اعتکاف کا لغوی معنیٰ "مسجد میں معینہ مدت کے لیے گوشہ نشین ہو کر عبادت کرنا”اور شرعی طور پر مسجد میں اعتکاف کی نیت کرکے ٹھہرنے کو اعتکاف کہتے ہیں ۔ اعتکاف کی تین قسام ہیں،اول واجب اعتکاف ،دوم سنت اعتکاف اور سوم نفل اعتکاف۔واجب جومنت اور نذر کی وجہ سے ہو جیسے کوئی کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو اتنے دن کا اعتکاف کروں گا،جتنے دنوں کی نیت کی ہے اس کا پورا کرنا لازمی ہے۔سنت اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرے کا ہے نبی کریم ﷺ تواتر کے ساتھ آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔نفل اعتکاف کے لیے وقت اور ایام کی تعداد متعین نہیں ہے بلکہ جب اور جتنا چاہیے مسجد میں اعتکاف کی بیت سے ٹھہرا رہے،اس لیے ہر مسلمان کے مناسب ہے کہ وہ جب بھی مسجد میں داخل ہو اعتکاف کی نیت کرلے۔
نبی کریم ﷺ پورے رمضان المبارک میں عبادت کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے لیکن آخری عشرہ میں تو حد ہی نہیں رہتی تھی رات کو خود بھی جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگانے کا اہتمام کرتے تھے۔ حضرت اماں عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ اخیر عشرہ میں حضور ﷺ کمر بند کس لیتے اور راتوں کااحیاء فرماتے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی جگاتے۔ (صحیحین)حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے ایک سال آپ اعتکاف نہیں کرسکے تو اگلے سال بیس دن تک اعتکاف فرمایا ۔(جامع ترمذی)حضرت ابی بن کعبؓ نے اس کی مزید وضاحت فرمائی کہ ایک سال رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں آپﷺ کوسفر کرنا پڑ گیا تھا اس وجہ سے اعتکاف نہ ہو سکا اس لئے اگلے سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔(سنن نسائی)نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ کی رضا کے واسطے کرتا ہے تو حق تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑ فرما دیتے ہیں جن کی مسافت آسمان اور زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے۔(طبرانی)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓسے مروی ہے کہ معتکف کے لیے شرعی دستور اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ نہ مریض کی عیادت کو جائے ،نہ نماز جنازہ میں شرکت کے لیے نکلے ،نہ عورت سے صحبت کرے ،نہ بوس و کنار کرے اور اپنی ضرورتوں کے لیے بھی مسجد سے باہر جائے سوائے ان حوائج کے جو بالکل ناگزیر ہیں ،(جیسے پیشاپ ،پاخانہ وغیرہ) اور اعتکاف (روزہ کے ساتھ ہونا چاہیے)بغیر روزہ کے اعتکاف نہیں اور مسجد جامع میں ہونا چاہیے ،اس کے سوا نہیں(مسجد جامع سے مراد جماعت والی مسجد ہے یعنی ایسی مسجد جس میں پانچ وقت کی جماعت پابندی سے ہوتی ہو)۔(سنن ابی داؤد)
اماں جان حضرت عائشہ صدیقیؓ روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے ،وفات تک آپ کا یہ معمول رہا ،آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی تھیں۔(البخاری ومسلم)ازواج مطھرات اپنے حجروں میں اعتکاف فرماتی تھیں ،یہ امر واضح رہے کہ خواتین کے لیے اعتکاف کی جگہ ان کے گھرکی وہی جگہیں ہیں جو نماز کے لیے مخصوص کر رکھی ہیں ۔اگر گھر میں کوئی جگہ متعین نہ ہو تو کسی کونہ کو اس کے لیے مخصوص کردیں۔
اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرے کے اعمال میں سے اہم عمل ہے ،روزوں کی وجہ سے انسان کے باطن میں ملکوتی صفات غالب اور بہیمیت مغلوب ہو جاتی ہے ، روحانی وباطنی صفائی اور پاکیزگی حاصل ہونے کی وجہ سے اعمال صالحہ کی طرف رغبت میں اضافہ ہو جاتا ہے ، تعلق مع اللہ اور ایمانی ترقی کے لیے اعتکاف کی دولت سے نوازا گیا ،اللہ کے بندے سب سے کٹ کر ،سب سے روابط اور تعلقات کو یکسر تر ک کرکے اپنے پروردگار کے در پر اور اس کے گھر میں آکر بیٹھ جائیں ،یکسوئی و دلجمعی کے ساتھ تسبیح و تقدیس،ذکر و عبادت اور توبہ و استغفار میں مشغول ہو جائیں ، اسی حال میں ان کے دن گزرٰ اور ان کی راتیں بیدار ہوں ،اپنے رب کو آہ و زاری اور گریہ و توضع سے منا لیں ،تاکہ اللہ کی رحمتوں ،مغفرتوں اور بخششوں کے مستحق ہو سکیں ۔