وحدتِ انسانیت کا ترجمان،ایدھی

حزن و یاس کا عجیب منظر ہے۔ پریشانی اور مایوسی کے گہرے سائے ہیں۔ فراقِ یار کا عجب سا واویلا ہے۔ مدح و تعریفوں کے ان گنت بیانات ہیں۔زبانیں تر بہ تعریف اور قلم محو ذکرِ درویش ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ اچانک انسانیت پاکستان کی سرزمین پر یتیم ہوگئی ہے۔ وحدتِ انسانیت کا عملی داعی، خدمتِ خلق پر یقین مستحکم کا مالک، رب کے بندوں سے پیار کا سراپا فقط اس بنیاد پرکہ بس وہ میرے رب کے بندے ہیں اور وحدتِ انسانیت کے اس عظیم درس کے لئے محمدِ عربیﷺ کو اپنا استاد و رہنماء چننے والے عبدالستار ایدھی اپنے پیچھے انمٹ نقوشِ محبت و خدمت چھوڑ کر اپنے رب سے ملنے دارِ بقاء کی طرف چل دئے۔

لیکن آج اس درویش کے ہم سے جدا ہونے پر جوردِعمل پوری قوم کا سامنے نظر آیا۔وہ ایک طرف جہاں قابلِ تحسین و ستائیش ہے وہیں پر میرا احساس اس رنج سے زخمی ہے کہ ہم کیوں شخصیات کے بھنور میں فکر و شعور اور عملی پروگرام اور نظریات کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ آج ہر خاص عام ایدھی کے غم میں سوگوار دکھائی دیتا ہے۔لیکن کتنے ہیں جنہوں نے ایدھی کے مشن کو اعلانات اور اخباروں کی حد سے آگے بڑھ کر عملی طور پر اپنانے کا عزم کرکے میدانِ عمل میں آنے کا عہد کیا ہو؟

عبدالستار ایدھی کا ماتم چند روز یا پھر چند ہفتے اخباروں ، ٹی وی چینلز کی زینت بنا رہیگا۔ لیکن پھر غفلت کی ماری ہوئی یہ قوم اس درویش کو اسی طرح بھول جائیگی جسطرح یہ آج محسنِ انسانیت کو عملا بھول چکے ہیں۔ جس طرح یہ اپنے خالق کے احسانات و انعامات سے بھری زندگی گزار کر بھی غیروں کے در پر اپنے مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں۔ جس طرح اس قوم نے مفکرِ پاکستان اور بابائے قوم کے احسانات و فرمودات کو بھلا کر ، اسکے فکر و احساس کا خون کرکے مملکتِ خدادا پاکستان کو آج اس حال میں پہنچا دیا کہ جہسے دیکھ کر علامہ مرحوم اور قائدِ اعظم کی روح کو بھی تکلیف ہوگی۔ اور اگرکمال محبت کا ثبوت دیا تو کسی ائرپورٹ یا کسی شاہراہ کو ایدھی صاحب کے نام سے معنون کردیں گے۔ بیشک یہ بھی اپنے محسنوں کو یاد رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ ضروری اپنے قومی ہیروز کا کردار اور انکا مشن ہوتا ہے۔ جسکو زندہ قومیں اپنے لئے مشعلِ راہ بناتی ہیں ۔ پر جسکا بد قسمتی سے ہمارے ہاں رواج نہیں ہے۔

کاش ہمارے رویوں میں الفاظ سے زیادہ عمل کی جھلک نظر آتی۔ ہماری زبانوں کی تیزی سے زیادہ عبدالستار ایدھی کے نقشِ قدم پر چلنے میں ہمارے قدم تیز ہوتے۔اللہ کے اس درویش کی رحلت پر جوشِ و جذبہ دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ شاید غفلت کی نیند ٹوٹ چکی ہے۔عین ممکن ہے کہ بسترِ غفلت پر سونے والے بیداری کی کروٹ لے چکے ہیں۔لیکن عمل کی دنیا کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید آنکھوں کا خمار ابھی باقی ہے۔یا یوں کہئے کہ دھواں بڑھتا جا رہا ہے پر شعلوں کی چمک ابھی نظر نہیں آتی۔

تنگ نظری اور قدامت پسندی کا چشمہ اتار کر دیکھیں تو تاریخِ عالم یہی تصویر دکھاتی ہے۔ کہ دنیا میں جتنی آسمانی کتابیں آئیں جتنے اللہ کے برگزیدہ رسول و نبی آئے۔ حکماء و صلحاء جو اللہ رب العزت کی بڑائی کے پیامبر بنے۔ وہ سب ایک نکتے پر متفق اور ایک ہی سچائی کے ترجمان نظر آتے ہیں۔ ایک ہی روشنی کی رنگا رنگ کرنوں کے پھیلانے والے، خدا کی زمین پر خدا کے بندوں کو ایک ہی سچائی کی پہچان کرانے کے تقیب نظر آتے ہیں اور وہ سچائی اور وہ فکر وحدتِ انسانیت کا تصور ہے۔

کتابِ انسانیت کی عظمت اور بڑائی اس بات پر گواہ ہے کہ وہ ایسے فکر و شعور کو اجاگر کر کرتاہے ۔ جسمیں ساری انسانیت کی فلاح اور خدا کاے سارے بندوں کا فائدہ ہے۔اسکی عالمگیریت اگر قائم ہے۔تو اسلئے کہ یہ کل انسانیت کی کتاب ہے اور وحدتِ انسانیت اور وحدتِ کائنات کا اعلی ترین تصور ایمان بااللہ میں مضمرہے کیونکہ ایمان بااللہ کے منزلِ مقصود پر پہنچنے کے بعد ہی انسانیت کا درجہ آتا ہے۔اور انسان دوستی کی منزل سے انسان کا گزر ہوتا ہے۔بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انسان دوستی اور وحدتِ انسانیت ایمان بااللہ کی سب سے اہم اور اعلی درجہ ہے۔کیونکہ جسکو اللہ کے مخلوق سے رنگ و نسل ، قوم و مذہب اور علاقے سے بالا تر ہوکر محبت نہیں سہمجھو وہ خدا کے ساتھ محبت میں سچا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے صوفیاء کرام تو انسان دوستی کو ہی اصل دین قرار دیتے ہیں۔ان اولیاء اللہ کا تو یہ عقیدہ ہوگیا تھا کہ جو شخص اپنی جماعت سے باہر خدا کے دوسرے بندوں سے جو اسکے ہم عقیدہ نہیں محبت نہیں کرتا اور بغض و نفرت کرتا ہے، وہ سچا موحد ہو ہی نہیں سکتا۔

اس تناظر میں جب میں عبدالستا ر ایدھی کی زندگی کو دیکھتا ہوں تو وہ مجھے صحیح معنوں میں وحدتِ انسانیت کے ترجمان نظر آتے ہیں ۔ وہ انسان جس نے ایک مسلمان کی حیثیت سے عملا قرآن کو کتابِ انسانیت اور دینِ اسلام کو دینِ انسانیت ثابت کرکے دکھا دیا۔اس میرِ کاروانِ اغنیاء نے خدا کے انسانوں میں محبتیں بانٹیں۔ نفرتوں اور تعصبات سے پاک ایک ایسی فضاء تشکیل دی جو کہ وحدتِ انسانیت کا شاید اس وقت روئے زمین پر یکتا اور مثالی نمونہ ہے۔

اس درویش نے اس وقت انسانیت کے ایکتا اور محبت کی بات کی جب ہمارے معاشرے میں رسوم و رواج، نام نہاد مذاہب اور خود غرضی اور مفاد پرستی کی بنیاد پر بٹی ہوئی قومیتں نفرت و عصبیت کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔جب خدا اور بندے کے بیچ انسانی سوچ و فکر کی بنیاد پر بنے ہوئے نظریات حائل ہوئے معاشرے کو جہنم بنائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ایدھی صاحب کا عمل دراصل اس خود غرضی ، نام نہاد دین داری ، مفاد کے چادر میں لپٹی ہوئی قوم پرستی اور نمود و نمائش کی کھونٹی سے ٹنگی ہوئی انسان دوستی کے نام پر بھیانک کاروبار کے خلاف وہ فطری اعلانِ بغاوت ہے۔ جسکو شاید اہلِ نظر اور انسان دوست ہی سمجھ سکتے ہیں۔اسکی زندگی ہمارے صوفیاء کے چمکتے اور دمکتے کردار کا عملی مظہر رہا۔اور اس اللہ کے بندے نے خاموش سپاہی کی طرح عمر بھر انسان دوستی کی جنگ بڑی ثابت قدمی سے لڑی ۔ اور ایسے لڑی کہ آج جب وہ ہمارے درمیان نہیں تو ان سب کو اس درویش کے آگے جھکنا پڑا جنکی زندگی کا مقصد عوام کے جذبات ، عوام کی دولت ، عوام کے حقوق اور عوام کی خوشیوں پر ڈاکہ ڈال کر اپنی دنیا سجانا ہے۔جی ہاں عبدالستار ایدھی کی وفات پر معاشرے کے ان لوگوں کا گلدستے اور تعزیتی کلمات کے ساتھ سامنے آنا، جنکے ہاتھ عوام کے خون سے ہمیشہ رنگے ہوتے ہیں،دراصل انسانیت کی فرعونیت پر خاموش مگر پر جوش فتح ہے۔

کہ اپنے ایوانوں میں روز و شب انسانیت اور انسان دوستی کی جسم سے بوٹیاں نوچنے والے آج وحدتِ انسانیت کے سب سے بڑے داعی اور اس قافلے کے ایک درویش سالار کے آگے سر خم کئے کھڑے ہیں ۔
میرے عزیزو!۱یہ ایدھی کی شخصیت نہیں تھی کہ وہ تو ایک کمزور اور نحیف شخص تھا۔شاید اسکی قد کاٹ دیکھ کر توعلاقے کا نمبردار بھی نہ جھکتا۔یہ اسکا نظریہ ، اسکی فکر اور اسکا عقیدہء انسانیت تھا۔ جسکا داعی ہر دور میں اللہ کے نبی اللہ کے رسول اور اللہ کے اولیاء رہے ہیں۔جس نے ہر ایک کو اسکے در کا ثناء خوان بنا دیاہے۔ ہم نے اس درویش کے اس مشن اور فکر کو زندہ رکھنا ہے اور میرے خیال میںیہی اس بندہء خدا کو سب سے بڑی خراجِ عقیدت ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے