ترکی اور استعماری ایجنٹ

مہذب و تعلیم یافتہ ممالک کی عوام کی اپنے حکمرانوں سے محبت کی کئی وجوہات ہوتی ہیں جن میں سے اہم ترین وجوہات معاشی استحکام ، صحت ، تعلیم ، انصاف بلاتفریق ہر چھوٹے بڑے کے لئے،

اگر کسی ملک میں یہ ساری چیزیں یا ان میں سے کچھ میسر نہ ہوں ، تو حکمران بظاہر کتنے بھی ہر دلعزیز کیوں نہ ہوں ، مشکل وقت میں عوام ان کا صرف ساتھ ہی نہیں چھوڑتی ، بلکہ ان کے جانے پہ خوشیاں مناتی اور مٹھائیاں بانٹتی ہیں،
تُرکی کی حالیہ ناکام بغاوت کی جڑیں بہت گہری ہیں، اس بغاوت کو امریکی اور تکفیری جعلی بغاوت کا نام دے رہے ہیں اور جعلی اعداد و شمار سے پاکستانی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ،صرف فیس بُک پہ ہی نہیں ، ہر جگہ استعماری ایجنٹوں اور تکفیریوں کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے، ترک بغاوت کی ہزاروں تصاویر میں سے وہ چند تصاویر جن میں ایک آدھ عام آدمی نے داڑھی رکھی ہوئی ہے ، اور وہ باغی فوجیوں پہ تشدد کررہا ہے، موم بتی مافیا ان تصاویر کو شئیر کرکے یہ تصور دینا چاہتے ہیں ، کہ اردگان نے یہ ناکام بغاوت اپنے حامی اسلامسٹ لوگوں کے ذریعہ ملک میں مزید آمریت کے لئے خود کروائی۔

وہ چار ملین سے زائد مرد و زن جو لمحوں میں اپنے گھروں سے باھر نکل آئے ، بوڑھی خواتین اپنے ھاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے میدان عمل میں نکل آئیں ، وہ ستر سالہ عورت جو سکوٹی پہ جوانوں کے شانہ بشانہ میدان عمل کی طرف جارہی ہیں ، وہ تو کسی لنڈے کے لبرل کو نظر نہ آئیں ، وہ تین سو کے قریب عام آدمی جو شھید ہوگئے ، وہ استعماری ایجنٹوں کو نظر نہ آئیں ، وہ ہزاروں لوگ جو ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، وہ ان تکفیری لابی اور استعماری ایجنٹوں کو نظر نہ آئیں ، نظر آئیں تو وہ تصاویر جن میں باغی فوجیوں پہ تشدد کرنے والے ایک دو لوگوں کے چہروں پہ داڑھی تھی ، یہ ان تکفیریوں کا صرف دھوکہ اور فریب ہی نہیں فکری دھشت گردی ہے، جو ان کے دل و دماغ میں بسی ہوئی ہے، اور جس کی عفونت میں یہ سانس لیتے ہیں ،

ابھی کل ہی کی بات ہے ، میرا ایک ریگولر کسٹمر جو ہمیشہ مجھ سے دنیا جہاں کی سیاست پہ بحث کیا کرتا تھا ، کل جب میری اس سے ملاقات ہوئی ، اور میں نے بار بار اسے تُرکی کی بغاوت کے موضوع پہ بلوانے کی کوشش کی تو اس نے میری ایک بات کا جواب بھی نہ دیا، یوں دکھتا تھا ، اس کے کسی انتہائی قریبی عزیز کی موت واقع ہوگئی ہے ، اور وہ حواس باختہ ہے،

زیر نظراعداد و شمار فیس بک کے ایک انتہائی قابل احترام دوست نے مجھے انگلش میں بھیجے تھے، جو انہیں ان کے کزن جو پاکستان آرمی میں انتہائی ہائی رینکڈ آفیسر ہیں نے بھیجے تھے، ان کا ترجمہ کرنے سے قبل میں نے اپنی بساط کے مطابق ان کی دیگر ذرائع سے تحقیق بھی کرلی ، الحمدللہ یہ تمام فیکٹس اینڈ فگرز درست ہیں؛

1 ) طیب اردگان کی آمد کے بعد ترکش اکانومی 2002 سے 2012 کے درمیان کی گروتھ 64% حقیقی جی ڈی پی میں اور 43% جی ڈی پی میں پر کیپیٹل اضافہ ہوا

2 ) طیب اردگان کی آمد سے قبل آئی ایم ایف کا ترکی پہ قرضہ 23.5 بلین ڈالر تھا، جو دوہزار بارہ میں 0.9 بلین ڈالر یعنی 900 کروڑ ڈالر رہ گیا، طیب اردگان نے فیصلہ کیا کہ ہم کوئی نیا قرضہ نہیں لیں گے ، کچھ ہی عرصہ میں یہ قرضہ بھی ختم ہوگیا، اور اعلان کیا کہ اب آئ ایم ایف ہم سے اپنے لئے قرضہ لے سکتا ہے، ( یعنی قرض لینے والے قرضہ دینے کے قابل ہوگئے)

3) ترکی کے حکومتی قرض یورپی یونین کے نو ممالک اور روس سے بھی کم ریکارڈ سطح 1.17% پہ ٹریڈنگ کررہے ہیں ،

4) 2002 میں ٹرکش سنٹرل بنک کے ریزرو 26.5 ارب ڈالر تھے ، جو اردگان کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے 2011 میں 92.2 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ، اردگان کی پالیسیوں کی وجہ سے 2002 سے 2004 کے درمیان صرف دو سالوں میں افراط زر کی شرح 32% سے کم ہوکے 9% رہ گئی ،

5) اردگان کے دور حکومت میں ترکی میں 24 نئے ائیر پورٹ بنائے گئے، پہلے 26 ائیر پورٹ تھے اب 50 ہوچکے ہیں،

6) 2002 سے 2011 کے درمیان 13500 کلومیٹر ایکسپریس وے ( موٹروے ) بنائے گئے

7) ترکی کی تاریخ میں ہائی سپیڈ ٹرینوں کے لئے پہلی بار ہائی سپیڈ ریلوے لائنز بچھائی گئیں اور 2009 میں ان پہ پہلی بار ہائی سپیڈ ٹرینز ( 250.کلومیٹر فی گھنٹہ ) چلائی گئیں ، صرف آٹھ سالوں میں 1076 کلومیٹر نئی ریلوے لائنز بچھائی گئیں ، اور 5449 کلومیٹر ریلوے لائن کو رینیو کیا گیا ،

? ملکی تاریخ میں پہلی بار صحت کے محکمہ میں اربوں ڈالر خرچ کئے گئے اور غریب عوام کے لئے مفت علاج معالجہ کے لئے مفت گرین کارڈ سکیم کا اجراء کیا گیا ،

9) 2002 میں تعلیم کے لئے 7.5 بلین لیرا ( ترک کرنسی ) مختص کی جاتی تھی ، اردگان نے 2011 تک رفتہ رفتہ اسے 34 بلین لیرا تک پہنچادیا، بجٹ کا سب سے بڑا حصہ وزارت تعلیم کے لئے مختص کردیا اور ملک میں 2002 میں 98 یونیورسٹیوں کی تعداد کو 2012 اکتوبر میں 186 یعنی تقریبا ڈبل کردیا ،

10) 1996 میں ترکی کرنسی لیرا ایک ڈالر کے 222 ملتے تھے ، اردگان کی معاشی اصلاحات کی وجہ سے اب 2016 میں ایک ڈالر کے 2.94 لیرا ملتے ہیں لیرا کی قدر وقیمت میں یہ اضافہ اتنا بڑا اضافہ ہے جس نے عالمی سامراج کی راتوں کی نیند اور دن کا چین اڑا رکھا ہے، یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پہ طیب اردگان کے خلاف بغاوت کروائی گئی، اس ناکام بغاوت کا اصل محرک کون ہے ، یہ اگلے بلاگ میں بتاوں گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے