بجٹ ریلیف یا بجٹ تکلیف

اس میں شک نہیں کہ اس وقت پاکستان اپنے تاریخی اعتبار سے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اس دور ابتلا میںجہاں پاکستان کی عالمی سطح پر تنہائی عروج پر ہے وہاں ملک کے اندورونی حالات بھی کچھ اچھے اور حوصلہ افضا نہیںہیں ۔
حکومت اجتماعی صورتحال کو بہتری کی ڈگر پر لانے کی بجاے ایسے اقدامات میں مشغول ہے جو اس ملک کی تباہ حال معشیت کو زمین دوز کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اور اس کے عوامی تاثر کو مجروح کرنے کی کوشش کریں گے (ویسے تو خیر سے اس لیک زدہ حکومت کا کوئی اچھا تاثر ہے ہی نہیں کہ جس کے تباہ ہونے کا ڈر ہو) سو موجودہ زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوے حالیہ حکومت سے فائدے کی امید سعی لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔

چند دن قبل حکومتی دعوے کے مطابق عوام دوست بجٹ پیش کر دیا گیاہے بجٹ دستاویزکے مطابق آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کا حجم کا 43 کھرب 94 ارب روپے رکھا ہے جو مالی سال2015,16 کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ ہے۔
اخراجات کا تخمینہ 38کھرب 43ارب 98 کروڑ روپے لگایا گیا ہے اس طرح یہ بجٹ 10 کھرب 64 ارب 29 کروڑ روپے خسارہ کا بجٹ ہو گا۔ جبکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 36 کھرب 12 ارب روپے رکھا گیا۔

حالیہ پیش کردہ بجٹ میں خسارہ کتنا ہے ؟محصولات میں کمی کتنی اور گردشی قرضے کس حد تک کم یا زیادہ ہوئے؟ اس قسم کی حسابی موشگافیاں اور دقیق زبان میری طرح ا س ملک کے بہت سوں کو ان کی تعلیم کو مشکوک بنا دیتی ہے اور خیر سے موجودہ پیش کردہ بجٹ کا تفصیلی پوسٹ مارٹم ہمارے ٹی وی ٹاک شو کے میزبان احسن طریقے سے اگلے کئی ہفتوں تک انجام دیتے ہی رہے گیں ،

محترم قارئین! میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ ٹھنڈے کمروں میں اشاریوں کے تانوں بانوں سے مزین یہ تخمینہ جب اٹھارہ کروڑ سے زائد ہجوم نما عوام کے آقا سنا رہے ہوتے ہیں تو باہر جون کی چلچلاتی دھوپ میں جھلستے عوام بس ایک ہی بات پوچھتے نظر آتے ہیں کہ کیا چیز مہنگی ہوئی ہے اور کیا سستی ؟ اور سچی بات تو یہ ہے کہ مہنگائی کے جن یعنی بجٹ آنے سے پہلے عوام ایک انجانے خوف میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ اب ان پر اعدادو شمار کے ذریعے کون سا ظلم ڈھایا جانے والا ہے اور یہی ہے بجٹ جبکہ اس کے آفٹر افیکٹس یعنی منی بجٹ سارا سال عوام کی خدمت میں پیش کیے جاتے رہیں گے۔

سو ایک بار پھر عوام کے ساتھ ہاتھ کر دیا گیاحالیہ پیش کردہ بجٹ میں نہ ہی صحت اور نہ ہی تعلیم حکومتی ترجیحات میں شامل نظر آہیں ، بلاشبہ میٹرو بس اورینج ٹرین جیسے پراجیکٹ میری نظر میں غیر ضروری نہیں بلکہ بہترانفراسٹرکچر کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتا ہے اور اس میں کوئی دو راے نہیں مگر دوسری جانب تعلیم اور صحت بھی اس قوم ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ،، کوئی زندہ بچے گا تو سفر بھی کرے گا۔۔

عوامی سطح پر بڑھتی ہوئی نا امیدی اور بنیادی ضر و ریات زندگی تک عوام کی عدم رسائی جیسی صورتحال میں میٹرو جیسے بھاری بھرکم منصوبوں کی افادیت کاربیکار بن کر رہے جاتی ہے۔

اور صورتحال یہ ہے کہ اب ہر شخص یہ سوچنے پر مجبور نظر آتا ہے کہ حکومت وقت کہیں سانس لینے پر بھی ٹیکس عائد کر کے جینے کی امید تک چھین لینا چاہتی ہے ۔

سابقہ حکومتیں بشمول حالیہ حکومت بجٹ فائر کرنے سے پہلے اور پیش کرنے کے دوران محصولات کی کمی کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں اور ریونیو بورڈ کی طرف سے وقفے وقفے سے ٹیکس نیٹ میں توسیع کے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن ہر مالی سال کے اختتام پر پتا چلتا ہے کہ محصولات کا ہدف پورا نہیں ہوسکا لہذا حکومت آسان حل کی طرف جاتی ہے اور وہ ہے ٹیکس کالگانا،علاوہ ازیں آ ئے روز پٹرو ل ، بجلی اور گیس جیسی مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیا جاتا ہے جس کا اثر تمام اشیاء ضروریہ کی غیر معمولی مہنگائی کی صورت میں نکلتا ہے ۔اور ملکی آبادی کا مزید ایک بڑا حصہ خط غربت سے نیچے چلاجاتا ہے اور ان لوگوں کی تعداد میں افسوسناک اضافہ ہو جاتا ہے جن کے لیے دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی کا حصول بھی ممکن نہیں رہتا،

اس کے برعکس مراعات یافتہ طبقہ مزید نوازدیاجاتا ہے جیسا کہ حالیہ بجٹ میں غریب عوام کی امیر حکومت نے اپنے نورتنوں اور اور ان جیسے دوسرے اسمبلی ممبران کی تنخواوں میں تین سو فیصد جبکہ ایک مزدور کی تنخواہ میں ایک ہزار کا شرمناک اضافہ کرتے وقت ایک بار بھی اپنے گریبان میں نہ جھانکا اورنہ یہ سوچا کہ جن کے منہ میں تین سو فیصد ٹھونس کے ان کی شکم پری کر رہے ہیں ہ وہ پسو پہلے ہی ارب پتی ہیں ۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سرکاری نوکریوں پر پابندی ہے اور ملک کے پرائویٹ سیکٹر میں پہلے سے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ تیرہ ہزار تک نہیں دیے جا رہے تو اب چودہ ہزار کون دے گا؟علاوہ ازیں صحت کے لیے بیس کروڑ عوام کو 21 ارب کے مختص کردہ بجٹ کے حساب سے پانچ روپے مہانہ مبارک ہو…کس شاعر نے بجٹ پر کیا خوب لکھا ہے
ابرکے چاروں طرف باڑ لگا دی جائے
مفت بارش میں نہانے کی سزا دی جائے
سانس لینے کابھی تاوان کیا جاے وصول
سبسڈی دھوپ پہ کچھ ا ور گھٹا دی جائے
ورنہ گودام سے یہ جنس ہٹا دی جائے
قہقہ جو بھی لگائے اسے بل بھیج دیا جائے
کون انسان ہے کھاتوں سے یہ معلوم کرو
ہے لگانوں کی توبستی ہی جلا دی جائے

آخر میں تمام محترم قارئین کو ماہ مقدس مبارک ہو اور اللہ ہم پر رحم فرماے اپنے پیارے حبیب علیہ السلام کے صدقے اور اس مشکلات میں پھنسی قوم کی شب ظلمت کو ختم کر دے آمین۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے