شناخت کی سیاست اور ہمارا نقطہ نظر،حصہ دوم

پچھلے دنوں سندھ میں جاری دلت تحریک کے حوالے سے ایک مضمون بعنوان "شناخت کی سیاست اور ہمارا نقطہ نظر” لکھا۔ جس میں بنیادی طور پر شنا خت کی سیا ست کی نظری بنیادوں کو پرکھنے کی کوشش کی گئی اور اس با ت کا جائزہ لینے کی سعی کی کہ شناخت کی سیاست کس طرح طبقاتی سیاست کے آگے بڑھنے میں حائل ہوتی ہے۔مضمون کے شائع ہو نے کے بعد مختلف لوگوں نے اس بابت اپنی آراء بذریعہ فون کال دی۔ کچھ دوستوں نے دوران گفتگو بہت سے اہم پہلوؤں کی نشاندہی کی ۔ ان کے خیال میں ان پہلوؤں کی وضاحت کے لئے ایک مزید تفصیلی تحریر کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے طبقاتی نقطہ نظر کی مزید وضاحت بھی ہو سکے اور دلت سجاگ تحریک کی مخالفت کرنے والے دوسرے سماجی گروہوں کے نقطہ نظر سے ہمارا فرق بھی واضح ہو جائے۔

جن پہلووں کی نشاندہی کی گئی وہ مندرجہ ذیل ہیں

۔.1.وادی سندھ کے تاریخی تناظر میں دارواڑ ذاتو ں کی سماجی حشیت کا تعین
۔ 2.دلت شناخت کو لیکر مختلف سماجی پرتوں کے نقطہ نظر اور ان کاسیاسی،سماجی اور معاشی تناظر؟
۔3.مظلوم ذاتوں کا معاشی وسماجی استحصال اور ان کی مزاحمتی تحریک کی تاریخ،اہمیت اور طریقہ کار؟

وادی سندھ کے تاریخی تناظر میں دارواڑ ذاتو ں کی سماجی حشیت کا تعین ؟

اگر وادی سندھ کے تاریخی تناظر میں دارواڑ ذاتوں کی سماجی حثیت اور شناخت کا تعین کر نے کی کوشش کی جائے تو وادی سندھ کے جغرافیائی حدود اربعہ کو سمجھنا ہو گا۔ کیا وادی سندھ کراچی سے گھوٹکی تک موجود انتظامی اکائی کا نام ہے؟سندھی قوم پرستوں کے ساتھ معازرت کے ساتھ وادی سندھ نام ہے قراقرم سے بحیرہ عرب اور ستلج سے کوہ ہندوکش تک پھیلے ایک قطعہ زمین کا جس کی اپنی تاریخ،اپنا کلچر، ایک سی آبادی بلاچھوت چھات سماجی نظام صدیوں سے دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاوں کی سر زمین کے طور پر اپنی آب و تاب کے ساتھ ہزاروں سالوں کا تاریخی بوجھ اور خزانے اپنے سینے میں سمیٹے ہوئی ہے۔درمیانہ قد، چپیٹی ہوئی ناک اور سانولہ رنگ کی یہ نسل اس قدیم تہذیب کے بانیوں میں سے ہے۔ مختلف آرکیالوجی کے ماہرین کی یہ مسلمہ رائے ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب ہی سے قدیم ترین انسانی ڈھانچوں کے شواہد ملے ہیں۔اس تہذیب نے دریائے سوآن کے کنارے جنم لیا اور ہڑپہ ،موئنحجوڈاڑو میں آکر جوان ہوئی۔

اس کے بعد اس تہذیب کی قدیم ترین بستیاں مختلف علاقوں میں پھیلتی گئی۔آریاوں کی آمد سے پہلے یہ تہذیب اپنے پورے جوبن پر تھی اور اس تہذیب میں ابتدائی سوشلزم کی تمام شکلیں اور پیداواری رشتے مروج تھے۔ یہ ایک پرامن تہذیب تھی کیونکہ جہاں معبد ملتے ہیں قلعے نہیں،یہاں زیورات ملتے ہیں ہتھیار نہیں،پکے مکان وافر تعداد میں مہمان خانے فراہمی نکاسی وآب کا اعلی انتظام اور دجلہ و فرات اور نیل کی تہذیبوں سے تعلقات کے شواہد اس تہذیب کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔آریہ سماج وادی ہندومت میں موجود ذات پات، انسانی تقسیم یا غلامی کے شواہد نہیں ملے۔ ا گر اس قسم کی کو ئی تقسیم اس سماج میں ہو تی تو یقیناًطبقاتی کشمکش بھی ہوتی اور بڑی تعداد میں قلعے اور ہتھیار بھی دریافت ہوتے۔ کامریڈ عبدالرشید ڈھولکہ لکھتے ہیں کہ ” جنگی کلچر سے نابلد اس تہذیب کے پروان چڑھنے میں ہزاروں سال لگے ہونگے اور اس عرصہ میں اس کی حفاظت کی ذمہ داری اس کے جغرافیہ یعنی اس کے گردا گرد موجود پہاڑی، صحرائی سلسلوں اور سمندروں نے نبھائی ہو گی۔ یہ ایک سول سوسائٹی کی تہذیب تھی۔

شاہی محلات اور درباروں کا وجود نہیں تھا۔ انسانی اور حیوانی زندگی ان لوگوں کی نظر میں بڑی مقدس شہ تھی۔ یہ لوگ گوشت خور نہیں تھے۔ جس معاشرہ میں اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے پالتو یا جنگلی جانوروں کی جان لینا حرام ہو وہاں انسانوں کے مابین جنگ و جدال اور قتل و غارت کا تصور نہیں کیاجاسکتا۔ ایسی سماجی قدروں کی موجودگی میں ریا ستی حکمرانی، انتظام و انصرام اور جبر کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ریاستی جبر کی عدم موجودگی میں یہ ایک اشتراکی سماج تھا۔ نظم و نسق اور سماجی پھیلاؤ کے کاموں کی ذمہ داری پنچائتوں اور جرگوں پر تھی۔ یہ پنچائتیں اور جرگے اس خطہ میں آج کے طبقاتی سماج میں بھی حکمران طبقہ کے مخصوص مفادات کی حفاظت کیلئے استعمال ہورہے ہیں اور مشکل حالات میں ریاستیں بھی ان کا سہارا لینے پر مجبور ہوتی ہیں۔
گردونواح کے وحشی اور جنگجو گروہ جب اس تہذیب کی محافظ جغرافیائی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے قابل ہوئے تو یہ تہذیب انہیں سمجھنے سے عاری اور مقابلہ کرنے میں بے بس نکلی، کیونکہ اشتراک و معاونت کے ماحول کی پیداوار مقابلہ و مسابقت کے ماحول کا سامنا شعوری برتری کے بغیر نہیں کر سکتی۔ ان حملہ آوروں کے ہاتھوں یہ تہذیب برباد ہوئی۔ آریا آئے اور انہوں نے اپنا طبقاتی سماجی و معاشی نظام نافذ کیا۔ یہ سلسلہ تاریخ کے مدوجرر سے گزرتا ہوا رواں دواں رہا۔ ایک طرف امن و آتشی کی یہ دھرتی جنگ ناموں کا موضوع بن گئی۔ دوسری طرف اس سماج نے ہزاروں سالوں تک لوٹ مار اور زبردستی کا شکار رہنے کے باوجود ٹوٹی ہوئی شکل میں اپنی اشتراکی سماجی قدروں اور نفسیات کو قائم رکھا۔ اس کی طاقتور باقیات آج بھی ہمارے سماج میں موجود ہیں۔ جن کا قلع قمع کرنے کیلئے سامراجی طاقتیں اور ان کے کا سہ لیس حکمران طبقہ عوام کے خلاف ہمہ جہت جدوجہد میں مصروف ہے۔ یہاں کے عوام کو نہ معاہدہ عمرانی کا قائل کیا جاسکا ہے اور نہ ہی ریاست کے تقدس کا۔”

آریاوں کی آمد کے بعد انہوں نے اپنی نسلی برتری قائم کر نے کے لئیے ہندومت کی بنیادیں یہیں پر ر کھی اور یہاں کے قدیم باشندوں کو اپنا ذہنی غلام بنانے کے لےئے ذات پات کا سماجی نظام تشکیل دیا اور چھودر ذاتوں کے خانے میں یہاں کے قدیم باشندوں کو رکھا۔آریہ سماج وادی ذات پات کی مخالفت اس خطہ کے لوگوں نے ہمیشہ کی اور ہندومت کے مقابلے میں کبھی جین مت، کبھی بدھ مت( بدھ مت کی روشنی بھی یہیں سے پھٹی اور ایران،توران، چین اور جاپان تک گئی)، کبھی تصوف اور کبھی سکھ مت کی شکل میں ہمیشہ اس ذات پات کے نظام کی مزاحمت کی اور عدل وانصاف،سماجی مساوات کے لیے اٹھنے والی ہر لہر کا اس خطہ کے لوگوں نے ساتھ دیا۔اسحاق محمد اپنے ڈرامہ مُصلی کے پیش لفظ میں یوں رقمطراز ہیں” باہمن دی دُپر یارے دی رِیس نال تے اَساڈی ایس دھرتی دے باسیاں دا مڈھ قدیم توں واہ پیا اے تے ایہدے نال ڈھڈوں نفرت رہی اے”۔ ابٹ سن نے انیسویں صدی کے آخر میں اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوے 1883 کی مردم شماری رپورٹ میں کہا کہ”پنجاب میں بدھ مت اور سکھ مت کے اضافحے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ باہمن نے انسانوں کے کندھوں پر ذات پات کا اس قدر بھاری پتھر رکھ دیا ہے کہ جسے اٹھانا ناممکن تھا”۔اس ذات پات نے سماج میں کتنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں اس بات کا اندازہ اسحاق محمد کے ڈرامہ مُصلی کے دیباچہ کو پڑھنے کے بعد ہوتا ہے۔ اسحاق محمد رقمطراز ہیں کہ ” 1937-1939کے دوسال میں نے ڈی۔اے۔وی کالج میں پڑھنے کی غرض سے جالندھر میں گزارے۔ مجھے وہاں رہنے کی لیے ایک ذاتی کمرہ ملا ہوا تھا۔ گرمیوں کے موسم کے دوران میں کالج سے واپس آکر درختوں کی گہری چھاوں میں اپنی دوپہر گزارہ کرتاتھا۔ میرا ایک ہم جماعت چماروں کا لڑکا بھی تھاجس کا گھر میری رہائش گاہ کے راستے میں پٹرھتا تھا۔ ایک دن ہم دونوں سائیکلوں پر کالج سے اکٹھے ہی آئے اس روز دھوپ بھی شدید تھی۔ میری دعوت پر اس روز وہ دوپہر گزارنے کی غرض سے میرے ساتھ درختوں کی گہری چھاوں میں رک گیا۔جب وہ شام کو جانے لگا تو میں نے یونہی اسے کہا دیا یار جاتے ہوئے ایک گلاس پانی کا ڈال کر دینا، اس دوران میں خودایک مزیدار کتاب پڑھنے میں مگن تھا۔ پڑھتے پڑھتے مجھے محسوس ہو ا کہ جیسے کوئی نئی بات ہو رہی ہو۔کیا دیکھتا ہو ں کہ میرے ہم جماعتی نے ہجیر کے پتے لے کر ایک پتہ گلاس کے ارد گرد لیپیٹااور دوسرا پتہ گھڑے کے اوپر رکھ کر پا نی گلاس میں ڈالا۔ میں یہ سب دیکھ کر حیران بھی ہوا اور غصے بھی، کہ ایک کالج کا لڑکاکس طرح باہمن کی ذات پات کا مارا ہوا میرے سامنے کھڑا ہے”۔ اس لئیے اس حقیت سے تو انکار ہی ممکن نہیں کہ برہمن نے ذات پات کا جو فلسفہ دیا اس کی مختلف شکلیں بدستور ہمارے معاشرے میں جاری و ساری ہیں اور ان کا شکار صرف ہندومت کی نچلی ذاتیں کو ہلی ، بھیل ،میگواڑ ہی نہیں بلکہ یہیں سماجی تعصب ہمیں وادی سندھ کے دوسرے علاقوں پنجاب ، خیبر پختونخواہ میں موجود ان ڈارواڑ نسلوں اور ذاتوں سے بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس حیقیت کے باوجود کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں ان ڈارواڑ نسلوں اور ذاتوں نے اپنے مذہب بھی تبدیل کر لیے ہیں لیکن یہ تعصب ہمیں پنجاب کے اندر مُصیلوں، چماورں اور خیبر پختخواہ کے اندر گوجروں کے ساتھ دیکھنے کو ملتاہے۔ ان برادریوں کی اس ذات پات کے خلاف ایک طویل جہدوجہدبھی دیکھنے کو ملتی ہے۔

[pullquote]دلت شناخت کو لیکر مختلف سماجی پرتوں کے نقطہ نظر اور ان کاسیاسی،سماجی اور معاشی تناظر؟[/pullquote]

ہمارے ہاں یہ عام مروجہ اصول ہے کہ ہم کسی بھی مسئلے پر حمایت اور مخالفت میں پیش کیے گیے نقطہ ہائے نظر کو ان کی بظاہر نظر آنی والی اُوپری مماثلت کی بنا پر ایک پلڑے میں رکھ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈرون حملوں کی مخالفت ایک سچا محب وطن کیمونسٹ بھی کرتا ہے اور حافظ سعید احمد بھی، لیکن دونوں کو ایکدوسرے کے ساتھ صرف اس لیے نتھی کر دیا جائے کہ دونوں ڈرون حملوں کے مخالف ہیں درست نہیں ہو گا۔ایسی ہی صورتحال دلت شناخت کے حوالے سے شائع ہو نے والے میر ے کالم کے بعد پیش آئی، جس وجہ سے مجھے یہ وضاحتی تحریر لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ دلت شناخت کو لیکر سندھ میں ابھرنے والی مخالفت اور دلت تحریک پر ہونیوالی تنقید میں شامل سماجی گروہوں کے نقطہ نظر کو سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ دلت شناخت کو لیکر ہماری تنقید اور خود تنقیدی کی وضاحت ہو سکے۔

اگر ہم دلت شناخت کو لیکر تنقید کر نے والوں کے سیاسی وسماجی پس منظر کو سامنے رکھیں تو اس حوالے سے آنیوالی تنقید کو تین خانو ں میں تقیسم کیا جا سکتا ہے۔

۔ 1.سندھی قوم پرستوں کی مخالفت

۔2.اُوپری ذاتی کی ہندووں برادری کی مخالفت

۔ 3.طبقاتی نقطہ نظر کیساتھ آنیوالی تنقید

دلت شناخت پر تنقید کر نے والا ایک گروہ وہ ہے کہ جس کے اوپر سندھی قوم پرستی کا غلبہ چھایا ہو ا ہے۔ سندھی قوم پرست حلقے دلت شناخت کے نام پر ہونیوالی سرگرمی کو سندھی قوم کو تقیسم کر نے کے مترادف اور اسے ایک سازش کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ بقول ایک معروف سندھی قوم پرست دانشوار رجب میمن کے کہ”دلت شناخت کو ابھارنے کے پچھے بھارتی ہاتھ ہے جس کا مقصد مہاجر صوبہ بنانا ہے” موصوف بہت دور کی کوڑی لے کر آئے ہیں۔ یہ وہی انداز فکر اور الزام تراشی ہے جو اب تک افسر شاہی اور پاکستانی حکمران طبقے کی طرف سے سندھی قوم پرستوں کے اوپر لگتا آیا ہے۔

دلت شناخت کی مخالفت کرنے والا دوسرا گروہ وہ ہے جو ہندو برادری اور اقلیتوں کے لیے مخصوص صوبائی اور وفاقی کوٹوں سے مستفید ہو تا ہوا آرہا ہے۔ انہیں یہ ڈر ہے کہ دلت شناخت کے تسلیم ہو جانے سے کہیں نچلی ذاتوں کے لیے علیحدہ سے کو ٹہ منظور نہ ہو جائے۔ اس تناظر میں ہندو برادری کی اُوپری ذاتیاں دلت شناخت کی مخالفت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اگر دوسری طرف دلتُ سجاگ تحریک کی سرگرمیوں اور چارٹر کو دیکھیں تو اس میں یہ مطالبہ بالکل واضح ہے کہ دلت یعنی نچلی ذاتوں کے لیے ملازمتوں میں علیحدہ سے کوٹہ مقرر کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

دلت شناخت پر تنقید کرنے والا تیسرا گروہ مشتمل ہے طبقاتی سوچ اور فلسفہ پر یقین رکھنے والوں کا۔ ہمارے نزدیک دلت شناخت مزدور باالخصوص ہاری وکھیت مزدور طبقے کی پیشہ وارنہ شناخت کو نسلی شناخت کے نا م پر تقسیم کرنے کی کوشش۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محنت کش طبقے کی وسیع تر جہدوجہد اور مزاحمت کو ٹکڑیوں میں باٹننا کسی بھی طرح محنت کش طبقے کے لیےُ سود مند نہیں ہو سکتا ہے۔

[pullquote]مظلوم ذاتوں کا معاشی وسماجی استحصال اور ان کی مزاحمتی تحریک کی تاریخ،اہمیت اور طریقہ کار؟[/pullquote]

یہ بات تو روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں نہ صرف مظلوم ذاتوں کا وجود ہے جن کو معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ سماجی تعصبات کا بھی کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ بعض جگہوں پر سماجی تعصبات کی یہ شکلیں اس قدر شدید ہیں کہ معاشی آسودگی بھی اس میں کسی طرح کی کمی نہیں لا سکی۔لیکن دوسری طرف یہ حقیقت بھی ہمارے سامنےُ مونہہ چڑہائے کھڑی ہے کہ دلت شناخت کو لیکر جن لوگوں نے ہمارے ہمسایہ ملک میں سیاست کی ہے اور دلت شناخت کے بل بوتے پر منتخب ہو کر اعلی ایوانوں تک پنچے ہیں اس سے بھی مسلہ حل ہونے کی بجائے یوں کا توں بدستور ویسے ہی موجود ہے۔مایا وتی دلت شناخت کی بنیادپر وزیر اعلی تو بن گئی کیا اس سے دلت واسیوں کے مسائل ہوگئے؟یقننا اس کا جواب آپ کو نفی میں ملے گا۔ کیا نچلی ذات سے کسی کا اعلی حکومتی رکن منتخب ہو جانا یا نچلی ذاتو ں کے لیے کوٹہ مقرر ہو جانامسلے کا حل ہے۔؟اس طرح کے اصلاح پسند حل مسلئے کی معاشی بنیادوں کو قائم رکھتے ہو ئے اسے حل کر نے کی کوششیں ہیں۔ اس طرح کے اصلاح پسند اقدامات کتےُ کو کنواں سے نکالے بغیر پانی کے لوٹے نکالنے کے مترداف ہے۔

Subaltern School of Thoughtsاس کے برعکس پوسٹ ماڈرن ازم کے علمبردار اور کے دانشور، مارکسی لیننی پارٹیوں کے سخت گیر ڈھانچوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ ان پارٹیوں کے اداروں میں مڈل اور اپر مڈل کلاس کی پرتیں پرولتاریہ کے نام پر براجمان ہو جاتی ہیں اور محنت کش طبقے کی نچلی پرتوں کی رسائی شاذوناذر ہی پاتی ہے۔ ان کی تنقید بائیں بازو کی پارٹیوں کے اندر نچلی پرتوں کی کمی کے حوالے سے ایک سنجیدہ تنقید ہے،جس پر مارکسی لیننی پارٹیوں کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔انقلابی پارٹی میں طبقاتی توازن کبھی بھی غیر انقلابی طبقات کے حق میں نہیں ہو نا چاہیے۔ انقلابی عمل میں یہاں شعور کی بہت اہمیت ہے وہیں پر دکھ اورُ بکھ کا عملی احساس ہو نا بھی بہت ضروری ہے۔یہی دونوں چیزیں وہ بنیادی مواد فراہم کرتی ہیں، جسکا انقلابی عمل متقاضی ہوتا ہے۔ جو طبقات اور ذاتیں اس دکھ اورُ بُکھ کے قرب سے پچھلے چار ہزار سال سے گزر رہی ہوں،ان کی انقلابی شکتیَ سے کسی کو کیونکر انحراف ہو سکتا ہے بشرطیکہ اگر یہ طبقات انقلابی نظریہ سے لیس ہوں۔
طبقاتی استحصال کا شکار مختلف طبقوں میں دارواڑ ذاتیں طبقاتی استحصال کی سیڑھی کی سب سے نچلی پیڑھیاں ہیں جن کے کندھوں پر سب کا بوجھ ہے۔طبقاتی استحصال کی اس سیڑھی کوُ الٹا کرنے کی جتنی خواہش ان کے اندر موجود ہے، شائد ہی کسی اور طبقاتی پرت میں موجود ہو۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان طبقاتی پرتوں کو منظم اور متحد کیاجائے اور ان کی تنظیموں کے اندر قیادتی رول انہیں خود ہی ادا کرنے دیا جائے۔یہ انقلابی عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ یہ طبقاتی پرتیں اپنی نسلی ذاتوں کی شناخت سے باہر آ کر دوسرے پیشہ وارانہ انقلابی گروہوں کے ساتھ اتحاد ومعاونت کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے انقلابی نظریہ اور سوچ کو پروان چڑھاہیں۔

پنجاب کے اندر دارواڑ نسلوں اور ذاتوں کو منظم کرنے کی تحریک بہت پرانی ہے جس کی جڑیں برصغیر کی تقسیم سے پہلے بھی اس خطہ میں موجود رہی ہیں۔پنجاب کے اندر مسلم شیخ یا مُصیلوں کی پہلی تنظیم 18ٖفروری 1946 میں کسمپر ریلوے اسٹیشن تحصیل وہاڑی میں رکھی گی۔اس تنظیم کا پہلا نام انجمن مُسلم شیخاں رکھا گیا۔اس تنظیم نے ۱۹۵۱ کے الیکشنوں میں پنجاب کے اندر اپنے ۵۲ نمائندے بھی کھڑے کیے اور پہلی دفعہ ایسے بڑے بڑے جاگیرداروں کو چیلنج کیا جن کے خلاف علاقے کے دوسرے ملکیت یافتہ طبقات بھی کاغذات نامزدگی داخل کروانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

ملک آغا خاں سہوترا کے بقول کہ”ہم نے ۹۱۵۱ کے الیکشن میں سارے پنجاب میں اپنے نمائندے کھڑے کیے ہماری کامیابی یہی تھی کہ ہمارے کسی نمائندے کی ضمانت ضبط نہیں ہوئی”۔1970 کی دہائی کے انقلابی بخار نے بہت سی انقلابی پر توں کو متحرک کیااور اسی دوران 23 جنوری 1972میں انجمن مسلم شیخاں نے بھی اپنا نام تبدیل کر کے پاکستان دیہاتی مزدور تنظیم رکھ لیا۔ملک آغا خاں سہوترا تنظیم کے دستور میں نام بدلنے کی کہانی یوں بیان کرتے ہیں۔۱۹۷۰ کے دوران ہم نے دیکھ لیا کہ دکھیاروں کی اس بیڑی میں ہمارے (مسلم شیخوں ) کے علاوہ دوسرے لوگ بھی سوشلزم کے حمایتی ہیں۔۱۹۵۱ کے الیکشن کے دوران ہمیں یہ بھی احساس ہوا کہ ہمارے پاس اکثریتی ووٹ نہیں ہیں، لیکن اگر محنت کشوں کی دوسری پرتوں کے ساتھ سنگت بنا لی جائے تو ہم گنتی میں بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے یہ بھی سوچا کہ ہم پچھلے چار ہزار سال سے بے ذاتے رہ رہے ہیں اب سماج کی لوٹ کھسوٹ نے جب ذاتوں والے لوگوں کو بھی مجبور کر دیاہے کہ وہ ہماری طرح کھیت مزدور اور مل مزدور بن کے کام کر رہے ہیں۔ اب ان کو اپنے ساتھ شامل نہ کرنا اپنے آپ کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔اسی فلسفہ کو اسحاق محمد اپنے پنجابی ڈرامہ مُصلی میں یوں لکھتے ہیں” مُصلی دی آزادی لئی باہمن دی نفی ضروری اے۔پر جے ایتھے ای رک جاویں تے مُصلی باہمن بن جاندا اے ۔۔۔۔ مُصلی دی نفی کریں گا،بے ذاتا بنیں گا،تدوں ای ذات پات دی پھاہی گلوں لتھے گی۔۔۔۔۔ ”

” جے تسیں اپنی تقدیر بدلنی چاہندے اوتے تہانوں چوہڑے نوں بھرا آکھنا تے مننا پوسی۔ جے تُسیں اوہدے لئی باہمن بنے رہے تے باہمن واسطے تہانوں مُصلی بنا کے رکھن دا بہانہ پیدا ہو جاندا اے۔۔۔ جد تاہیں تسیں ایس پوڑی نوں اُ لٹدے نہیں۔ اُپرلے ڈنڈے تھلے نیں لاہندے تے تھلویں ڈنڈیاں نوں اُپر نہیں چاندے تہاڈی نجات نہیں ہو سکدی۔۔ ”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے