ہریسہ خور اور کام کرنے والے حکمرانوں میں فرق

امریکہ کے سابق صدر آئزن نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ ہندوستان جنوبی ایشیاء کا مقناطیسی ملک ہے جس نے انہیں برصغیر کی جانب متوجہ کیا۔ لیکن دوسری طرف امریکہ کی پالیسیاں پاکستان کے حوالے سے موقع پرستی پر مبنی اور اخلاقی قدروں سے عاری ہوتی ہیں۔ اسی لئے 1964ء میں ایوب کابینہ کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی امریکہ پر زبردست تنقید کی تھی اور خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’امریکہ کو اتحادوں کے نظام اور اتحادیوں سے بے وفائی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا‘‘ امریکہ پاکستان کو ہر دور میں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیتا ہے ۔

قومیں اور ملک مضبوط قیادت ہی آگے لے کر جاتی ہے۔ پاکستان میں نواز حکومت چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے۔ المیہ مگر یہ ہے کہ ابھی تک کل وقتی کی بجائے جزو وقتی وزیر خارجہ سے کام چلایا جا رہا ہے ۔ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات ملک نہیں کچھ اور ہیں۔ برعکس ہندوستان میں مودی حکومت بنے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا لیکن ہندوستانی وزیراعظم نے اپنے ملک کیلئے وہ کامیابیاں سمیٹی ہیں جس کا پاکستانی حکمران صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔

مودی وزیراعظم بنا تو میاں نواز شریف اس کی تقریب حلف برداری میں اپنے خاندان کو لے کر پہنچ گئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نواز شریف لاہور، کراچی کے تاجروں کو ساتھ لے کر جاتے اور اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ملک و قوم کی بھلائی کا سوچتے مگر انہوں نے سٹیل بزنس ٹائیکون جندال سے ملاقات اپنے بیٹوں کو ساتھ رکھ کر کی۔ گویا ملکی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد عزیز تھا۔ مودی نے ہمیں خارجہ محاذ پر چاروں شانے چت کر دیا مودی ملک پر ملک فتح کر رہا ہے اور کیے جا رہا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ وہ ہمارا ازلی دشمن اور مسلمانوں کا بے رحم قاتل ہے مگر وہ اپنی عوام اور ملک کیلئے دن رات بھاگ دوڑ کر رہا ہے۔ اس کا ذاتی مفاد کوئی نہیں اس کا نہ کوئی بزنس ہے اور نہ بیرون ملک جائیدادیں، جب بھی بیرون ملک جاتا ہے تو اپنے ساتھ نہ کسی بھائی کو لے کر جاتا ہے اور نہ اولاد کو۔ اس کا اول آخر ہندوستان ہے۔

ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات ملک کی حالت سنوارنا نہیں بلکہ اپنا کاروبار سنوارنا ہے۔ ملک کو لوٹ کر’’پانا میاں‘‘ کمپنیاں بنانا اور عوام کو اندھیرے میں رکھنا ان کا پسندیدہ شغل ہے۔ سفارتی طور پر ہم تنہائی کا شکار ہیں ، پاکستان میں امریکی ڈرون حملہ ہوتا ہے ، ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادیو پکڑا جاتا ہے۔ ہماری سیاسی حکومت نے رسمی احتجاج بھی نہیں کیا۔ جنرل راحیل شریف نے دوٹوک موقف اختیار کیا۔ کہا جاتا ہے کہ حکمران دو طرح کے ہوتے ہیں ایک کتاب پڑھنے والے اور دوسرے ہریسہ کھانے والے ، سوچ کو بلند پروازی وسعت مطالعہ سے ملتی ہے اور یہی بلند پروازی ملک و قوم کو اوج ثریا تک لے جاتی ہے ۔

بدقسمتی سے ہمیں جو حکمران ملے ان کا تعلق ہریسہ کھانے والوں سے ہے ۔ سی پیک منصوبے سے ہندوستان اور امریکہ کو بڑی تکلیف ہے بہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی منصوبہ ہے یہ ہزاروں کلو میٹر ریلویز، موٹرویز ، لاجسٹک سائٹس اور بندرگاہوں کا ایک مربوط نظام ہے۔ چین ہر روز ساٹھ لاکھ بیرل تیل باہر سے منگواتا ہے جس کا سفر 12ہزار کلو میٹر بنتا ہے جبکہ یہی سفر گوادر سے 3000کلو میٹر رہ جائے گا۔ گوادر پورٹ آبنائے ہرمز دنیا کی سب سے گہری بندرگاہ ہے۔ مصر کی نہر سویز سے پورے ملک کیلئے چالیس لاکھ بیرل تیل جاتا ہے جبکہ گوادر سے صرف چین کیلئے روزانہ 60لاکھ بیرل تیل جائیگا۔ چین کو سالانہ 20ارب ڈالر بچت صرف تین کی برآمد میں ہو گی جبکہ پاکستان کو تیل کی راہداری کی مد میں 5ارب ڈالر سالانہ ملیں گے۔ سب سے بڑھ کر چین امریکہ اور انڈیا کی محتاجی سے نکل آئے گا جو اس وقت چین جانے والے سمندری راستوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ روس اور وسطی ایشیائی ریاستیں گوادر کی بدولت پاکستان پر انحصار کریں گی۔

ایک اندازے کے مطابق اسی ہزار ٹرک روزانہ چین ، روس اور سنٹرل ایشیاء کے ممالک سے گوادر کی طرف آمدورفت کریں گے ٹول پلازے کی مد میں پاکستان کو 20سے 25ارب روپے کی بچت ہو گی۔قدرت نے پاکستان کو جو سٹریٹجک پوزیشن دی ہے وہ بڑی اہمیت کی حامل ہے ہمارے دشمن اس منصوبے کو روکنے کیلئے سب کچھ کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے وزیراعظم لندن کے پرفضاء مقامات میں برگر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ سیاستدانوں ، میڈیا ، قوم پرست جماعتیں اور داعش کے دہشتگردوں کو اس مقصد کیلئے استعمال کیا جائیگا ہمارے حکمران اس وقت اس منصوبے سے خطرناک انداز میں کھیل رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے روٹس چھپا کر قوم پرست جماعتوں کو ناراض کیا اس پر کام روکے رکھا۔ اس منصوبے کیلئے آنے والی ابتدائی سرمایہ کاری کو ’’مالٹا ٹرین‘‘ پر لگا دیا۔ چین نے مجبوراً اور قرضہ دے کر اپنی جان چھڑائی۔

ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادیو نے اس منصوبے کیخلاف انڈین اور امریکی عزائم کا جب پول کھولا تو ہمارے حکمرانوں کی طرف سے بھیانک خاموشی ایک سوالیہ نشان بن گئی۔ اوپر سے انہوں نے اپنے ارد گرد بھانڈ اور جگت باز اکٹھے کر رکھے ہیں جنہیں قوم کے مسائل کے حل کا کوئی ادراک نہیں، یہ بھانڈ اسمبلی میں خواتین پر جگتیں لگا کے اپنے گھٹیا پن دکھا رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے اور حقیقی معنوں میں ریاست پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے