اسلام آباد کی فتح پرمظفرآبادمیں جشن

آج سے کوئی ڈیڑھ سال قبل کی بات ہے جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انتخابات کی گہما گہمی تھی ۔بھارتی وزیراعظم طوائفوں کے جلو میں سری نگر فتح کرنے کی مہم پر تھے اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ صد قابل احترام سید صلاح الدین نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے عوام کو انتخابی عمل کے بائیکاٹ کی اپیل کی اور موقف اختیار کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات شفاف نہیں ہوتے جس جماعت کی نئی دہلی میں میں حکومت ہوتی ہے وہی پارٹی یا اس کی حمایت یافتہ پارٹی کشمیر کے الیکشن کا معرکہ بھی سر کر لیتی ہے ۔

راقم نے جب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابی حالات کی جانب توجہ دلا کر یہاں کے عوام کے ووٹ ڈالنے پر بھی کفر کا فتویٰ لینے کی کوشش کی تو پیر صاحب اپنی اپیل سے ہی مکر گئے۔وقت گزرتا گیا ۔ نریندری مودی کا کشمیر کے لیے 8سو کھرب روپے کے پیکج کا اعلان کرکے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکا مگر آزاد کشمیر کے حلال اور آزاد الیکشن میں مرکز میں برسراقتدار جماعت نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی ہے۔

آزاد کشمیر کا پارلیمانی نظام ایکٹ 1974کی موجودگی میں سب سے بڑا جھوٹ اور دھوکا ہے ریاست کی پارلیمانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیشہ وہی جماعت الیکشن میں کامیاب ہوئی جسے اسلام آباد کی حمایت حاصل رہی ہو ۔2011کے الیکشن میں اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کے باعث آزاد کشمیر میں بھی پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی ۔اس سے قبل 2006کے انتخابات میں ملٹری ڈیمو کریسی کی بدولت سردار عتیق احمد کو اقتدار نصیب ہوا ۔ 1947سے لیکر آج تک کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ” اسلام آباد“ یا ”مری“ کی مرضی کے بغیر آزاد کشمیر میں حکومت قائم ہوئی ہو۔

آزاد کشمیر کتنا ”آزاد “ہے اس بات کا اندازہ ایکٹ 1974اور گزشتہ 68سالہ صدارتی اور پارلیمانی دور کی تاریخ سے لگایا جا سکتا ہے ۔آزاد کشمیر میں ایسے شخص کو بھی اقتدار سے نوازا گیا جو رات کوپاکستان آرمی کے جنرل کی حیثیت سے سویا اور صبح صدر آزاد کشمیر کی حیثیت سے بیدار ہوا ۔آزاد کشمیر میں انتخابات جیتنے کے لیے ہمیشہ ”مری“ کا کردار اہم رہا ہے اور اس کے لیے آزاد کشمیر سے جماعتیں تبدیل کرنے کے ماہر سیاستدانوں کو استعمال کیاگیا ۔

2006کے انتخابات میں مسلم کانفرنس کو کامیاب کرانے کے لیے پیپلزمسلم لیگ بنائی گئی ۔پیپلز پارٹی کے آدھے ووٹ پیپلز مسلم لیگ کے حصے میں آئے اور یوں ووٹ تقسیم ہونے سے مسلم کانفرنس کے امیدوار کامیاب ہو گئے۔ 2011کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو کامیاب کرانے کیلئے بیرسٹرسلطان کو دوبارہ پی پی میں شامل کرایاگیا اور مسلم کانفرنس کے بطن سے مسلم لیگ(ن) کو پیدا کر کے ووٹ تقسیم کر دیے یوں پیپلز پارٹی نے کامیابی سمیٹ لی ۔موجودہ انتخابات سے قبل بیرسٹر سلطان کو عمران خان کے سپرد کر کے آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی ووٹ بٹ گئے مسلم لیگ (ن) کامران ہوئی۔

گزشتہ الیکشن سے قبل آزادکشمیر میں دو جماعتی نظام رہا ۔1947ءکے بعد مسلم کانفرنس پا کستان کی ”وزارت بے محکمہ“ (جو اب وزارت امور کشمیر میں بدل چکی ہے )سے اقتدار کی بھیک مانگتی رہی ۔بعدازاں قائد اعظم محمد علی جناح کے سیکرٹری خورشید حسن خورشید نے لبریشن لیگ کی بنیاد رکھ کر دو جماعتی نظام قائم کیا ۔پاکستان میں پیپلز پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ایکٹ 1947کی شکل میں غلام پارلیمانی نظام کی بنیاد رکھی اور اور اس کیساتھ ہی آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی بھی قائم کر دی گئی۔ خورشید حسن خورشید کی وفات کے بعد لبریشن لیگ کا وجود بھی مٹا دیا گیا اور اس طرح دوبارہ دو جماعتی نظام لایا گیا۔پاکستان میں بر سر اقتدار آنے والی ہرمسلم لیگ کی مسلم کانفرنس کو حمایت حاصل رہی اور پیپلز پارٹی کی جانب سے مرکز میں حکومت سازی کے بعد آزاد کشمیر میں بھی پی پی کی حکومتیں بنتی اور گرتی رہیں ۔پاکستان میں آمریت کے دور میں بھی مسلم کانفرنس اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔دوجماعتی نظام میں بر سر اقتدار آنے والے ہمیشہ اپنے دور کو آخری باری سمجھ کر لوٹ مار کر کے حکومت اور عوام کو پرانے شکاریوں کے سپرد کرتے رہے۔ لوٹ مار کا یہ سلسلہ آج تک قائم ہے اور ریاست کسی بھی قسم کی تعمیر وترقی سے محروم ہے ۔

حکومت پاکستان نے ایک برس قبل آزاد کشمیر فتح کرنے کی منصوبہ بندی شروع کی کشمیر کونسل کے فنڈز سے ہر حلقے میں پانچ سے 10کروڑ روپے تقسیم کیے گئے اور تمام ترقیاتی سکیمیوں کی رقم بغیر کام کیے واگزار کر کے کارکنوں میں تقسیم کی گئی۔ دو وفاقی وزراء اور ایک مشیر کو آزاد کشمیر فتح کرانے کا ٹاسک دیا جو 6ماہ تک آزاد کشمیر میں یورپ کے برابر سہولیات کی فراہمی ،مریضوں کے لیے ہیلی کاپٹر سروس کے جھوٹے اعلان کرتے رہے۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک وفاقی حکومت کی جانب سے آزاد کشمیر کیلئے اعلانات کا سلسلہ جاری ہے مگرعوام آج بھی پتھر کے دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آزادکشمیر کے الیکشن جیتنے کیلئے وفاقی حکومت کی سطح پر منصوبے دیے جاتے ہیں پیپلز پارٹی نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے عوام کو گمراہ کیا ، موجودہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے ہیلتھ کارڈ کالولی پاپ دے کر ووٹ سمیٹے ۔

اسلام آباد میں برسراقتدار پارٹی کی جانب سے آزادکشمیر کاالیکشن جیتنے کی ایک وجہ آزادکشمیرکے سرکاری ملازم ہیں۔ ملازمین اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ آزاد کشمیر حکومت مکمل بے اختیار ہے،حکومت کاکام صرف اور صرف ملازمین بھرتی کرنا ہے قومی سطح پراس کی کوئی وقعت نہیں ۔ یہ ملازمین بدلتے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے عزیز واقارب کو سرکاری ملازم بھرتی کرانے اور خود کو سیاسی انتقام سے بچانے کیلئے اسلام آباد میں بر سر اقتداریا حمایت یافتہ جماعت کی غیراعلانیہ مہم چلانا شروع کردیتے ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ آزادکشمیر میں انتخابات پاکستان میں انتخابات کے دو سال بعد ہوتے ہیں اور یہ دوسال کاعرصہ اسلام آباد کی حمایت یافتہ جماعت اورمفادپرست سرکاری ملازمین کیلئے انتخابی مہم کاعرصہ ہوتا ہے جس میں وہ عوام کو خاطر خواہ گمراہ کرنے کیلئے کامیاب ہوجاتے ہیں۔

آزاد کشمیر باآسانی فتح ہونے کی ایک وجہ عوام میں عقل و شعور کی کمی ، پسماندگی اور جہالت ہے۔ریاست میں جتنی زیادہ تعلیم کی فراوانی ہے اتنی ہی زیادہ شعور و فہم کی کمی ہے ۔ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوم بہت جلد سیاستدانوں کے ہتھکنڈوں کا شکار ہو جاتی ہے ۔ ریاست میں رائج نظام کیخلاف یا عوامی حقوق کی آواز بلند کرنے والے کو ”پاگل “کا خطاب ملنا عام بات ہے ۔ مظفرآباد سمیت ایک سے دو شہروں کی علاوہ ریاست ”قحط الشعور “ کا شکار ہے ۔

آزاد کشمیر میں بڑے سیاسی اپ سیٹ کی وجہ بیروزگاری کا عام ہونا ہے ۔ آزاد کشمیر کے انتخابی حلقوں سے ہر امیدوار اوسطاً بیس ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہوتا ہے ان بیس ہزار ووٹرز میں سے دس ہزار ووٹر زکی ڈیمانڈ روز گار کی فراہمی ہوتی ہے ۔ ریاست میں کوئی انڈسٹری نہیں روز گار کا انحصار صرف اور صرف سرکاری نوکری پر ہے ۔ منتخب ایم ایل اے اگر وزیر بن بھی گیا تو وہ صرف چند سو نوکریاں ہی د ے پاتاہے بعض کو لوکل گورنمنٹ کی ترقیاتی سکیمیں سیاسی رشوت کے طورپر دی جاتی ہیں، جس ووٹر کو ذاتی مفاد حاصل نہیں ہوتا وہ آئندہ الیکشن میں حساب برابر کرنے کیلئے مخالفین کی صف میں کھڑا ہوجاتا ہے اوریہ کھیل بھی 1947ءسے آج تک جاری ہے۔

آزادکشمیر کوفتح کرنے والوں کو خوشیاں منانے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہےے کہ اگر انتخابی مہم کے دوران عوام کو ہیلی کاپٹرسروس ، سڑکیں ، سکول ،صحت مراکز ،نوکریوں کے جھانسے دینے کے وعدے پورے نہ کیے گئے تو آئندہ الیکشن میں ان کی حالت یہی ہو گی جوآج پیپلز پارٹی کی ہوئی ہے ۔جوکام آج مسلم لیگ ن کررہی ہے وہی کا م کرکے پیپلز پارٹی نے گزشتہ الیکشن جیتا تھا مگر آج اس کا ریاست سے نشان تک مٹ چکا ہے اورپانچ برس بعد مسلم لیگ ن کا بھی ایسے ہی نشان مٹ جائیگا اورتیسری قوت بھار ی اکثریت سے اقتدار کی مسند پرفائز ہو گی ۔

آزاد کشمیر ، مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں انتخابی عمل ایک جیسا ہی ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں الحاق ہندوستان اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں الحاق پاکستان کا حلف لے کر انتخاب میں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے ۔ یہ پاکستان اور بھارت کے الیکشن تو ہو سکتے ہیں مگر کشمیریوں کا حق رائے دہی کسی صورت نہیں ہو سکتے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے