رمضان میں مزدور پر رحم کیجیے

’یار وہ روزے نہیں رکھتی تھی ‘ ہماری گفتگو کا رخ میرے کولیگ کے گھر کام کرنے والی ماسی کی طرف مڑ گیا۔’میں نے اس سے پوچھا کیا وجہ ہے تو وہ بولی صاحب آپ لوگ کام بہت کرواتے ہو ، ماشاء اللہ اتنا بڑا گھر ہے۔کام سمیٹتے ہوئے پورا دن لگ جاتا ہے ۔بھوک اور پیاس سے برا حشر ہوجاتا ہے میں آخر روزہ کیسے رکھو ؟میرے لئے بہت مشکل ہے۔میں نے اسے آفر کرائی کہ اگر ہم تمہارے کام کم کر دیں تو پھر رکھو گی ؟وہ بولی ہاں صاحب کوشش ضرور کرونگی۔‘

وہ یہ سب کہہ کر تھوڑی دیر خاموش ہوگئے اور پھر بولے ’ یار یہ غریب عورت اگر میرے گھر کی کام کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ رہی تو قیامت کے دن میں اللہ کو کیا منہ دکھاو ں گا۔اگر میرے گھر کی صفائی میں تھوڑی کمی آجاتی ہے یا میرا پورچ کچھ عر صہ کے لئے نہیں دھل پاتا تو میری شان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن یہ غریب آگر روزہ رکھ لے گی تومیں کم از کم اپنی نظر میں ضرور سر خرو ہو سکتا ہو، باقی میرے عمل کی قبولیت تو اللہ کے مرضی ہے۔خیر میں نے گھر والوں کو پھر ہدایت کردی کہ اس سے کم سے کم کام لیا جائے ،ساتھ کے ساتھ صفائی کی ٹائمنگ صبح کے ٹھنڈے وقت میں کر دی تاکہ کم سے کم گرمی میں اسے کام کرنا پڑے ، اس پر مزید اس کا دل بڑھانے کے لئے اضافی پیسے بھی دئے تاکہ وہ غریب عورت سحری اور افطاری کے انتظام میں اپنا ہاتھ کھول سکے۔اب الحمداللہ وہ روزے رکھ رہی ہے ۔اس کا شوہر بھی مزدور ہے اس کے بارے میں پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ نہیں رکھتا‘۔یہاں میں اپنے کولیگ کی بات کاٹ کر لقمہ دیا کہ ’ سر ہوسکتا ہے کہ جہاں وہ کام کرتا ہو وہاں وہ آسانیاں اور رعایتیں نہ ملتی ہو جو آپ نے اپنی کام والی کو دے رکھی ہیں ‘۔

رمضان اور مزدور طبقہ کے حوالے سے اوپر بیان کی گئی گفتگو یقیناًتوجہ طلب ہے۔جون جولائی کے شدید گرمی کے مہینوں میں روزے رکھنا واقعتا مشکل کام ہے ۔اس مشکل کو تھوڑا سا سہل کرنے کہ لئے اجتماعی اور انفرادی سطح پر سو جتن کئے جاتے ہیں۔اعلی تعلیم کے اکثر ادارے طلبہ اور فیکلٹی (faculty)کو اس مہینے میں چھٹیاں دے دیتے ہیں ۔سرکاری اور نجی اداروں میں آفس ٹائمنگ کم کر دی جاتی ہیں ۔ تاجراور کاروباری حلقے بھی اپنی روٹین سحری اور افطاری کے حساب سے سیٹ کرتے ہیں ۔روزہ کھلنے کے بعد ہی بازاروں میں چہل پہل شروع ہوتی ہے۔لوگوں کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم تھکان والے کام (tiring task) میں اپنا وقت گزاریں تاکہ سولہ سے سترہ گھنٹہ طویل روزے کے لئے اپنی طاقت بچا (energy conserve) کر رکھ سکیں۔باہر دھوپ اور سخت گرمی میں نکلنے کی بجائے ان ڈور(indoor ) رہنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔افطاری کے دوران ایسے مشروبات کا بھرپور انتظام کیا جاتا ہے جو دن بھر کی پانی کی کمی (dehydration) کو دور کریں۔پھر سحری تک (rehydration) کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔اگر یہ سب جتن اور ایڈجسٹمنٹس (adjustments) نہ کی جائیں تو اتنے سخت روزے رکھنا شدید محال ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب جب ہم مزرور طبقہ یاچھوٹی موٹی ملازمتیں (odd jobs) کرنے والوں کا حالات دیکھتے ہیں تو وائٹ کالر (white collar) ملازمتوں سے وابستہ افراد یا مڈل کلاس سے یہ بہت مختلف نظر آتے ہیں۔صرف رمضان کے حوالے سے ہی بات کی جائے تو مڈل کلاس کو ملنے والی نرمی(relaxation) کا عشر عشیر بھی اس طبقہ کو میسر نہیں ہو پاتا ہے۔ کام کرنے کے اوقات میں کمی تو دور کی بات ان لوگوں کو پیٹ بھر کر روٹی اور پینے کو صا ف پانی بھی مشکل سے ہی میسر آتا ہے۔جو پیشے ان غریبوں سے منسوب ہوتے ہیں ، ان میں ان ڈور (indoor) ،آوٹ ڈور (outdoor) اور دھوپ سائے کی کوئی تمیز نہیں ہوتی ہے ۔ٹھنڈے ٹھار اے سی کمروں میں بیٹھنے کی بجائے اکثر انھیں چلچلاتی دھوپ اور سخت موسمی حالات میں کام کرنا ہوتا ہے۔دوسری ملازمتوں کے مقابلہ میں ان کے کام بھی زیا دہ مشقت طلب ہوتے ہیں ۔ غرض ہم آفس ورک کرنے والے کے لئے اینٹوں کے بھٹے یا فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور کی جان توڑ محنت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم اس طبقہ کو رمضان کے حوالے سے اکثر و بیشترکسی رعایت کا مستحق نہیں سمجھتے حالانکہ اس مہینہ کی برکتوں اور عبادتوں سے فائدہ اٹھانے کا جتنا حق ہمیں ہے اتنا ہی ہمارے اس غریب طبقہ کے مسلمان بھائیوں کو بھی حاصل ہونا چاہیے ۔بچپن سے ہی یہ حکمت ہمیں ازبر کرائی جاتی ہے کہ بھوک ، پیاس اور صبر کی کیفیت سے گزروانے کا مقصد اللہ کی رضا کے علاوہ غرباء کے زندگی کا (real time experience) بھی عام مسلمانوں کو دلوانا ہے تاکہ یہ احسا س انھیں اس طبقہ کی خیر سگالی پر گامزن رکھ سکے۔اس کے باوجود عملی حقیقت (ground reality)یہی ہے کہ احساس کا اس (dimension)کی طرف ہماری توجہ کم ہی جاتی ہے۔

ان پہلووں (aspects)پر روشنی ڈالنے کا مقصد صرف یہ شعور اجاگر کرنا ہے کہ رمضان معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے لئے کچھ کرنے کا مقصد بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔گھر میں کام کرنے والی ماسی ، ڈرائیور ،مالی ، مزدور یا اس طرح کے دوسرے لوگ بھی رمضان اور زندگی پر اتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا کہ باقی لوگ ۔ اللہ کے یہ بندے بھی نرمی اور رعایت کے اتنے ہی مستحق ہیں، جتناکہ میں اور آپ ۔فرق صرف یہ ہے کہ سٹیٹس کی وجہ سے ہمیں ریلیکسیشنز (relaxations) خود بخود مل جاتی ہیں اور یہ بیچارے غریب ہمارے محتاج رہتے ہیں۔

ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی ان سے اتنی کم از کم مشقت لیں جو ان کے روزے کو سہل بنا سکے تاکہ وہ بھی اس با برکت ماہ میں محروم رہنے کی بجائے ہماری طرح عبادتوں میں توانائی لگا سکیں ۔سال کے گیارہ ماہ میں اگر ہم اپنے لئے لوگوں سے دبا کر کام لے سکتے ہیں تو ایک ماہ کے لئے انھیں اللہ کے واسطے چھوٹ دینا کسی بھی طرح گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔اس سلسلے میں ایک حدیث ضرور یاد رکھنی چاہیے جس میں حضور ﷺ نے روزے میں غلام پر نرمی کرنے پر اس کے مالک کی بہت تحسین فرمائی ہے۔

آج غلامی شاید نام کی حد تک تو ختم ہوچکی لیکن کلاس سسٹم زیا دہ بھیانک انداز میں موجود ہے جس میں لوئر کلاس شاید غلاموں سے بھی بدتر حالات میں گزر ا کر رہی ہے اور ہماری ہمدردی اور مالی امداد کی کہیں زیا دہ مستحق ہے۔جس د ین کے ہم علم بردار ہیں وہ چند عبادتوں اور حلال وحرام کی تمیز کا ہی نہیں بلکہ معاشرتی نا ہمواریوں کاادراک اور تداراک کا فلسفہ بھی اپنے اندر رکھتا ہے ،اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم کس حد تک اس کی تعلیمات کو سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس رمضان کے آخری عشرے میں نیکیاں کرنے اور دوسروں کو اس کا مو قع دینے کی تو فیق عطا فرمائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے