تم سے نہیں ہوگا ۔۔۔۔

پرانا منجن ، گاہک نئے اور پرانے ، لیکن پھر بھی بیچنے کو بے قرار ، کچھ ایسی ضد ہمارے ٹی وی چینلز پکڑے بیٹھے ہیں ۔ناظرین کو عید نشریات میں وہی دکھاتے آرہے ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے دیکھ دیکھ کر کئی کو حفظ بھی ہوگیا ہے ۔ بیشتر ناظرین کے ذہنوں میں گوند کی طرح یہ بات بھی چپک گئی ہے کہ علی ظفر عید کس طرح مناتے ہیں تو میرا کو پہلی عیدی کتنے کی ملی تھی ۔ یہ بھی جان چکے ہیں کہ نبیل عید کے دن سو کر گزارتے ہیں یا پھر یار دوستوں سے مل کر ، اب اس راز پر سے بھی پردہ اٹھ گیا ہے کہ ٹی وی اینکرز کی عید دفتر میں کام کام بس کام کرتے ہی کیسے ڈھل جاتی ہے ۔، انجان تو اس بات سے بھی نہیں رہے کہ وہ سیاست دان جو ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کرتے ہیں عید کے دن نئے نئے اجلے اجلے کلف زدہ کپڑے پہن کر کیسے ایک دوسرے سے خوش گپیاں کرتے ہیں۔ یہ بات بھی انہیں گھٹی کی طرح پلا دی گئی ہے کہ مہر بخاری اچھی سوئیاں بناتی ہیں یا پھر عاصمہ شیرازی کھانے ۔ ۔

سب چھوڑیں وہ عید پر بھونڈے اور یکسانیت کا شکار گیم شوز کی ’شفافیت‘ پر بھی زیر لب مسکرائے بغیر نہیں رہتے ’ ۔ پورے رمضان، مبارک اور مقدس مہینے کی فضلیت بیان کرکے ، گلیسرین کے بغیر آنسوؤں کی رم جھم برسا کر اور ’ ٹریجنڈی کوئن کا روپ دھا کر میزبان ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ یہ ایسی چونکا دینے والی ’ جادوگری ‘ ہوتی ہے کہ بیشتر ناظرین اس خمار میں ہوتے ہیں کہ متعلقہ فرد کی زندگی نے واقعی کروٹ لے لی ہے ۔ یہی ’ طلسماتی شخصیات ‘ چولا اتار، تازہ دم ہو کر عید پر ناصرف خود ٹھمکے لگاتے ہیں کہ بلکہ مہمانوں کو بھی اس ’ کار خیر ‘ میں شامل کرکے ’ قومی فریضہ‘ سمجھ کر اسے انجام دیتے ہیں۔ ویسے ہیں کچھ ایسے بھی جو اس فن میں وہ ’لیاقت ‘ رکھتے ہیں جس کا اظہاردوران رمضان کرنے میں ذرا سا بھی نہیں ہچکچاتے ۔

اب ان سب کو ’ بازی گر‘ کہیں یا پھر ہر فن مولا ، اس سوال کو پکڑ کر ذہن بس ہچکولے ہی کھاتا رہتا ہے ۔ جس طرح میزبانوں کو ماہ صیام میں بھولے بسرے نعت خواہوں ، قاری حضرات کا خیال آتا ہے اسی طرح کچھ’ معصوم فن کار ‘ ایسے بھی ہیں جو ان عید شوز کی پہچان بن گئے ہیں۔ شاہدہ منی ، عارف لوہار ، شوکت علی جیسے عید کی سوغات والے فنکار پوری توانائی اور پورا زور اسی خیال سے لگاتے ہیں کہ ’’ بھول نہ جانا پھربابا ‘‘ ۔۔۔ دیکھا جائے تو آئیڈیاز کے کارخانوں ‘ کی مشنیری کو جیسے زنگ لگ رہا ہے ۔ ہر پرزہ چیخ چیخ کر دہائی دے رہا ہے ۔ مگرتخلیق کے آخری ’ پائیدان ‘ کو چھونے کا دعویٰ سینہ ٹھونک کر کیا جاتا ہے ۔

کم و بیش کوئی ستر کے قریب چینلز ہیں جہاں ’ ذہین ‘ باصلاحیت اور غیر معمولی خصوصیت والے سینکڑوں افراد ہیں ، مگر یہ بے چارے بھی اُس وقت چکرا کر رہ جاتے ہیں جب عید آجاتی ہے ۔ اور ایسے میں ’ پرانے آئیڈیاز ‘ جھاڑ پھونک کر صاف کیے جاتے ہیں۔ تھوڑی سی اسکرپٹ میں ’ قلعی ‘ کی پٹی لگا کر’ گل قند‘ لگی طشتری میں ناظرین کے سامنے رکھ دیے جاتے ہیں۔ جیسا بھی ہے بس کھانا ہے ، کیونکہ ’ اسپانسر خریدار ‘ پیسے تو پہلے ہی چکا گیا ہے ۔کوئی بھی تو ایسا نہیں رہا جوسرپٹ بھاگتے ان شہ سواروں کو یہ سمجھائے کہ عید ٹرین ‘ یا پھر ’ ہاف پلیٹ ‘ جیسا ہی تھوڑا بہت کام کرلیں۔ ۔ اور کریں بھی کیسے ، کیونکہ وقت کم مقابلہ سخت جو ہے ۔ اور ایسے میں جوہو رہا ہے وہ اللہ اللہ خیرصلا ۔۔لیکن اس دوڑ میں ’ تخلیقی کام ‘ پیچھے بلکہ بہت دور جا کر خفا خفا سا کھڑا ہے ۔ جو صرف یہ دریافت کررہا ہے ’’ بیٹا کب بڑے ہوں گے ؟؟‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے