آسکر وائلڈ، آرلینڈو سانحہ اور وکٹورین عہد کی اخلاقی اقدار

ادبی دنیا کی تاریخ کا سب سے عبرتناک باب آسکر وائلڈجیسے جنیئس (genius) کا زوال تھا ۔یہ تبصرہ آسکر کہ ایک ہم عصر نے کر کے اپنے آپ کو تاریخ میں زندہ کرلیا ۔ لٹریچر سے تھوڑا بہت شغف رکھنے والوں کے لئے آسکر وائلڈ ایک جانا پہچانا نام ہے ۔اس کے ناول (the beautiful picture of dorian grey) کو ادب کی جمالیاتی صنف (aesthetic genre) کا شاہکار ناول سمجھا جاتا ہے ۔ آسکر صرف ناول ہی نہیں بلکہ ڈرامہ، شاعری اور صحافت کے میدان کا بھی شہنشاہ تھا۔ اسکی شاندار نثر ، تیکھے جملے اور انسانی نفسیات کی گرہیں کھولتے فقرے آج ایک صدی گزرنے کے باوجود بھی اسے ایک منفرد مقام دلائے ہوئے ہیں ۔وکٹورین عہد کے آخری عشروں میں اسکی شہرت نے شیکسپئیر ، شیلے اور ٹینیسن(tennyson) جیسے ماضی کے قد آوروں کو دھندلا کر رکھ دیا تھا۔

اس زمانہ میں اسکی شہرت کا اندازہ تھوڑا بہت وہی لوگ کر سکتے ہیں جوآج کی ہالی وڈ انڈسٹری کے سپر سٹارز کی سٹار ڈم (stardom) سے شناسائی رکھتے ہوں۔کیونکہ اس وقت اسکر وائلڈ کو وہی درجہ حاصل تھا جو آج ٹام کروزیا (Robert Downy Jr.) کو حاصل ہے۔لند ن کی کوئی پوش محفل ٓاسکر کے بغیر سج ہی نہیں سکتی تھی ۔عوام سے لے کر خواص تک ہر طبقہ میں اس کے ان گنت پرستار پائے جاتے تھے ۔ لیکن ان پبلک اچیومنٹس کے باوجود وہ ذاتی زندگی میں تلذز پسندی اور امردپرستی کا شکار تھا۔شہرت اور سٹار ڈم نے بہت عرصہ تک اس کی ان قبیح حرکتوں پر پردہ ڈالے رکھا ۔لیکن بکرے کی ماں آخر کب تک خیر مناتی ، اتفاق سے لارڈ کوئینسبرر ی (Lord of Queensbary) سے اسکا جھگڑا ہوگیا (یہ وہی Queensbury ہے جس نے جدید باکسنگ کے قوانین و ضع کئے) ۔معا ملہ عدالت تک جا پہنچا، مخالفین نے وہاں ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دے ۔جج نے تحقیقات کا حکم دیا تو کوئینسبری کے آسکر پر لگائے گئے ہم جنس پرستی کے الزامات درست نکل آئے۔عدالت نے اس اخلاقی گراوٹ کا مرتکب ہونے پر آسکر کو دو سا ل قید کی سزا سنا دی۔یہاں سے اس نا بغہ (genius) کا عبرتناک زوال شروع ہوا جس نے اس سے شہرت ، دولت اور عزت سب کچھ چھین لیا۔

اب زرا تصور کیجیے کہ یہ واقعہ 2016 میں پیش آتا تو کیا طوفان مچ گیا ہوتا۔ مین سٹریم اور سو شل میڈیا پر باقاعدہ آسکر کی ہمدردی میں مہم کا آغاز ہوجا تا۔اس کی فنی خدمات پر رپورٹس اور کارناموں کے ذکر سے فیسبک کی نیوز فیڈ بھرنے لگ جا تی۔ آسکر کی رنگ برنگی پروفائل ڈی پیز کی ایک بہا ر سی آجاتی۔انصاف اور بنیا دی انسانی حقو ق کی دہا ئی دی جانے لگتی۔ہم جنس پرستوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف پریڈز اور ریلیاں سان فرانسسکو سے سڈنی تک نظر آنے لگتیں۔ دانشوروں کا ایک بڑا طبقے کو اس سزا کے تانے بانے مسلم انتہا پسند ی اور دقیا نوسیت سے ملتے دکھائی دینے لگتے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ہمدردی صرف مغرب اور برطانیہ تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس میں ہمارے ہاں کے انسان دوست لبرل بھی پوری دنیا کی آواز میں آواز ملا تے دکھائی دیتے۔لیکن اس وقت کا بر طانوی معاشرہ اس قدر مادر پدر آزاد نہیں تھا۔ان کا اس اخلاقی مجرم سے رویہ ذرا ملاحظہ ہو۔
ایک زمانے میں ہر سال برطانوی سرکار بہترین شاعر یا ادیب کو Poet Laureate کے اعزاز سے نوازتی تھی ۔اس کا مقصد نہ صرف ادب کی سرپرستی ہوتی تھی بلکہ اس شخصیت کو بھی خراج تحسین پیش کرنا بھی مقصود ہوتا تھا جو اپنے شاندار کام سے عوام اور خواص کی آنکھوں کا تارا بنی ہوئی ہو۔ 1892 میں Tennyson کی وفات کے بعد یہ اعزاز کئی سال خالی رہا۔یہی دور آسکر کے عروج کا زمانہ تھاجب اس میدان میں کوئی شہسوار اس کا ثانی نہ تھا۔لیکن شرمناک افعا ل میں مبتلا آسکر کو اس کی بے مثال ادبی خدمات کے باوجو د وکٹورین حکومتی ایدمنسٹریشن نے (جس کا یونین جیک ایک چوتھائی خشک زمیں پر لہراتا تھا)اپنی اخلاقی اور معا شرتی اقدار کی قربانی دے کر سرکاری پزیرائی بخشنا گوارا نہ تھا۔یہ اعزاز اس و قت خالی رہا ،جب تک آسکر کو سزا نہیں ہوگئی ،پھر یہ ایک اوسط درجہ کے شاعر کویہ کہہ کر دے دیا گیا کہ اس اعزاز کے لئے عزت دار ہونا بھی ضروری ہے۔

اس واقعہ کا دوسرا پہلو برطانوی عوام کا رویہ ہے جس کو کچھ مورخین نے اخلاقی دورے (morality fits)سے تشبیہ دی ہے۔جونہی آسکر کے غیر فطری تعلقات کا راز پبلک میں آشکار ہوا ،عوام اور پریس میں اسکے خلاف طعن تشنے، گالم گلوچ تک جا پہنچے۔ نوجوانوں میں اس کے خلا ف گھٹیا لطیفہ زبان زد عام ہونے لگے۔ اخبارات اس پر تنقید میں صفحہ پر صفحہ کالے کرنے لگے۔آسکر کی کتابوں کی فروخت بند کر دی گئی اور اس کا نام اپنے ہی ڈرامو ں کے بل بورڈز سے کھرچ دیا گیا۔عوام میں اس کے خلاف نفرت کی لہر اتنے عر صہ تک پھیلی رہی کہ دو سال بعد جب آسکر وائلڈ جیل سے باہر نکلا تو اسکو مجبو را فرانس میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔پھر وہ مرتے دم تک برطانیہ کی سر زمین پر واپس قدم نہ رکھ سکا۔آسکر وائلڈ کے ساتھ سو سال قبل ہونے والے یہ سلوک ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے جو اورلینڈو میں ہم جنس پرستوں کی دہشتگری میں ہلاکت پر افسوس کے پردے میں اس کمیونٹی سے اظہار ہمدردی اور امتیازی سلوک پر ان سے یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔معاملہ انسانی جان کا ہو تو چاہے وہ کسی کافر کی ہو مسلمان کی ہو ،کسی گناہ گار کی ہو یا ہم جنس پرست کی ، اس کا یوں قتل ہوجانا پر افسوس تو بالکل بجا ہے۔لیکن اس دکھ کی آڑ میں بدفطرتی کی وکالت کون سی انسانیت اور تہذیب کی خدمت ہے یہ تو سراسر ہماری نسلوں کو تباہی اور بربادی کی طرف دھکیلنے کی کھلی شہ دینے کے مترادف ہے۔اسی طرح مادر پدر شیطانی آزادی کو انسانی حقوق کا خوشنما لیبل دے کرلوگوں کی نظر میں اس قبیح فعل کو بے ضرر ثابت کروانا کس قسم کی ہوش مندی ہے ۔خدا کے عذاب کو دعوت دینے کے ہزار ہمارے مشغلہ ب پہلے کیا کم تھے جو یہ نیا کھیل اب ہم اپنانے جا رہے ہیں۔زندہ قومیں اور تہذیبیں اس طرح کے بدفطرتوں کو اپنے معا شروں کا حصہ بنانے کی بجائے انھیں کوڑھی سمجھ کر الگ تھلگ کر دیتی ہیں تاکہ ان کی نسلیں اس قباحت سے محفوظ رہ سکیں ۔ کاش دنیا میں دوبارہ وہ اخلاقی اقدار واپس آجائیں جو بدفطرتی کو غلیظ سمجھ کر دھتکاریں نہ کہ ان کو قانونی تحفظ اور قبولیت کی سند دے کر اس گند کو مزید پھیلنے کا موقع دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے