چٹان کے آخری سرے پر واقعے چبوترے سے ایک طرف دریائے جہلم تو دوسری طرف پونچھ کی خاموش لہروں کا نظارہ ہوتا ہے-
ماضی میں کبھی شہزادے تو کبھی کوئی ڈوگرا مہاراجہ اسی جگہ سے قدرت کی بنائی ہوئی رعنائیوں کے نظارے لیتا تھا –





تاریخ دانوں کے مطابق ایک مغلیہ شاہراہ جسکا آغاز جہلم کے پتن سے ہوتا ہے میرپور کوٹلی ، مینڈھر ، راجوری سے ہوتی درہ پیر پنجال کے راستے وادی کشمیر میں داخل ہوتی تھی ۔ مینڈھر تک یہ راستہ ہر موسم میں استعما ل ہوتا تھا جبکہ برفباری کے موسم میں مینڈھر سے پونچھ یا پھر کوٹلی سے پونچھ اور اوڑی پر اُترتا تھا۔ اس مغل شاہرا ر پر منگلا ، رام کوٹ ، بڑجن اور تھروچی کے مقام پر قلعے تعمیر کیے گئے –


گزرے دور کی طرح آج بھی اس تاریخی مقام تک رسائی آسان نہیں ہے – میرپور شہر یا ڈڈیال کے مضافاتی علاقے بٹھار سے کشتی کے ذریعے رام کوٹ تک پہنچا جا سکتا ہے – جہلم کے ٹھنڈے پانی یا منگلا کے نیلگوں پانی میں سفر کی بھی ایک الگ چاشنی ہے جو صرف محسوس کی جا سکتی ہے –
اگرچہ قلعے کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے، لیکن ماضی کی شان و شوکت کی چند علامات اب بھی باقی ہیں۔ قلعے کے اندر جانے کے لئے مرکزی دروازہ دفاعی حکمتِ عملی کے تحت ہر زاویے پر فائرنگ کے لیے چوکیوں کے ساتھ بنایا گیا ہے – فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں بنائی گئی ہیں، جو یقیناً توپوں کو پوزیشن میں لانے کے لیے استعمال ہوا کرتی ہوں گی۔
قلعے کے اندر حیرت انگیز طورپانی کے دو بڑے تالاب ہیں – مؤرخین ان تالابوں کے بارے میں یہ اندازہ لگانے میں ناکام ہیں کہ آخر اس نسبتاً چھوٹے قلعے میں اتنے بڑے تالاب کیوں بنائے گئے ہیں۔

دیگر کئی تاریخی ورثوں کی طرح رامکوٹ کی تعمیر کے حوالے سے بھی کئی کہانیاں موجود ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ قلعہ ایک قدیم ہندو شیو مندر پر تعمیر کیا گیا تھا- لارڈ شیو کا لنگ اب بھی قلعے میں تالاب کے بائیں جانب موجود ہے –
ماہر اثار قدیمہ نے مندر کے پاس سے چٹانوں کے نمونے جو لئے ہیں ان سے یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ یہ مندر پانچویں سے ساتویں صدی عیسوی کے درمیان بنایا گیا تھا – لیکن قلعے کی حتمی تاریخ کے بارے میں تاریخ تقریبا خاموش ہی ہے –


آزاد کشمیر کے دیگر قلعوں (جیسے منگلا، مظفر آباد، بڑجن، اور تھروچھی) کی طرح رام کوٹ قلعہ تاریخی ریکارڈز میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتا۔ کشمیر کے 1841 کے ایرو اسمتھ نقشے میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن مشہور سفری مصنف سلمان رشید کے مطابق مہاراجہ کشمیر کے مقرر کردہ ماہرِ ارضیات فریڈریک ڈریو 1875 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب The Jummoo and Kashmir Territories: A Geographical Account میں رامکوٹ قلعہ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ڈریو کے مطابق توگلو نامی ایک گکھر نے یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا، جبکہ گکھروں کے بعد یہ ڈوگروں کے زیرِ تسلط چلا گیا۔

