رمضان شریف اورنوازشریف

پریشان حال پاکستانی قوم ایک ایسےشریف کی تلاش میں گذشتہ 67 سال سے لگی ہوئی ہے جو ان کا نجات دہندہ ہو، آیئے آپ کی ملاقات کچھ شریفوں سے کرواتا ہوں۔

ماضی قریب میں ہمیں جنوبی افریقہ کے نیلسن مینڈیلا اورملایشیا کے ڈاکٹر مہاتر محمدنظر آتے ہیں جو اپنی اپنی قوم کے نجات دہندہ ثابت ہوئے۔ ہماری موجودہ نواز شریف حکومت کہتی ہے کہ اگر اُسکو پانچ سال سکون سے حکومت کرنے دی جائے تو حالات بدل سکتے ہیں، کیوں پانچ سال کا کہہ رہی کہ اگر آپ کو یاد ہوتو نوازشریف صاحب 1999میں امیر المومنین بننے جارہے تھے یعنی قوم کے نجات دہندہ مگربرا ہو پرویز مشرف کا اچھا بھلا قوم کو نجات دہندہ مل رہا تھا، مگر مشرف نے نجات دہندہ کی بساط ہی لپیٹ دی اور اب دوبارہ نواز شریف اسی کوشش میں ہیں کہ وہ قوم کے نجات دہندہ بن جایں۔اب جو اکویشن بنی ہے وہ کچھ یوں ہے ہماری قوم کا نجات دہندہ تو نواز شریف ہیں،دہشت گردی کے نجات دہندہ راحیل شریف ہیں، بدماشوں سے نبٹنے کےلیے شہباز شریف ہیں، جہاں شہباز شریف نہ پہنچ پایئں وہاں حمزہ شریف ہیں۔ جبکہ مہنگائی، بھتہ خوری اور اسٹریٹ کرائم کےلیے شریفوں کی تلاش جاری ہے۔

ویسے تو ہمارئے ہاں انسانوں، مہینوں، دفتروں اور دکانداروں میں زندگی کے مختلف شعبوں میں بھی شریف پائے جاتے ہیں جو اپنےپیشے کے اعتبار سے بڑے عجیب لگتے ہیں۔ مثلا سیاست میں نواز شریف، شہباز شریف اور حمزہ شریف جبکہ اداکاری کے شعبے میں عمرشریف، بابرا شریف۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان دونوں شعبوں کو شریف نہیں سمجھا جاتا حالانکہ ان شعبوں کو غیر شریف بنانے میں خود شعبوں کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذمہ دار اس شعبے میں کام کرنے والے ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں انسانوں میں شریف اُسے کہا جاتا ہے جو محلے کی خواتین میں مقبول ہو، اُنہیں خالہ، آنٹی، اور باجی باجی کہتا ہو۔ محلے کے مرداُس کو مسکین سمجھتے ہوں اور وہ بزرگوں کی ہربات مانتا ہو، محلے کے بچوں سے دوستی رکھتا ہو اور محلے میں سر جھکا کے گزرتا ہو ۔ محلے کے تمام لوگوں کے کام بلا معاوضہ اور بلا چوں و چرا بغیر کسی حیل حجت کے کردیتا ہو، مثلا بجلی ، گیس اور پانی کے بل جمع کرانا ، گھرکا سودا سلف لادینا ، اسکے علاوہ حسب ضرورت محلے والوں کے کام کرنا، یعنی محلے کاشریف وہ ہوتا ہے جو سارے محلے کی بیگار ڈھوتا ہے۔

جس طرح ہر محلےکی بیگار ڈھونے کےلیے ایک شریف موجود ہوتا ہے اس طرح ہی ہر دفتر میں بھی ایک شریف ملازم ہوتا ہے، اس شریف ملازم کا مقصد حیات اپنے باس کو خوش رکھنا ہوتا ہے، یہ اپنے باس کے ذاتی کام بھاگ بھاگ کرکرتا ہے۔یہ دفتری شریف وقت پہ دفتر آتا ہے اور چھٹی کے بعد بھی کافی دیر تک دفتر میں رہ کر اپنے کام چور ساتھیوں کا کام نبٹاتا ہے۔

جیسے برئے سیاستدانوں میں سے ایک شریف سیاستدان بھی مل ہی جاتا ہے ایسے ہی سال کے بارہ مہینوں میں ایک مہینہ ایسا بھی آتا ہے جس کے ساتھ شرافت کا تمغہ لگا ہوتا ہے اور جسے ہم رمضان شریف کہہ کر پکارتے ہیں۔رمضان شریف کو ہم لوڈ شیڈنگ کا نجات دہندہ بھی سمجھتے ہیں۔ بلوں اور مہنگائی کے مارے عوام رمضان شریف کے آنے کا یوں بے چینی انتظارکرتے ہیں جیسے عوام کو ہر گھنٹے بجلی جانے کے بعدبجلی کے آنے کا انتظار رہتا ہے۔

حکومت رمضان شریف کے مہینے میں ملک کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے کافی نجات دلادیتی ہے، اسلیے عوام تو سال کے بارہ مہینوں کو رمضان شریف کہنے کو تیار ہے، ویسے بھی ساٹھ فیصد سے زیادہ خطہ غربت سے نیچے رہنے والوں کو کم از کم ایک فاہدہ ضرور ہوگا، روزے کا ثواب مفت میں مل جائے گا۔

ادھر ہماری حکومتیں بھی ہر سال اس شریف مہینے میں قیمتوں کو اعتدال میں رکھنے کا اعلان یوں کرتی ہیں جیسے باقی کے گیارہ مہینوں کی کرپشن اورمہنگائی کی ذمہ داری اُن پہ عائد ہی نہیں ہوتی۔ انسانی شرافت کی طرح رمضانی شرافت کا بھی ہمارے ہاں ناجائز فائدہ اُٹھایاجاتا ہے۔ یوں تو ہمارے دفتروں میں سال بھر چھٹیوں کا میلہ لگا رہتا ہے مگر رمضان شریف میں پورا مہینہ سرکاری چھٹی رہتی ہے۔

رمضان شریف کی عقیدت کی آڑ میں دفتروں، سرکاری اداروں اوربینکوں کے ملازم روزے دارآدھا دن کام کر کے پورے دن کی تنخواہ وصول کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر اسے بڑی ایمانداری سے پوراکرتے ہیں۔ آپ کسی دفتر میں چلے جائیں، روزے دار آپ کو دس بجے سے پہلے سیٹ پہ نہیں ملے گا۔اگر مل بھی گیا تو وہ بہت جلدی میں ہوگا اس لیے کہ گیارہ بجے سے اُس کو ظہر کی نماز کی تیاری کرنی ہوتی ہے، جس میں وہ ایک سپارہ بھی پڑھے گا اوراس کے لیےیہ دور کی کسی اپنے عقیدے والی مسجد میں جایگا۔ وہاں سے واپس آکر یہ اپنے گھر فون کرکے افطاری کے سامان کا معلوم کرئے گا جو اُس کو اپنے ساتھ گھر لےجانا ہے، اب یہ دو چار فون اپنے جاننے والوں کو کرئے گا، آپ جس کام سے صبح سے دھکے کھارہے ہیں وہ اب بھی نہیں ہو پائے گا کیونکہ اُس نے دو بجے گھر جانا ہے اور اگر آپ نے اُس کے کام نہ کرنے کی وجہ سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو وہ آپکو ایسے دیکھے گا جیسے ایک سچا مسلمان کسی کافر کو دیکھتا ہے۔

ہمارے دکاندار بھی رمضان شریف کو نہایت مقدس اور مبارک سمجھتے ہوئے تیس دن جھوٹ نہ بولنے کا عہد کرتے ہیں اور ہرفروخت کی جانے والی اشیا کی قیمتیں منہ سے بتانے کی بجائے ان پر پرائس ٹیگ لگا دیتے ہیں تاکہ رمضان شریف میں انہیں جھوٹ نہ بولنا پڑے لیکن جب خریدار مول تول کرتا ہے تو یہ سب کچھ بھول کرجھوٹ پہ جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ رمضان شریف میں جس شریف انسان کا حلال آمدنی میں گزارہ نہیں ہوتا وہ صبح دس بجے سے ہی پکوڑے اور سموسے کا ٹھیلا سرراہ لگا کراُن روزئے داروں کا پیٹ بھررہا ہوتا ہے جو دن میں تین چار روزے رکھتے ہیں، آپ صرف کچھ دیر ٹھیلے کے قریب کھڑئے رہیں پھر دیکھیں کیسے کیسے روزے دار صبح دس بجے سے ہی روزئے کا انتظام کررہے ہوتے ہیں۔ ان پکوڑوں اورسموسوں کو بیچنے والا صرف رمضان میں اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ نہیں بھرتا بلکہ اُس کی مہربانی سے ڈاکٹروں اور حکیموں کے روزگار میں بھی برکت ہوتی ہے۔ پکوڑے اور سموسے بیچنے والوں کی طرح رمضان شریف میں سی ڈی کی دوکانیں بھی خوب چلتی ہیں، ایک بھارتی فلم دیکھئے ، روزہ آپ کا یوں کٹ جائے گا جیسے چاند رات کو جیب کٹ جاتی ہے۔

آخر میں کچھ ذکرجمہوریت شریف کا بھی ہوجائے، نواز شریف کے اس ”جمہوری نواز شریف دور“ میں چار بجٹ آچکے ہیں لیکن نہ تو حکومت نے کشکول کو توڑا ہے اور نہ ہی غربت اور مہنگائی میں کوئی کمی آئی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس ملک کے عوام مہنگائی سے بلبلا رہے ہیں، زرداری سے لوگوں نے جان اسلیے چھڑائی کہ نواز شریف عوام کےلیے کچھ بہتر کرینگے لیکن گذشتہ تین سالوں میں ملک پرمزید قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔

آپریشن ضرب عضب فوج نے کراچی ایرپورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد از خود شروع کیا، ورنہ نواز شریف تو مذاکرات مذاکرات کھیل رہے تھے اور قوم کو بیوقوف بنارہے تھے۔ تین سال کی شریف خاندان کی خاندانی حکومت دیکھنےکے بعد ہمیں جمہوریت شریف کا مطلب اتنا ہی پتہ ہے کہ الیکشن ہوتے ہیں، لوگ ووٹ ڈالتے ہیں۔پھر جو بندہ جیت جاتا ہے اُسکا بھائی وزیراعلیٰ، بھتیجے، بھانجے وزیر بن جاتے ہیں، سمدھی وزیر خزانہ بن جاتا ہے۔ ہم زلف کا بیٹا بجلی کا وزیر بن جاتا ہے۔ بیٹی یوتھ لون سکیم کی چئیرپرسن بن جاتی ہے۔ ان سب کے آگے پیچھے قیمتی قیمتی گاڑیاں ہوتی ہیں۔ ان کے گھروں کے باہر سیکیورٹی ہی سیکیورٹی ہوتی ہے، عوام کیلئے ان کے گھروں کے راستے بند ہوتے ہیں۔

اب بھی اگر آپ شکایت کریں کہ شریف نہیں ملتا تو یہ آپکی زیادتی ہوگی، تین سال پہلے گیارہ مئی 2013ء کو جو شریف آپ نے منتخب کیا تھا اگلے دو سال اُس پر ہی گذاراہ کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے