٹ کرتھا۔ میں نے رعنا شیخ کو شکایت کی تو انہوں نے پروڈیوسر سے باز پُرس کی اور کہا کہ ڈاکومینٹری کو ایڈٹ کیاجائے۔ یہ سن کر پروڈیوسر نے کہا کہ اس نے تو اب تمام مواد ضائع کردیاہے۔

میں جانتاہوں کہ اُس پروڈیوسر نے وہ تمام مواد جان بوجھ کر ضائع کیا تھا۔ تعصب کا یہ مقام ہے جو ہمیں اپنے ملک میں سہنا پڑتاہے۔

میں اپنے بہت سے نامکمل خوابوں کی طرف دیکھتاہوں تو مایوسی ہونے لگتی ہے۔ اب جو میں کرنا چاہتاہوں وہ فزکس کے ایک بالکل الگ شعبہ ، جسے ’’سُپر سٹرنگ تھیوری‘‘ کہتے ہیں کو سمجھنے کی کوشش ہے۔اگرمجھے دوسری زندگی ملی تو میں یہی کرنا چاہونگا کیونکہ یہ فزکس کی ایک نہایت خوبصورت میتھ پر مشتمل تھیوری ہے جو اپنے اندر بہت زیادہ انٹلکچول کشش رکھتی ہے۔

جہاں تک میری زندگی کے دیگر معاملات کا تعلق ہے ، میں نہیں سمجھتا کہ میں نے کچھ خاص کام کیا ہے، بس یہی چھوٹی موٹی چیزیں کی ہیں، اِدھر اُدھر کی۔ ہاں اگر مجھے کسی کام پر فخر ہے کہ میں نے کیا ہے تو وہ قائدِاعظم یونیورسٹی کی زمین کے لیے لڑائی ہے، جو یہ لوگ ، یونیورسٹی کے پروفیسروں اور ایم این ایز میں بانٹ رہے تھے۔ میں نے یہ جنگ دوسال لڑی اور آخرمیں ، مَیں بالکل تھک گیا۔ ایک وقت ایسا آیا جب لوگ مجھ پر اتنا غصہ تھے کہ پتھر پھینکتے، کھڑکیاں توڑتے، دھمکیاں دیتے تھے۔آخرکار ایک بڑی ہڑتال ہوئی اور یونیورسٹی کو ایک پورے سمسٹر کے لیے بند کردیا گیا۔ ہمیں عدالت میں جانا پڑا اور وہاں ہم نے کیس جیت لیا اور یونیورسٹی کی زمین بچالی۔ یہ واحد کامیابی ہے جس پر مجھے فخر ہے۔ 

[pullquote]ترجمہ اور خصوصی شکریہ محترم ادریس آزاد صاحب
[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے