آزادکشمیرانتخابات :کون کہاں کھڑا ہے؟

آزادکشمیر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اقتدار کا سورج غروب ہو چکا ہے ۔ نئی حکومت کا تاج کِس کے سر سجے گا ، یہ فیصلہ 21 جولائی کو عوام ووٹ کی طاقت سے کریں گے ۔ انتخابات میں اب محض چند ہی گھنٹے باقی ہیں ۔ 41 حلقوں سے کُل 423 اُمیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، جن میں 328 اُمیدوار آزادکشمیر کی 29 نشستوں پر قسمت آزمائی کررہے ہیں جبکہ پاکستان میں موجود مہاجرین کے 12 حلقوں سے 99 اُمیدوار خود کو عوام کی عدالت میں پیش کررہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق کل 22 لاکھ 37 ہزار 58 افراد اپنے ووٹ کا استعمال کرسکیں گے ، جن میں 12 لاکھ 11 ہزار 842 مرد اور 10 لاکھ 25 ہزار 216 خواتین شامل ہیں۔

تمام سیاسی جماعتیں بھرپور انداز میں اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ جلسوں ، جھنڈوں ، کارنر میٹنگز اور ریلیوں سے عوامی حمایت حاصل کرنے کی سوتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں ۔ غیر ریاستی جماعتوں کے پاکستان سے رہنما بھی آئے روز جلسوں کا رخ کررہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی تنہا پرواز کررہی ہے جبکہ جماعتِ اسلامی اور ن لیگ کا کچھ حلقوں میں اتحاد ہے۔ جماعتِ اسلامی اور مسلم کانفرنس نے بھی 3 حلقوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔ جبکہ آزادکشمیر کے سیاسی اُفق پر حال ہی میں نمودار ہونے والی کشمیر تحریکِ انصاف کا بھی مسلم کانفرنس سے اتحاد ہے ۔

ماضی کی کارکردگی ، جلسے جلوسوں کی پوزیشن اور عوامی پذیرائی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کی 2011 کے انتخابات اور حالیہ سیاسی پوزیشن کا احوال مندرجہ ذیل ہے :

[pullquote]1۔ پاکستان پیپلز پارٹی [/pullquote]

2011 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 22 نسشتیں حاصل کرکے تنِ تنہا حکومت بنائی اور بہت سے ترقیاتی منصوبے مکمل کیے ، اور 3 میڈیکل کالج بنا کر ریاست کے عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا کردیا تاہم زلزلہ سے متاثرہ سینکڑوں سرکاری سکولوں کی عدم تعمیر ، کرپشن کے الزامات پر 7 وزراء کے فراغت پانے ، پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہ ہونے ، سڑکوں کی خستہ حالی ، بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ ، پارٹی میں شدید اختلافات ، 2 اُمیدواروں کے ٹکٹ لینے سے انکار اور 3 وزراء کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد اب پیپلز پارٹی کی پوزیشن کافی کمزور ہوچکی ہے ۔ تاہم اب بھی اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان ہی ہے ۔ پیپلز پارٹی کے لیے دوبارہ حکومت بنانا تو شاید خاصا مشکل ہوگا مگر اپوزیشن کی سب سے بڑی جمعات پیپلز پارٹی ہی ہوگی ۔ اور موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں پیپلز پارٹی 8 سے 10 نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ صدرِ جماعت اور وزیرِ اعظم چوہدری عبد المجید کو 16 اُمیدواروں کا سامنا ہے جبکہ پی پی کے حاجی یعقوب انتخآبات میں حصہ نہیں لے رہے ۔

[pullquote]2۔ مُسلم لیگ ن [/pullquote]

مُسلم لیگ ن کا آزادکشمیر میں دوسرا الیکشن ہے۔ 2011 کے انتخابات میں ن لیگ نے 10 نسشتیں حاصل کی تھیں ۔ جبکہ اِس مرتبہ بھرپور انتخابی مہم چلانے ، اور چند قدآور شخصیات کی شمولیت سے ن لیگ کی پوزیشن مزید مضبوط ہوچکی ہے ۔ پاکستان میں ن لیگ کی حکومت کا ایج بھی ن لیگ کو حاصل ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں ن لیگ 18 سے 22 نشستیں لے کر حزب اقتدار میں آتی دکھائی دیتی ہے ۔ صدرِ جماعت راجہ فاروق حیدر کو اپنے حلقے سے 12 اُمیدواروں کا سامنا ہے جن میں پی پی کے صاحبزادہ اسحاق ظفر ( چیئرمین وزیرِ اعظم معائنہ کمیشن) انتہائی مضبوط اُمیدوار ہیں۔

[pullquote]3۔ آل جموں و کشمیر مُسلم کانفرنس [/pullquote]

مُسلم کانفرنس نے گزشتہ انتخابات میں 4 نشستیں حاصل کی تھیں ، اور اُن منتخب ممبران میں سے 2 ( سردار سیاب خالد اور میراکبر خان ) کی ن لیگ میں شمولیت کے بعد اب ماضی کی حکمران جماعت محض 2 سے 3 نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے ۔ صدرِ جماعت سردار عتیق احمد خان کو جماعتِ اسلامی کے میجر (ر ) لطیف خلیق سے زبردست مقابلے کا سامنا ہے۔

[pullquote]4۔ متحدہ قومی موومنٹ [/pullquote]

متحدہ قومی موومنٹ نے گزشتہ انتخابات میں کراچی سے مہاجرین کی دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے کھیل اور ٹرانسپورٹ کی وزارت حاصل کی تھی ، اور متحدہ اب بھی یہی دونوں سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے ، جبکہ آزادکشمیر کے 29 حلقوں سے متحدہ بلکل غائب ہے۔

[pullquote]5۔ کشمیر تحریکِ انصاف [/pullquote]

کشمیر تحریکِ انصاف کو قائم ہوئے ابھی چند ہی ماہ بیتے ہیں ۔ کشمیر تحریکِ انصاف کو شدید اختلاف کا سامنا ہے ۔ فاروڈ بلاک نے تحریکِ انصاف (نظریاتی ) کے نام سے الگ جماعت قائم کرکے کے ٹی آئی کی سیاسی پوزیشن خراب کردی ہے ۔ اورجماعت کو کچھ حلقوں سے اپنے ہی اُمیدوار کے خلاف اپنے ہی آزاد اُمیدوار کا سامنا ہے ۔ تاہم چوہدری ارشد حسین ( سابق وزیرِ برقیات ) سمیت 3 وزراء کی شمولیت کے بعد کشمیر تحریکِ انصاف 3 سے 5 نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے ۔ اِس کے علاوہ تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ کئی اُمیدواروں کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں ۔ تحریکِ انصاف کو آزادکشمیر کی سیاست مین اپنی جڑیں مضبوط بنانے کے لیے پارٹی کو منظم کرکے اگلے انتخابات کا انتظار کرنا ہوگا۔ کشمیر تحریکِ انصاف کے صدر ، سابق وزیرِ اعظم بیرسٹر سلطان محمود کو چوہدری محمد سعید ( ن لیگ ) اور چوہدری محمد اشرف ( پی پی) جیسے مضبوط امیدواروں سمیت 7 اُمیدواروں کا سامنا ہے ۔

[pullquote]6- جموں و کشمیر پیپلز پارٹی ( جے کے پی پی ) [/pullquote]

جموں و کشمیر پیپلز پارٹی ماضی کے کئی انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہے ، تاہم 2011 کے انتخابات میں یہ جماعت ایک سیٹ بھی نہ حاصل کرسکی تھی ۔ ضلع پونچھ کو اِس جماعت کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔ اِس مرتبہ پونچھ کے حلقہ 3 اور چار سے جماعت کی پوزیشن مضبوط ہے ۔ حلقہ 3 سے مضبوط حریف حاجی یعقوب کے انتخابات میں حصہ نہ لینے اور ن لیگ کے ساتھ اتحاد کے باعث صدرِ جماعت سردار خالد ابراہیم کے لیے یہ نشست جیتنا زیادہ مُشکل نہیں رہا ۔ جبکہ حلقہ چار میں سردار سیاب خالد کی دستبرداری کے بعد سردار محمود اقبال کی پوزیشن انتہائی مضبوط ہوچکی ہے ۔

[pullquote]7۔ جمعیت علماءِ اسلام جموں و کشمیر [/pullquote]

جمعیت علماءِ اسلام نے سدھنوتی کے حلقے کے علاوہ دیگر تمام حلقوں سے ن لیگ کی حمایت کی ہے ۔ گزشتہ انتخابات میں سدھنوتی سے مولانا سعید یوسف نے جمعیت کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ تاہم وہ ن لیگ کے ڈاکٹر نجیب نقی ( سابق وزیرِ صحت ) سے قریبی مارجن سے شکست کھاگئے تھے ۔ تاہم اِس مرتبہ امیرِ جماعت شیخ الحدیت مولانا سعید کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے ۔ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان کے پلندری کے جلسے میں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے ثابت کردیا ہے کہ 21 جولائی کو ایک بار پھر بڑا مقابلہ ہوگا۔ اور جمعیت علماءِ اسلام فی الوقت ایک نشست جیتنے کی پوزیشن میں ہے

[pullquote]8 جماعتِ اسلامی [/pullquote]

جماعتِ اسلامی نے گزشتہ انتخابات میں کوئی سیٹ حاصل نہیں کی تھی تاہم موجودہ انتخابات میں جماعتِ اسلامی کو کامیاب حکمتِ علمی کے باعث ایک ٹیکنوکریٹ اور ایک خواتین کی مخصوص نشست ملنے کا امکان ہے ۔ علاوہ ازیں جماعتِ اسلامی کے حمایت یافتہ چند اُمیدواروں کی جیت کا بھی امکان ہے ۔ یوں جماعتِ اسلامی باآسانی 2 نشستیں جیت کر حکمران اتحاد کا حصہ بن جائے گی۔

[pullquote]9۔ دیگر مذہبی جماعتیں [/pullquote]

پاکستان راہِ حق پارٹی نے آزادکشمیر میں سیاسی پرواز کا آغاز حالیہ دنوں میں ہی کیا ہے ۔ تاہم کوئی اُمیدوار لانے کے بجائے پورے آزادکشمیر میں جمعیت علماءِ اسلام سے اتحاد کیا ہے ۔ راہِ حق پارٹی کے حمایت یافتہ مولانا سعید یوسف کی کامیابی کا امکان ہے ۔

سُنی اتحاد کونسل نے بھی کچھ حلقوں سے اپنے اُمیدوار کھڑے کیے ہیں تاہم مناسب انتخابی مہم نہ ہونے اور عوام میں پذیرائی نہ ملنے کے باعث یہ جماعت کوئی نشست جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ۔

جمعیت علماءِ اسلام سے اختلافات کی بنا کر الگ ہونے والی جماعت آل جموں و کشمیر جمعیت علماءِ اسلام نے بھی انتخابات میں کوئی اُمیدوار کھڑا نہیں کیا بلکہ مخلتف حلقوں میں مختلف جماعتوں کی حمایت کی ہے ۔

[pullquote]10۔ قوم پرست جماعتیں [/pullquote]

قوم پرست جماعتوں نے گزشتہ انتخابات میں کسی نسشت پر کامیابی حاصل نہیں کی تھی ۔ اس مرتبہ جموں و کشمیر نیشنل عوامی پارٹی کے علاوہ دیگر قوم پرست جماعتوں نے بھی باغ ، راولاکوٹ ، بھبر سمیت بیشتر حلقوں سے اُمیدوار کھڑے کیے ہیں ۔ جن میں سردار ساجد صادق اور سردار لیاقت حیات قابلِ ذکر ہیں ۔ تاہم کوئی بھی اُمیدوار نشست جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

[pullquote]11۔ آزاد اُمیدوار[/pullquote]

گزشتہ انتخابات میں 2 آزاد اُمیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی ۔ اِس مرتبہ بھی درجنوں آزاد اُمیدوار میدان میں ہیں جن میں 2 سابق سپیکرز سردار سیاب خالد اور چوہدری انوار الحق بھی شامل ہیں ۔ سردار سیاب خالد نے مسلم کانفرنس کا ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت میں لڑنے کا اعلان کیا تھا تاہم اب وہ جے کے پی پی کے سردار محمود اقبال کے حق میں دستبردار ہوچکے ہیں ۔ جبکہ چوہدری انوار الحق نے پارٹی صدر و وزیرِ اعظم چوہدری عبد المجید سے اختلافات کی بنیاد پر پارٹی ٹکٹ لینے سے انکار کردیا تھا ۔ چوہدری انوار الحق نے گزشتہ انتخابات میں چوہدری طارق فاروق ( سینئر رہنما ن لیگ ) کے 31000 ووٹ کے مقابلے میں 25000 ووٹ حاصل کیے تھے ، تاہم اس مرتبہ چوہدری انوار الحق کی پوزیشن مضبوط ہے اور سخت مقابلہ متوقع ہے۔

موجودہ سیاسی فضاء کو دیکھ کر یہ کہنا قبل از وقت نہ ہوگا کہ ن لیگ جماعتِ اسلامی اور جے کے پی پی کی مدد سے آزادکشمیر میں اپنی حکومت قائم کرلے گی ۔ راجہ فاروق حیدر یا چوہدری عبد العزیز وزارتِ عظمیٰ کا قلم دان سنبھالیں گے ۔ سردار خالد ابراہیم ، سردار سیاب خالد ، چوہدری غلام قادر یا کسی دھیمے مزاج کی شخصیت کو صدرِ ریاست نامزد کردیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن نے نہایت کم وقت میں نئی ووٹر نسشتیں بنائیں اور بروقت انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا ، جو یقینا” ایک بڑا کارنامہ ہے ، تاہم الیکشن کے دن جعلی ٹھپوں کو روکنا اور مختلف پارٹیوں کے آپسی جھگڑوں کو روکنا الیکشن کمیشن کے لیے بڑا چلینج ہوگا ، جسے پورا کرنے میں رینجرزاور پولیس یقینا” مدد گار ثابت ہوں گے ۔

انتخابات کے موقع پر عوام پر بھی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ قومی مفاد کو اہمیت دینے والی سنجیدہ قیادت کا انتخاب بھی عوام کی ذمہ داری ہے ، ریاستی املاک کی حفاظت بھی عوام کے ذمہ ہے ، خود بھی جھگڑوں سے بچنا ،اور لڑائی جھگڑوں کی صورت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلع کرنا بھی عوام کی ذمہ داری ہے۔

اللہ کرے یہ انتخابات شفاف اور پُرامن ہوں تاکہ بغیر کسی جانی و مالی نقصان کے نئی جمہوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جاسکے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے