مسٹر اور مُلا

ٓآج کل پاکستان کی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اسلام پسندی کے دعویداروں اور اپنے آپ کو روشن خیالی کے علمبرتصور کرنے والوں میں عورتوں کے حقوق کو لے کر ایک بے ہنگم اور نا شائیستہ قسم کی جنگ بپا ہے ۔جو کہ ایک سنجیدہ، شائستہ، اور سلجھے ہوئے انسان چاہے اسکا تعلق کسی مذہب یا عقیدے سے ہوکے لئے باعثِ تکلیف و رنج ہے۔گذشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل پر کچھ ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملے۔ایک طرف دین محمدﷺ کے دفاع کا دعویدار تھا لیکن اسکے طرز ، انداز، اسلوب اور برتاؤ سے کہیں یہ گمان نہیں ہورہا تھا کہ وہ اس دین کی دفاع کا دعویدار ہے ۔ جس نے ہمیشہ حسنِ اخلاق اور اعلی ظرف کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا۔

دوسری طرف روشن خیالی کا وہ روشن مینارہ نسوانیت تھی جس نے ایک مخصوص ذہن کے ساتھ کچھ مذہبی طبقے کو نشانہء ستم بنانے کے لئے اس انداز میں مذہب پرستوں پر وار کیاکہ جس میں وہ نسوانیت کا بنیادی عنصرِ شرم و حیا اور بنیادی انسانیت کے سارے اقدار بالائے طاق رکھ بیٹھی۔

اسطرح کے اور کئی دین دار اور لبرل مزاج کے لوگ آئے روز الیکٹرانک میڈیا پر ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار رہتے ہیں۔ یہ کھیل تماشہ میڈیا ہاؤسز اور پروگرام کے اینکرز حضرات کے لئے ریٹنگ بڑھانے کا ایک بونڈھا ذریعہ تو ہو سکتا ہے ۔ لیکن ان اخلاق سوختہ پروگراموں سے نہ تو ملک و ملت کی کوئی خدمت ہوتی ہے اور نہ ہی عورت ذات کی کسمپرسی اور دکھوں بھری زندگی میں کچھ بدلاؤ آسکتا ہے۔
فکر و شعور سے عاری حضرات ٹی وی چینل پر بیٹھ کر دو انتہاؤں کی نمائندگی کرتے ہیں نہ کہ وہ قوم کی ذہن سازی میں کوئی تعمیری کردار ادا کرتے ہیں ۔نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ بھدا کھیل میڈیا ہاؤسز صرف اپنے چینلز کی ترویج و ترقی اور اقتصادی برتری کے لئے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ورنہ جن حضرات کو سنجیدہ موضوعات اور علمی مباحث پر بات کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے ۔ انکی اپنی علمی، فکری اور کردار کی صلاحیتنں شاید ایک سوالیہ نشاں ہوں۔ان حضرات سے کہیں بہتر دانشور اور عملی کام کرنے والے افراد ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ۔ لیکن شاید وہ اس بد تمئزی اور بداخلاقی کے ساتھ لڑ کر انکے ٹاک شوز کی ریٹنگ نہ بڑھا سکیں۔

سیاستدانوں اور دوسرے لوگوں کی صبح شام دولت لوٹنے اور کرپشن سے بھری داستانیں طشت از بام کرنے والے قوم کے یہ مجاہد اور میدانِ صحافت میں زرد صحافت کے یہ علمبردار اپنے آپ کو قوم کے کن مجرموں میں شمار کریں گے؟؟؟

علم و فکر اور دینی و قومی اقدار سے عاری ان ٹاک شوز کا یہ ایک افسوسناک پہلو تھا۔ مگر اس سے بھی کربناک اور افسوسناک پہلو میری نظر میں وہ ہے ۔ جس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس مملکتِ خداداد میں مسٹر اور مُلاّ کی تفریق اور خاموش جنگ ابھی بھی جاری ہے۔ساٹھ سال گزرنے کے باوجود ہم اس تفریق کو ختم نہیں کرسکے جو کہ بد قسمتی سے جنگِ آزادی لڑتے ہوئے ہمارے اندر دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ کے نظریاتی بنیادوں پر وجود میں آئی تھی۔انگریز کے خلاف لڑتے ہوئے ہم اس وقت طریقہ ء کار کے اختلاف کی بنیاد پر دہ مختلف راہوں پر چل کر منزلِ مقصود کی طرف بڑھنے لگے۔ اس وقت یہ ایک خالص قومی اور ملی جذبے کی بنیاد پر عملی اختلاف تھا۔لیکن اس اختلاف کو بڑی ہوشیاری کے ساتھ اس وقت کے انگریز حکمران اور بعد میں اس کے خر خرے کرنے والے جانشین دیسی نا خداوؤں نے مسٹر اور مُلاّ کا رنگ دے کر معاشرے کو دو گروہوں اور دھڑوں میں تقسیم کردیا۔

یہ ایک تلخ قومی حقیقت ہے ۔ جسکی بنیاد نفرت و حقارت اور علمی و حب الوطنی کے زعم پر ڈالا گیا۔ہمارے معاشرے کو لاشعوری طور پر دو انتہاء کی سوچوں میں تقسیم کردیا گیا۔اور اسکی جھلک آج بھی ان بے مقصد ٹاک شوز میں بطریقہ ء اتم دکھائی دیتی ہے۔مذہبی طبقہ کسی بھی صورت میں دین کی اجارہ داری میں یونیورسٹی اور کالجز کے ذہیں اور باعمل مسلمانوں کا عمل دخل برداشت کرنے کی قطعا قائل نہیں۔ جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم سے مزین دورِ جدید کے تقاضوں پر غور و فکر کرنے والے اکثر حضرات دین سے جڑے مذہبی طبقے کو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ سمجھتے ہیں ۔
یہ دوانتہائی سوچیں ہمارے معاشرے کی بدقسمتی سے تلخ حقیقتیں ہیں ۔افکا رکی ان دو انتہاؤں نے ملک و قوم کو جو سب سے بڑے نقصان سے دو چار کیا وہ آج کل کھلے عام اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں سیکولر، لبرل اور اسلامی طرز فکر سے قطعا عاری مغربی طرزِ فکر کے زیرِ سایہ پنپنے والا ذہن ہے۔اس سے بڑا قومی سانحہ ، المیہ کیا ہوگا؟؟؟ کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟؟ لاالہ الااللہ ۔۔۔ کے نتیجے میں وجود پانے والے ملک میں سرِ عام ٹی وی پر بیٹھ کر صریحا قرآن کے سوچ و فکر کے منافی کوئی بھی علم و شعور سے عاری شخص مفکر ودانا بن کر اپنے افکار کا پرچار کرے۔

مسٹر اور مُلاّ کے اس تفریق نے تیسری سوچ اور لادینی قوتوں کو اسکو ہوا دینے کا اچھا موقع فراہم کیا۔آج جو لوگ جدت پسندی ۔ حقوق و آزادی اور سیکولر و لبرل معاشرے کا پرچار کر رہے ہیں شاید انکے اس نقطہ نظر کو پروان چڑھانے میں پاکستانی مسٹر اور مُلاّ کے علمبردار برابر کے شریک ہیں کہ وہ ان دوریوں کو کم نہ کرسکے جسکی کوشش شیخ الہند مولانا محمودالحسن نے اپنی عمر کے آخری حصے میں ۱۹۲۰ء میں علی گڑھ جاکر کی۔جہاں اپنے تاریخی خطبے میں شیخ الہند نے علی گڑھ کے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

..کہ جس تحریک کے لئے میری ھڈیاں پگھلتی جارہی ہیں آج جب میں نے دیکھا کہ اسکے غمخوار دینی مدارس میں کم اور کالجز اور یونیورسٹیز میں زیادہ ہیں ۔ تو علی گڑھ کے نوجوانو!! میں آپکے دروازے پر چلا آیا۔؛؛

آج اس سوچ کی اشد ضرورت ہے۔ کہ کالجز یونیورسٹیز اور دینی مدارس کے فاصلوں کو کم کیا جاسکے۔ یہی ایک طریقہ ہے کہ جس سے ہم معاشرے کو ایک معتدل سوچ دے سکتے ہیں۔ مذہبی طبقہ اپنی انتہائی سوچ سے پیچھے ہٹ کر قومی دھارے کا ایک اہم جز بن سکتی ہے ۔ اگرچہ زبانی طور پر ہم سب اسکے حامی ہیں لیکن فکری اور عملی طور پر اب بھی اس پر بہت کام کرنا باقی ہے۔

یہی وہ طریقہ ہے جو کہ معاشرے میں لبرلزم سیکولرزم اور لا دینیت کا راستہ روک سکتی ہے ۔ کیونکہ سوچ اور فکر کو عمل سے بدلا جا سکتا ہے۔ ٹاک شوز میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے سے نہ تو دین کی خدمت ہوسکتی ہے ۔ اور نہ ہے بنیادی انسانیت کے تقاضے پورے کئے جا سکتے ہیں۔صرف ان قوتوں کو تقویت اور شہ ملتی ہے جو اس مملکتِ خداداد اور ہماری دینی ورثے کو تاراج کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔

انتہاء پسندی ، سوچ میں شدت اور دوسروں کے آراء کا مقابلہ عملی اور علمی بنیادوں پر کرنا ہوگا۔ اور اس مقصد کے لئے مسٹر اور مُلاّ کے فاصلوں کو کم کرنا ہوگا۔یہی انسان دوستی اور خداپرستی کو پروان چڑھانے میں ممد و معان ثابت ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے