کشمیرپرموت کےسائے اور آر پار کی قیادت

مقبوضہ کشمیر کی گلیوں میں ایک بار پھر موت رقصاں ہے اور بہادر کشمیری اس کے سامنے آہنی دیوار کی طرح کھڑے ہیں ۔ ایک ہفتے کے دوران چالیس سے زائد شہادتیں ، ۲۵۰۰۰ لوگ زخمی ہیں ، اور ان میں سے ۱۰۰ کے قریب لوگ ایسے ہیں جن کو آنکھوں میں چَھرے مار کر زخمی کیا گیا ہے ۔ جب اس سے بھی قابض افواج کے کلیجے میں ٹھنڈ نہ پڑی تو ایمبولینسز سے مریضوں کو نکال کر مارا اور ہسپتالوں پر بھی حملہ کیا .

۲۰۱۰ کی طرح وادی کشمیر میں ایک بار پھر خون اور آگ برس رہی ہے ، اور حکمران اس کو معمول کی طرح ہی لے رہے ہیں ، کاش ان کو وقت یہ سمجھا دے کہ ان کے لئے یہ معمول ہو سکتا ہے ، جن ماوں کے بچے گئے ہیں ان کی دنیا اجڑ گئی ہے ، جن کے سہاگ لٹے ہیں ، ان کے لئے زندگی ختم ہے اور جن کی آنکھیں گئی ہیں ، ان کی دنیا اندھیری کرنے میں سب کا برابر کا ہاتھ ہے ، پہلے قابض افواج اور انڈیا ، پھر منقسم کشمیر کی دونوں حکومتیں ، جہادی طبقہ اور اس کی بڑھکیں اور ہمارے وکیل ، سب ہی برابر کے زمہ دار ہیں ۔ یہ رہنماوں کے روپ میں راہزن ، اپنی بستیوں کے لٹنے پر معمول کی کارروائی کرنے میں مشغول ہیں ۔ انڈیا کے حکمرانوں کی بات کرنا شہیدوں کے خون کی توہین ہوگی ، ان سے یہی توقع کی جاسکتی ہے ، جو وہ کر رہے ہیں ، ہم ہی آج تک اتنی بیداری کا ثبوت نہیں دے سکے کہ انڈیا کا مکروہ چہرہ دنیا کو کما حقہ دکھا سکیں ۔ مقبوضہ کشمیر کی محبوبہ جن کے پجاری کل تک ان کو انڈیا کی مضبوط ترین خواتین میں شمار ہونے پر جشن منا رہے تھے ، ہفتہ بھر خون اور آگ کے اس کھیل پر خاموش رہیں ، پھر بولیں بھی تو یہ کہا کہ والدین بچوں کو باہر آنے سے روکیں ، اور ساتھ ہی ایک مرے ہوئے فوجی کو سلام بھی پیش کیا ۔

مقبوضہ کشمیر کے جو عوام سڑکوں پر بری طرح پٹ رہے ہیں ، قتل ہو رہے ہیں انہی میں سے چند نے محبوبہ کو چنا ہے لیکن اپنے ووٹرز سپورٹرز کو چھوڑ کر، مظلوم عوام کو چھوڑ کر حمایت کی گئی تو اس ایک پولیس اہلکار کی ، گراوٹ کی اس سے بڑی مثال کوئی مل نہیں سکتی ، لیکن عمر عبداللہ نے بالآخر سچ اگل ہی دیا اور بولے کہ جو غلطی میں نے کی تھی محبوبہ اس سے دس گنا بڑی غلطی کر رہی ہے ۔

’بیس کم بزنس کیمپ‘ کے حکمرانوں اور رہنماوں کے تو کیا کہنے ، چار دن بیچارے جاگ ہی نہیں پائے ، پھر خیال آیا کہ مقبوضہ کشمیر کا کر کئے بغیر ان کی انتخابی مہم تو مکمل ہوگی نہیں تو بڑھکیں مارنی اور معمول کی وہ کارروائیاں شروع ہو گئیں جن کی توقع تھی ۔ دو تین ریلیاں ، دو تین بیانات ، اور سب ختم، یہ قیمت ہے کشمیریوں کے خون کی ۔ بیرسٹر سلطان محمود جو کشمیر کے نام پر ملین مارچ کر کے ’شو آف پاور‘ کر کے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے ، وہ اب آزاد کشمیر میں لوگوں کو قتل و غارت گری کی ترغیب دینے میں مشغول ہیں ، عبدالمجید صاحب نے ریاست گیر احتجاج کی کال دے کر فرض پورا کیا اور بلاول کی قدم بوسی کے انتظامات میں مشغول ہو گئے ، یہی حال راجہ فاروق حیدر اور مسلم لیگ نون کی قیادت کا ہے ، دو سطری بیانات ، یا کسی ادارے کے زیرانتظام کسی تقریب میں ایک آدھ بڑھک ، فرض پورا، بات ختم ۔ سردار خالد ابراہیم صاحب تو اتحاد ہو جانے کے بعد اپنی متوقع جیت کے نشے میں دھت ہیں ، لیکن غائب ہیں ، ترابی صاحب کا بیان سب سے دلچسپ تھا ’سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ہم لائن آف کنٹرول عبور کریں گے ‘ آج وہ برجیس طاہر کے پیچھے پیچھے چہرے پر کھسیانی ہنسی لئے شاید اپنی زبان کی ’سلپ‘ ہونے پر شرمندہ ، نظریں جھکائے چل رہے تھے ۔ یہ آر پار سب وہ لوگ ہیں جن کو عوام منتخب کرتی ہے رہنمائی کے لئے اور یہ انہی عوام کے سر کٹنے پر تجارتیں کرتے ہیں ، لیکن نہ ہم دھوکے کھاتے تھکتےہیں نہ یہ دھوکا دیتے تھکتے ہیں

سید صلاح الدین سپریم کمانڈر متحدہ جہاد کونسل نے مطفرآباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئےنسبتا معقول بات کہی کہ اگر ۲۰۱۰ کی طرح کشمیر میں خوراک اور ادویات کی ترسیل بند ہوئی تو ہم سرحد کے اس پار سے ترسیل شروع کریں گے ، وہ ایسا کر بھی سکتے ہیں ، اللہ ان کو توفیق دے ،

اور سب سے آخر پر ہمارے وکیل ہیں ، آزاد کشمیر کے حکمرانوں کی طرح ان کو بھی بیدار ہونے میں وقت لگا لیکن بدیر آید درست آید ۔۔ نواز شریف نے بھی اور راحیل شریف نے بھی مذمت بھی کی اور عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کے لئے بھی تان لگائی ۔ ۱۹ جولائی کو یوم سیاہ منانے کا فیصلہ بھی کیا گیا انڈین کمشنر کو بلا کر احتجاج بھی کیا گیا ، ، یہاں تک تو سب درست اور پاکستان کے جائز موقف کے عین مطابق ہے ، لیکن کیا تھا جو نواز شریف مودی کو ایک آدھ فون بھی کر دیتے ، سالگرہ پر بلا سکتے ہیں اتنی بے تکلفی تو ہے ، پٹھان کوٹ کے بعد بھی تو فون کیا تھا ، اپنا سفیر واپس بلانے جیسے دلیرانہ اقدام کی توقع تو عبث ہے ۔ پاکستان کو اپنی کوششیں سفارتی سطح تک محدود رکھنی چاہیئں ، اور جو ایک آدھ چینل پر جماعت الدعوہ کے لوگ یا غزوہ ہند والے درس حریت دے رہے ہیں اس کو روک دینا چاہئے اس سےعالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ،

پاکستان میں بہت سے لوگ کشمیر کے نام پر نوازے جاتے ہیں ، اور کچھ ادارے کشمیر کے نام پر کروڑوں ہڑپ کرتے ہیں ، جیسا کہ کشمیر کمیٹی ،ہمیں ان کے کھانے پینے پر کوئی اعتراض نہیں ، ایک مرتا ہوا کشمیر ی بھی بہت سوں کی شکم سیری کا باعث بن جاتا ، اس سے بڑھ کر اچھی بات کیا ہوگی ، لیکن پاکستانی میڈیا میں مسئلہ کشمیر کے کسی بھی رخ کی غلط انداز میں ترجمانی کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے ، غلط رخ دکھانے سے بہتر ان کے معمول کے موضوعات یعنی انڈین فلموں کی تشہیر وغیرہ بھی کشمیریوں کے حق میں درست ہیں ۔ اور آزاد کشمیر کا میڈیا ، اس کی ترجیحات بھی آزاد کشمیر کے حکمرانوں کے جیسی ہیں ، ابھی وہ انتخابات مہم میں لگے ہیں ، انتخابات کے بعد ایک آدھ ایڈیشن کسی صحافی کی شادی پر چھپ سکتا ہے ، کشمیر کا اللہ مالک ہے ، کو ن سا آزاد کشمیر کے اخبارات نے مسئلہ کشمیر حل کروانا ہے ۔

وادی کے تیور بتا رہے ہیں کہ اب تحریک اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے ، اس وقت ساری قوم کو متحد ہو کر مثبت سمت میں قدم بڑھانے کی ضرورت ہے ، آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو چاہئے تھا کہ انتخابات کو ملتوی کرتے ہوئے ایک کل جماعتی کانفرنس بلاتے ، جس میں سب لوگوں کی مشاورت سے کوئی مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا وادی کے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لئے ، یا سید صلاح الدین کی بیان کی ہی تائید ساری جماعتیں کر لیتیں اور اپنی حمایت کا یقین دلاتیں لیکن کسی منضبط پلیٹ فارم سے کسی مشترکہ مثبت کوشش کی اس وقت اشد ضرورت ہے ، افسوس اس بات کا ہے ہم انتخابات میں اس قدر مشغول ہیں کہ گھر کا ایک حصہ جل رہا ہے اور ہمیں پرواہ تک نہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے