اسلام اپنا اپنا

ماہ مقدس،رمضان المبارک تو صبرواستقامت کا درس دیتا ہے لیکن یہ مہینہ شروع ہوتے ہی بے صبری کا ایسا مظاہرہ دیکھائی دیتا ہے جو سال بھر اپنی مثال چھوڑ جاتا ہے ۔ہر طرف جلدی جلدی اور افراتفری کا سا سماں ، شام سے قبل ہی سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک،پہلے گھر پہنچنے کی اتنی جلدی کہ کیا دیکھنا ، کون رائٹ پر ہے ،یا کس کا رائٹ پہلے،رستے میں کوئی نہ آئے ۔

چاہے قانون توڑ دیا جائے یا اخلاقیات کی حددو پار ،پروا نہیں ۔بس کسی طرح اپنی منزل تک پہنچ جائیں ، روزہ جو ہے ۔

روزہ ہر گز ہرگز فاقہ کشی یا ڈائٹنگ کا نام نہیں ، بلکہ نفس پر قابو پانا ہی روزے کی اصل روح قرار دی گئی ہے ۔لیکن یہاں تو صبح کے آغاز سے ہی مزاج شریف میں جوگرمی آتی ہے ،گزرتے وقت کے ساتھ پار ہ چڑھتا ہی چلا جاتاہے ۔سونے پر سہاگہ،جون کا یہ سخت موسم ، اپنے تیور دیکھانے سے باز نہیں آرہا ۔

اچھی خاصی ہلکے پھلکے مذاق سے شروع ہوتی بات چیت طنز میں بدل جاتی ہےاور لہجے کی تلخی رشتوں میں کڑوائٹ گھول دیتی ہے ۔مزاج کا یہی چڑ چڑاپن بحث و مباحثے کو ایسی طوالت دیتا ہے کہ بات پھر بڑھتے بڑھتے گالم گلوچ تک جا پہنچی ہے اورپھر ہاتھ اٹھتے دیر نہیں لگتی ۔سب کرامات روزے کی ہیں ۔

یوں تو اسلام کے سر ہر وقت ہی خطرات منڈاتے دیکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن روزے کی حالت میں یہ اسلام ہم پر کچھ زیادہ ہی حاوی ہو جاتاہے ۔
دین کی تبلیغ شروع ہوتی ہے تنقید کے ساتھ ۔

آپ نے نماز پڑھ لی ؟کیسے پڑھی ؟ سجدہ کیسے کرنا ہے ؟ ہاتھ کہاں باندھنے ؟افطاری کا کیا وقت ہے ؟ آپ کے مسلک میں اتنی تاخیر کیوں ؟ آپ کیوں جلدی افطار کر تے ہیں ؟ روزہ مکروہ ہو جاتاہے وغیر وغیرہ ۔ بحث طویل ہوتی جاتی ہے اور فتوے ٰ جاری، اسلام پھر سے خطرے میں پڑجاتاہے۔

روزہ تو خالصتاانسان اور اس کے رب کا معاملہ ہے ۔اس میں کیسی دخل اندازی ؟ کیسی تنقید ؟ کوئی رکھے نہ رکھے اس کا گناہ ،ثواب کسی دوسرےکے سر تو نہیں ۔تو کیوں نہ صرف اپنے اعمال کی ذمہ داری اٹھائی جائے ؟کیوں نہ اپنے اپنے اسلام کی حفاظت کی جائے ،دوسروں کے اعمال کا ٹھیکہ اٹھانے کی بھاری ذمہ داری سے بری الذمہ ہوجائیں تو ،زندگی خودبخود آسان ہو جائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے