عصر حاضر کی جدید ٹیکنالوجی اور نت نئی ایجادات جنہوں نے دنیا میں ایک طوفان بپا کررکھاہے کے پیش نظر مستقبل میں ممکنہ نظام تعلیم کے حوالے سے اپنے ناقص خیالات کو الفاظ کی لڑی میں پرونے کی کوشش کی ہے ہماری اس پیشن گوئی سے متفق ہوئے تو تنقید و تائید کےلئے کمنٹس باکس آپکی خدمت میں حاضر ہے وگرنہ مختلف ری ایکٹ آپشنز بھی آپ سے محض ایک کلک کے فاصلے پر ہیں۔ اپنی رائے کے اظہار کا آپ کو کھلا حق حاصل ہے تو چلیں پھر پڑھیئے تحریر کی طوالت پر معذرت خواہ ہوں ۔
…………………….
اللہ تعالٰی نے اس کائنات کی ساخت میں ہی تغیر کو رکھاہے ہر لمحہ اس کائنات میں تغیر واقع ہوتا رہتاہے خاص کر اس زمینی گولے میں تو پل پل میں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ انسانی فطرت بھی تغیر پسند ہے وقت کے ساتھ ساتھ انسان خود کو اسی سانچے میں ڈھالتا ہے جو وقت کی مانگ ہوتی ہے اور یہ کوئی امر حادث نہیں ابتداء سے ہی یہ نظام چلا آرہاہے ۔ ویسے تو انسانی زندگانی ان گنت پہلو لئے ہوئے ہے جن کا تعلق تبدیلی سے ہے لیکن ان میں سے آج ہم صرف ایک ہی پہلو کو زیر بحث لائیں گے۔
نظام تعلیم اور اس میں تغیرات:
انسانی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ ابتداءً انسان پتھروں پر نقش و نگار کے زریعے سیکھنے سکھانے کا کام کرتاتھا پھر وقت نے کروٹ بدلی تو نقش و نگار سے ترقی کرکے سیکھنے سکھانے کا عمل حروف اور الفاظ میں تبدیل ہوگیا حضرت انسان نے اپنے خیالات کو الفاظ کی شکل دی اور انہیں خیالات کو حروف کی مدد سے پتھر کی سلوں اور لکڑی کی تختیوں پے تحریر کرنے لگا پھر وقت کیساتھ ساتھ انسان پتھر، لکڑی اور چمڑے سے ترقی کرکے کاغذ اور قلم کے دور میں قدم رکھ چکا ۔
بہرحال مرور زمانہ کیساتھ انسان تعلیمی نظام کے مختلف مراحل کو طے کرتا رہاہے چند نمایاں تبدیلیاں جن ادوار میں واقع ہوتی رہیں انہیں کو زیر قلم لائیں گے۔
ان میں سب سے نمایاں اسلام کا سنہری دور ہےانسان پر اللہ تعالٰی کی بہت بڑی نعمت ہے اسلام۔ انسان جب اسلام کے اس دور میں داخل ہوتاہے تو تعلیم و تعلم کی حقیقی روح سے بھی واقف ہوجاتاہے اسلام کا سورج جہاں پر بھی طلوع ہوا وہاں علم کی روشنی بھی پھیلائی ہے اور ہر مقام پر درسگاہیں قائم کیں جہاں ہر قسم کے علوم و فنون سکھائے گئے انسان نے قلم کے زور سے علم کی دنیا میں وہ کوہ سر کئے جسکی آج بھی نظیر نہیں ملتی لیکن پھر جلد ہی غفلت کی چادر اوڑھ لی۔
خیر پھر تقدیر نے کایہ پلٹی اور تعلیم (صرف دنیاوی فنون) کا سورج مغرب میں طلوع ہوا۔ اہل مغرب (جو اس سے قبل مشرق کی چوکھٹ سے علم کی بھیک لیتے تھے) سیانے نکلے انہوں نے اس نعمت کی قدر کی اور خدا نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا کیوں کہ وہ اپنی نعمتوں کے قدردانوں کا قدردان ہے۔
۞ لئن شکرتم لازیدنّ کم ۞
پھرسکول اور کالجز آئے اور جگہ جگہ یونیورسٹیز قائم ہوئیں علوم و فنون سیکھنے کا اک نیا دور شروع ہوا پھر کمپیوٹر ایجاد ہوا جس سے دنیا میں اک نئی ہلچل مچی اس کے بعد دنیا میں انٹرنیٹ کا جال بچھا انٹرنیٹ نے تو گویا اسی ہلچل میں بھونچال پیدا کر دی نیٹ کے اس جال کی بدولت پیغام رسانی سمیت تعلیمی دنیا کو بھی ایک نیا فروغ ملا دنیا کے مختلف کونوں میں بسنے والے لوگ ایک پل میں باہم منسلک ہونے لگے اسی انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ وسیع و عریض دنیا ایک گلوبل ویلج بن کے رہ گئی جس میں آپ کےلئے بغل میں بیٹھے شخص سے بات چیت کرنا جتنا آسان ہے اتنا ہی آسان دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے شخص سے ہے۔
تمہید کافی طویل ہوگئی اب آتےہیں اصل مدعا پر کے آئندہ کا تعلیمی نظام کیسا ہوگا۔۔۔؟؟؟؟
تاریخ کے ان تمام مشاہدات سے میری ناقص عقل یہ کہتی ہے کہ آئندہ چند دہائیوں میں انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی ہی کی بدولت بننے والا ایجوکیشن سسٹم موجودہ نظام سے یکسر مختلف ہوگا وہ ایسے کہ بچے آج کی طرح ۱۰ کلو وزنی بیگ لادے سکول نہیں جائیں گے بلکہ اپنے ہی گھر بیٹھے چند سو گرام کے آئی پیڈ یا ٹیبلٹ یا ایک چھوٹے سے لیپ ٹاپ کی مدد سے تعلیم حاصل کرینگے جہاں بیٹھے وہ دنیا کے کسی بھی حصے سے ویڈیو لیکچرز، تصاوير اور تحاریر کے زریعے تعلیم حاصل کرینگے ۔ہوسکتا جگہ جگہ یہ سکول و کالجز کی عمارتیں بھی ہمیں دیکھنے کو ناں ملیں ۔۔!
اس لئے ابھی یادگار کے طور پر تصاویر کی صورت عکس بند کریں پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی۔???
انسان کی دماغی ساخت ہی ایسی ہےکہ وہ تحریر سے زیادہ تصویر کو سمجھتا اور یاد رکھ سکتاہے اسی لئے آپ نے غور کیا ہوگا کہ ہمیں اکثر لوگوں کی شکلیں یاد رہتی ہیں لیکن نام یاد نہیں رہتے۔ ابھی سے آپ یوٹیوب کو ہی دیکھ لیں جہاں دنیا کی تمام اعلیٰ یونیورسٹیوں کے ماہر ترین پروفیسرز کے ہر پہلو پر ویڈیو لیکچرز موجود ہیں جہاں سے انسان بآسانی سیکھ اور سمجھ سکتاہے۔ اس کے علاوہ بھی ہزاروں ویب سائٹس ہیں جہاں پڑھنے پڑھانے کا عمل جاری ہے۔ تو کیا بعید ہے اس میں کہ حضرت انسان اپنی تاریخ اور فطرت کے مطابق یہاں پر بھی سہل طریقے پر عمل کرے اور انٹرنیٹ پر ہی سکولنگ کا آغاز کرے اب سوال یہ ہےکہ:
اگر ایساہی ہوناہے جیسا اوپر کہا گیا تو ہمیں کیا کرنا چاہئے۔۔۔؟؟؟
اس کا آسان سا جواب میرے زہن میں یہ ہےکہ ہم اپنی نئی نسل خاص کر چھوٹے بچوں کو (مکمل نگرانی کیساتھ) جدید ٹیکنالوجی کے تمام تر آلات و سہولیات سے آگاہ کریں ان کا استعمال، فوائد، نقصانات اور دیگر تمام لوازمات سے بھی مکمل روشناس کرائیں تاکہ کل کی جدید دنیا میں ہمارا بچہ نابلد نہ ہو وہ آسانی سے اس معاشرے کا بہترین فرد بن سکے۔
کیا خیال ہے آپ کا۔۔۔؟؟؟