سات سمندرپار سے ،ایدھی کےمخالفوں کےنام

عزیز دوستو ؛ میں نے کبھی بھی آپ ذی شعور دوستوں پہ اپنی رائے ٹھونسنا نہیں چاہی ، لیکن آپ دوستوں کو غلط راستوں پہ بگٹٹ بھاگتے دیکھنا بھی مجھے پسند نہیں !

بہت سے دوست مجھے کومنٹس میں اور انباکس بھی مفتی زر ولی صاحب کے ارشادات عالیہ پہ مشتمل لنک بھیجتے رہے ( حالانکہ مفتی زر ولی صاحب کی زبان مبارک سے میرے اور آپ کے بڑے بڑے اکابرین بھی نہیں بچے ) اور کچھ مسلسل ہٹ دھرمی اور بدتمیزی کی وجہ سے انفرینڈ اور بلاک بھی ہوئے؛
،

میرا ظن غالب اپنے اکثر دوستوں کے لئے یہ ہے ، کہ وہ علمی میدان میں مجھ سے بہت آگے اور راسخون فی العلم ہیں ، میرے پاس یقیناً اس کا عشر عشیر بھی نہیں، لیکن علم کے ساتھ ساتھ معاشرت اور سماجیات کا فھم وادراک بھی ازحد ضروری ہے

علم صرف کتب میں لکھے ہوئے حروف کا ہی نام نہیں ! بلکہ اپنے معاشرے اپنے سماج اپنے اردگرد کے ماحول پہ گہری نظر رکھنے ، معلومات کشید کرنے ، اور اس میں سے سچ اور جھوٹ کو علیحدہ کرکے اسے پہچاننے کابھی نام ہے ،
آج کے دور میں سوشل یا الیکٹرانک میڈیا پہ وائرل ہونے والی ایک جھوٹی خبر بڑے بڑے افلاطونوں کو چاروں شانے چِت گرادیتی ہے ، اور اس کی تردید 00.0001% لوگوں کی توجہ بھی حاصل نہیں کرپاتی، یہی وجہ ہے ، کہ ایک شخص صبح ولی اللہ ہوتا ہے اور شام کو میڈیا کی مہربانی سے پوری دنیا اس کے شیطان ہونے پہ ایمان لائے بیٹھی ہوتی ہے،

پاکستان میں معصوموں اور بیگناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کو تو آپ اپنا ہیرو سمجھتے ہیں ، داعش اور آئی ایس آئی ایس کے مُسلمہ دھشت گرد جو شب و روز اسلام کو عملی طور پہ ایک دھشت گرد مذہب ثابت کرنے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں ( اللہ کریم انہیں ہمیشہ کے لئے ناکام و نامراد کرے آمین) کو یہ دیکھے اور سوچے بناء کہ ان کو بنانے والا کون ہے ؟ ان کو پیسہ ، اسلحہ دینے والا کون ہے ؟ اور کن قوتوں کے یہ آلۂ کار بنے ہوئے ہیں ؟ کو اپنا ہیرو تو بنا لیتے ہیں ، لیکن جو شخص ہمارے پیاروں کی آپ کے ہیرؤوں کے ہاتھوں بم دھماکوں میں کٹی پھٹی لاشوں کو اٹھا کے اپنے ہاتھوں سے کفن دفن دیتا رہا! جس نے بھوکوں کو مانگ مانگ کے کھانا کھلایا، جس نے ان بچوں کو کہ جن کا دنیا میں آنے کا قصور فقط یہ تھا ، کہ ان کے والدین نے حرام کاری کی تھی، ماں اور باپ کا فقط پیار ہی نہ دیا بلکہ چھت ، تعلیم اور اپنا نام دے کے معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنایا ، جس نے شوہروں اور سسرال والوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکے گھروں سے بھاگنے والی بیٹیوں اور بہنوں کو ہیرامنڈیوں کی زیب و زینت بننے کی بجائے محفوظ ترین گھروں میں پناہ دی ، اور پھر اکثریت کو واپس ان کے گھروں میں پہنچایا، جس نے ہمارے گھروں سے نکالے ہوئے والدین کو اپنی بقیہ زندگی عزت و سکون سے گذارنے کے لئے اولڈ ہومز بنائے،

جس کے پاس زکٰوة ، صدقات ، خیرات ، فطرانہ اور قربانی کی کھالوں کے اربوں روپے موجود تھے، اس کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اسی مشن کی خاطر وقف تھا ، شریعت طیبہ کے راہنما اصول شرعی طور پہ اسے یہ اجازت دیتے تھے ، کہ اس میں سے اپنی اچھی گذر بسر کے لئے ( ہمارے ۹۹.۹۹فیصد علماء و مھتممین کی طرح ) اس بیت المال میں سے لے سکتا تھا!

لیکن اس نے بیس سال پرانی ٹوٹی ہوئی جوتی پہنے رکھی ، پھٹے پرانے کپڑے پہنے رکھے ، کہ اس رقم کو وہ اپنے لئے حرام سمجھتا تھا،

عیسائیوں نے اس کی انسانی خدمت کی تعریف کی ، اسے ایوارڈ دیا، آپ نے اسے عیسائی بنا ڈالا!

یہودیوں نے اس کی انسان دوستی کی تعریف کی ، اسے ایوارڈ دیا ، آپ نے اسے یہودی بنا ڈالا!

قادیانیوں نے اس کی مجبور و معذور انسانیت کی خدمت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اسے ایوارڈ دیا ، آپ نے اسے قادیانی اور قادیانی نواز بنا ڈالا،
کسی مُلحد نے یا لبرل نے اس کی انسان دوستی کی تعریف کی ، تو ہم نے مُلحد اور لبرل کا فتوی اس پہ جٓڑ دیا!

نہیں رہنے دیا تو ہم نے اسے مسلمان نہیں رہنے دیا!

آپ کے کسی محبوب عالم نے امریکیوں کے ہاتھوں مرنے والے کُتے کو شھید کہا ، تو آپ نے قرآن و سنت سے ان کے دفاع کے لئے سینکڑوں جواز ڈھونڈ نکالے،
کسی دوسرے محبوب مولوی نے کسی بیھودہ عورت کی بیھودگی پہ اسے شلوار اتارنے کی میڈیا پہ سرعام دھمکی دی ، تو ہم نے اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مقام دے ڈالا، ( جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے ) حالانکہ اس مولوی جیسے کروڑوں مولوی سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی جوتی کے ساتھ لگنے والی خاک کے بھی برابر نہیں لیکن محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث خیر الناس من ینفع الناس پہ ساری ذندگی عمل پیرا انسان آ پ کے عتاب کا بعد از موت اس لئے شکار بنا، کہ وہ آپ کے کسی دارالعلوم کا سند یافتہ نہیں تھا، آپ کے کسی شیخ کا بیعت یافتہ نہیں تھا، آپ کے مسلک کا پرچارک نہیں تھا، وہ آقا کریم کی سُنت کے مطابق یتیموں و ضعیفوں کا خدمت گذار تو تھا ، ان کے کپڑے دھونا ، ان کے جوتے اٹھانا تو اپنے لئے باعث فخر سمجھتا تھا ، اُن کی روٹی ، تعلیم اور چھت کے لئے فُٹ پاتھوں پہ دن رات بھیک مانگ کے ان کی ضروریات پوری کرنا تو اپنے اطمینان قلب کے لئے ضروری سمجھتا تھا، لیکن ہمارے اکابر و شیوخ کے جوتے اٹھانے اور ان کے مدارس درباروں و خانقاہوں میں حاضری اور ان کی قدم بوسی کا ٹائم اس کے پاس نہیں تھا،

اس کے مرنے کے بعد آپ کی ساری توپوں کا رُخ اس کی طرف ہوگیا، اور آپ سب اسے جھنم کے عمیق ترین گڑھوں میں پھینکنے کو باجماعت تیار ہوگئے،
لیکن اس کی زندگی میں اسے ملحد ، لبرل ، قادیانی نواز یہودیوں ، ہندؤوں ، اور عیسائیوں کا ایجنٹ کہنے والے کسی ایک عالم نے اس کے گھر جا کے اُسے آپ والے خالص اسلام کی دعوت دی؟؟؟ نہیں دی ، اللہ کی قسم نہیں دی !

ھاتوا برھانکم ان کنتم صٰدقین ؟

اگر صرف کراچی سے تعلق رکھنے والے ہر فرقہ و مسلک کے ہزاروں جیّد ترین علماء کرام ان کے لاکھوں شاگردان عظام اور پورے پاکستان کی سطح پہ لاکھوں علماء کرام نے ایک بار بھی ! ہاں صرف ایک بار بھی یہ فریضہ سر انجام نہیں دیا ؟ اور میرے ناقص علم کے مطابق سو فیصد نہیں دیا!

تو مجھے کہنے دی جئے، کہ میرے سمیت ہم سب اور ہمارے سارے اکابر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے حقیقی مشن دعوت الیّ اللہ کو اپنی عملی زندگیوں سے نکال چکے ہیں ، جو ہماری مسجد یا مدرسے میں آگیا ، اس تک تو ہم دعوت بوجہ مجبوری پہنچاتے ہیں ( کہ ہم اس مدرسہ و مسجد کے تنخواہ دار یا بلا تنخواہ خطیب ہیں اور وہاں خطاب و تقریر ہماری مجبوری بھی ہے اور منصب کا تقاضا بھی !

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت کہ عمائدین قوم کے پاس جاکے یا انہیں اپنے گھر دعوت پہ بُلا کے اللہ کے راستہ پہ چلنے کی دعوت دینا! یہ کام ہم نے نہیں کیا، اس کا مجرم ایدھی نہیں ، میں ہوں ، آپ ہیں ، اور میرے اور آپ کے اکابر ہیں ،

اب ہمارے فتوے نہ اس کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں ، نہ سنوار سکتے ہیں ،
وہ اس رحیم و کریم کی بارگاہ میں پہنچ گیا ، جس کے محبوب ذیشان کافرمان عالیشان ہے!

من قال لاإله الاالله دخل فی الجنة او کما قال علیہ الصلٰوة والسلام
جس نے لاإله الاالله کہ دیا وہ جنت میں داخل ہوگا!

اب کسی کا باپ بھی اسے جنت سے نہیں نکال سکتا، چاہے کوئی چمگادڑ کی طرح اُلٹا لٹک کے چاند کی بجائے اپنے چہرے پہ تھوکتا رہے!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے