اب ہمیں ریاست چلانے کا ہنر سیکھ ہی لینا چاہیے

کچھ عرصہ بیشتر اسلام آباد میں جمہوری اصلاحات پر ایک طویل عرصہ کام کرنے والے ایک قریبی دوست نے بتایا کہ ایک غیرملکی ادارے کو جو دنیا بھر میں انتخابی اصلاحات پر کا م کرتا ہے کو اس امر پر بہت حیرت تھی کہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان جو ایک ٢٠٠ ملین آبادی والا ایک بڑا ملک ہے کے الیکشن کمیشن کے پاس اپنا کوئی مربوط منصوبہ عمل ہی نہیں ہے کہ کیسے وہ اپنی کارکردگی کو خود سے ہی بتدریج بہتر بناتا چلا جائے اور جہوریت کی جڑوں کو زیادہ سے زیادہ مستحکم اور وسیع البنیاد بنا پایے – الیکشن کمیشن کے ایک افسر اعلیٰ سے ملاقات کی گئی جنہوں نے اس پر صاد تو کیا لیکن کہا کہ آپ ہی آئیے اور آ کر منصوبہ بنا دیجیے – یہ ایک مثبت ابتدا تھی لیکن بعد میں معلوم ہوآ کہ پورے کمیشن میں خیر سے کوئی ایسا افسر ہی نہیں تھا جو ڈھنگ سے اپنے ہی ادارے کے اس منصوبہ عمل پر کر سکتا – اکثر میں تو صلاحیت کا فقدان تھا لیکن بہت سوں میں خواہش او ا عتماد کی شدید کمی تھی- نتیجتا ان غیر ملکی ماہرین نے خود ہی پاکستان کے الیکشن کمیشن کے بارے میں سوچا اور خود ہی اس پر مختلف سیاستدانوں سے ملے اور آخر میں ایک منصوبہ تیار کر دیا – اس ڈرافٹ منصوبہ عمل پر الیکشن کمیشن کی طرف سے برا یے نام ہی تبصرہ کیا گیا اور ایک بے دلی کا سا رویہ اختیار کیا گیا لیکن جس دن اس منصوبہ کو پریس کے سامنے پیش کیا جانا تھا اس دن الیکشن کمیشن کے اس افسر اعلیٰ نے اس غیر ملکی ماہر سے کہا میرا خیال ہے اس پر تقریر بھی آپ فرما دیں اور سوالوں کے جواب بھی آپ ہی دے دیں – ظاہر ہے موصوف نے اس دستاویز کو ڈھنگ سے پڑھنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی تھے آج اس پر بات کیا کرتے -اس غیرملکی ماہر نے بعد میں میرے دوست کو بتایا کہ جو کمیشن اپنے منصوبے کو بنانے سے تو کجا اسکو پیش کرنے کا بھی روادار نہیں ہے اسنے اس پر عمل درآمد کے کیا تیر مار لینے ہیں-

ہمارے اکثر قومی اداروں کی صورت حال بس ایسی ہی ہے- حللیہ دنوں میں اوپر تلے کئی ایسے واقعات ہو یے ہیں جسس سے پتا چلتا ہے کہ ابھی بھی ہم ریاست چلانے کے ہننر سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں- کیا ہر اھم واقعے کے بعد ایسا نہیں لگتا کے ہمارا قومی یا حکومتی رد عمل اس سے بہتر ہو سکتا تھا جو ہم نے کیا- چاہے یہ خارجہ پالیسی کے معاملات ہوں یا لاہور اور پشاور میں دیشت گردی کے نہ ختم ہونے والے واقعات ہوں یا پھر کرکٹ ٹیم کی کارگردگی ہو یا پولیو کے لیے سرکار کی ایک اور مہم اس پر ہمارے ہاں ہماری مجموعی کارکردگی پر ایک عدم اطمینان کی سی کیفیت رہتی ہے- ہمارے ہاں کا سرکاری فائر بریگیڈ کا دفتر ہو یا ہسپتال وہاں جانے پر ایک عجیب طرح کی بے رونقی ہمارا منہ ہمارا منہ چڑاتی ہے- جیسا کے اکثر ڈگری کالجز کی لائبریریان جہاں نہ روشنی کا کوئی انتظام ہوتا ہے اور نہ ہی درجہ حرارت کو قابو میں رکھنے کا کوئی طریقہ اور جو اکثر دوپہر ایک بجے بند ہو جاتی ہیں – ایسا کیوں ہے کہ ایسا لگتا یہ ادارے افریقہ کے کسی غریب ترین ملک میں ہیں اور نہ کہ پنجاب اور سندھ جو پانچ ہزار سال سے کبھی کسی بڑی قحط کا شکار نہیں ہویے –

اصل مرض یہ ہے کہ سرکاری اداروں کا ڈیزائن ١٨٠٠ میں سرکار ا انگلشیہ کے اعلی دماغوں کا ایک کارنامہ ضرور تھا اوریہ اس کی بیوروکریسی کی کارکردگی ہی تھی کے اسکے ٥٠٠٠ کے قریب افسران نے برطانیہ کو پورے ہندوستان بشمول سری لنکا اور برما پر پورے ١٠٠ سال سے زاید حکومت کا موقع دیا ہمارے عہد کے ایک ممتاز ناول نگار علی اکبر ناطق کا خیال ہے کہ برطانوی استعمار نے انڈیا کو جدیدیت کی راہ پر ڈالا ہے اور اسکا سب سے برا سبب برطانوی بیوروکریسی کا عوام دوست ہونا تھا – انکا ناول نو لکھی کوٹھی جو پنجاب کے سابق ضلع مونتگومری موجودہ ساہیوال کے ایک اسسٹنٹ کمشنر کی داستان ہے اور پنجاب میں آنے والی اس سماجی تبدیلی کو بے حد خوبصورتی سے بیان کرتا ہے- لیکن اکیسویں صدی میں ایک جدید مسلم جمہوریہ کی ضروریات بہت مختلف ہیں – ٹیکنالوجی اور مارکیٹ اکانومی نے جہاں بہت سے امکانات پیدا کر دیے ہیں وہاں حد سے زیادہ آبادی انتہاپسند ی اور بے ہنگم پھیلتے شہروں نے جدید طرز زندگی میں کئ نے چیلنجز پیدا کر دیے ہیں- ٣٠٠ سال میں برطانیہ میں بیوروکریسی کی ساخت اور انتظامی امور میں مسلسل تبدیلیاں آ گئی ہیں – خود اداروں کی سائنس میں مسلسل تحقیق نے ہماری سمجھ بوجھ میں نۓ اضافے کیے ہیں اور اب تھیوری ہمیں یہ بتا سکتی ہے کیسے اداروں کو ایسے ڈیزائن کیا جائے کہ اسکے ملازمین زیادہ سے زیادہ کارکردگی بھی دکھایئں اور خود کو بھی علمی اور فنی لحاظ سے ترقی دے سکیں اور ساتھ ساتھ خوش بھی رہ سکیں – وقت کے ساتھ ساتھ کم از کم ہم دنیا سے بہت کم سیکھ سکے – لیکن ہمارے ہاں جہاں دانشوارانہ الزام تراشی اور افراط و تفریط پر مبنی دلائل دینے کا رواج عام ہو گیا ہے یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہم سارا الزام اپنی بیوروکریسی پر ہی ڈال دیں جبکے اسس نۓ نامساعد حالت میں بھی خاص طور پر اعلی سطح پر ریاست کو سنبھال رکھا ہے اور اپنی ذاتی حثیت میں ہمارے افسران دنیا کی کسی بھی افرادی قوت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں – ہمیں ذرا سیاست دانوں پر بھی نظر دوڑآ کر دیکھ لینا چاہیے – عام حلقہ چلانے والے سیاست دانوں سے کیا گلا کرنا مگر کیا ان جماعتوں کی قیادت کا یہ فرض نہ تھا کہ اپنی اداراجاتی استعداد پر زیادہ توجہ دیتے اور ملک چلنے میں ذرا زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کر پاتے ؟

فوج کے علاوہ اسس ملک کو دو بڑی پارٹیوں نے چللایا ہے اور دونوں کی صلاحیت صرف چند شعبوں میں ہی زیادہ نمایاں ہے جو کہ ایک اتنے کثیر القومی اور ہم گیر چیلنجز کا سامنا کرنے والے ملک کے لیے بلکل ناکاففی ہیں – پرائم منسٹر کا دفتر جسکو اٹھارویں ترمیم کے جوش میں ہم نہ پہلے ہی کمزور کر دیا ہے اسکو کوئی خاص ایڈوائس اور امداد حاصل نہیں ہوتی – میز کے گرد بیٹھے ہویے افسران بہرحال ایسے سیاستدانووں کا متبادل نہیں ہیں جو پالیسی میں بھی قابلیت کا درجہ رکھیں – وزیر ا عظم اور صوبوں کے وزرا علی کے مشیر انکے اپوزیشن دور کے وہ ساتھی ہوتے ہیں جن کو اکثر حکومت اور پالیسی کے معاملا ت نبھانے کا کوئی خاص تجربہ ہوتا ہے نہ مزاج – اور اگر ایک جاگیر دارانہ یا قبائلی پس منظر ہو تو جا بجا عزت نفس مجروح ہوتی رہتی ہے اور کمزور افسران کی شدید ضرورت پڑتی رہتی ہے جو تین چار سال میں کوئی نی تبدیلی نہیں لا پاتے – سیاسی جماعتیں اپنے پسندیدہ ترین ریفارمز میں تو بہتر ہیں لیکن انکو مسلسل اور ہم جہت کارکردگی کے لیے پارٹی کے اندر بڑی تعداد میں پالیسی کے ماہرین لانے پڑیں گے – ورنہ روڈ اور پل بنا نۓ ہوں گے تو مسلم لیگ کا انتظار کرنا ہو گا – جیل ریفارمز اور انسانی حقوق کی قانون سازی کے لیےپیپلز پارٹی اور لوکل گوورمنٹس اور غیر سیاسی پولیس کے لییے تحریک ا انصاف – اب بھلا ایک ایسی قوم جو انسانی ترقی کے چارٹ پر بہت نیچے ہو اور جہاں آدھی آبادی غریب ہو وہ کیا اپنے کم کروانے کے لیے قوم کیا ایک ایک پارٹی کا علحیدہ سے انتظار کرے؟

ریاست چلانا ایک ہنر ہے اور قومی استعداد کی درجہ تک بڑھائیے بغیر حقیقی تبدیلی ممکن نہیں ہے – ورنہ الیکشن کمیشن کے افسران یہی کہتے رہیں گے کہ خود ہی منصوبہ بنا لیں اور خود ہی اسے پیش کر دیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے