معصوم مجرم

آج کسی کام سے پاک سیکرٹریٹ جانا تھا، میٹرو سٹیشن پر پہنچا، اور ٹکٹ گھر کی جانب بڑھنے لگا تقریباﹰ تیرہ چودہ سالہ لڑکے میری جانب لپکے، ایک قدرے موٹا تھا، دوسرا معمولی لاغر تھا۔

وہ کمزور سا لڑکا بڑا میری جانب لپکا، اور بڑے مؤدبانہ لہجے میں سلام کیا، میں نے سلام کا جواب دے کر ہاتھ کھینچنے کیلئے جنبش ہی کی تھی کہ لڑکے نے ہاتھ زور سے تھام لیا، اور بڑی لجاجت سے کہنے لگا کہ بھائی آپ کے پاس بیس روپے ہیں؟
میں نے کہا "جی ہیں، ”
رونی سی صورت بنا کر کہنے لگا کہ فیض آباد جانا ہے، کرایہ نہیں ہے، میں فروٹ کی ریڑھی لگاتا تھا، پندرہ بیس دن سے نہیں گیا کام پر، میری بہن کی بیٹی ہوئی ہے، اسے دیکھنا جانا ہے، آپ مجھے 20 روپے دینگے۔۔؟؟

میں نے چونکہ پاک سیکرٹریٹ جانا تھا، اور فیض آباد سٹیشن رستے میں آتا ہے، تو میں کہا کہ آپ میرے ساتھ جائیں، میں بھی فیض آباد کی جانب جارہا ہوں۔۔۔۔

ایک دم موٹے کی جانب اشارہ کرکے کہنے لگا کہ پھر میرے ساتھ یہ دوسرا بھی ہے، اس کا کیا ہوگا؟

میں اس کی آنکھوں میں چمکتی چال بخوبی جانچ چکا تھا، پھر بھی کہہ دیا کہ اس کا بھی ٹکٹ خریدتا ہوں، تینوں ساتھ چلتے ہیں۔۔۔۔ دونوں نے ہاں میں ہاں ملائی ۔۔۔۔

میں نے پھر دونوں سے پیار سے پوچھا کہ میرے بھائی ہو آپ دونوں، اگر میٹرو پہ بیٹھ کر سیر ہی کرنی ہے تو سچ بتاؤ، تا کہ واپسی کا ٹکٹ بھی دلا دوں گا، ۔۔۔۔ اگر پیسے درکار ہیں تو تب بھی سچ بتادو، جو ممکن ہوا کروں گا۔۔۔۔

مگر ایک غیر محسوس سی نظروں سے ایک دوجے کو دیکھا، پھر کہنے لگے نہیں فیض آباد ہی جانا ہے۔۔۔

میں نے آگے بڑھ کر تین ٹوکن خریدے، اور ان دونوں کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ دونوں آئے۔۔۔ مگر قدرے بوجھل قدموں سے آرہے تھے۔
ہم جیسے ہی ٹکٹ چیکر مشین کے پاس پہنچے، میں نے دونوں کو ٹوکن پکڑا دئیے، اب میں مشین سے جوں ہی گزرا وہ دونوں ٹوکن جان بوجھ کر فرش پر گرا کر ادھر ادھر ہاتھ مارتے رہے، نگر ٹکٹ چیکنگ پہ کھڑے شخص نے دونوں ٹوکن پاس کروا کر لڑکوں کو کراس کروادیا۔۔۔

اب وہ میرے ساتھ پیچھے دو قدم کے فاصلے پر کھڑے تھے، گاڑی کا انتظار تھا۔۔۔۔۔ جیسے ہی بس پہنچی، دروازہ کھلا، میں نے انہیں اشارہ کیا۔۔۔۔میں بس میں چلا گیا۔۔۔۔ اور وہ عین بس کی روانگی کے وقت واٹر کولر کی جانب لپکے اور منہ گلاس سے لگا کر بس دروازہ بند ہونے تک بیٹھے رہے۔۔۔

جوں ہی گیٹ بند ہوا ۔۔۔۔۔ ایک شریر سا قہقہہ دونوں نے لگایا اور شیشے کے باہر سے دونوں جوانوں نے آستین چڑھا کر مکا دکھایا۔۔۔۔۔ مگر پرویز مشرف کے مُکّا سٹائل کی مخالف سمت دکھائی ۔۔۔۔ اور میں زیرِ لب ان کے اس ”معصوم دھوکے” پر مسکراتا رہا۔۔۔۔ چونکہ مجھے اندازہ پہلے ہی تھا کہ کچھ شرارت ہے آنکھوں میں مگر جرنیلوں والے مکے دیکھنے کی توقع نہ تھی ???

میں سوچ رہا تھا کہ ٹکٹ چیکنگ مشین سے کراس ہوکر ان کا ٹکٹ ضائع ہوگیا ہوگا، اس سے بہتر تھا پیسے لے لیتے، ان کا کام بنتا۔۔۔۔۔

بہر کیف ۔۔۔۔۔ کچھ دیر قبل واپسی ہوئی، اسی سٹیشن پر اترا اور ٹکٹ بوائے سے پوچھا کہ ٹوکن کتنے دورانئیے میں ایکسپائر ہوتا ہے۔۔۔۔ تو کہنے لگا ایک گھنٹے تک کارآمد ہے۔۔۔۔ ہم یہی بات کررہے تھے کہ ایک خاتون کی اونچی اونچی آواز آئی کہ ایک موٹا اور ایک چھوٹا لڑکا ٹوکن چھین کر بھاگ گئے ہیں۔۔۔ میں نے ٹکٹ گھر والے سے کہا یار ٹوکن چھین کر انہیں کیا فائدہ حاصل ہوگا۔۔۔۔؟

اتنے میں ایک صاحب کی آواز آئی کہ جناب یہ دھوکے باز ایک جانب سے جاتے مسافروں سے دھوکہ کرکے ٹوکن لیتے ہیں۔۔۔اور دوسری جانب جانے والوں پر ٹوکن دس روپے میں بیچ دیتے ہیں۔۔۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے آوارہ بچے کیا بڑے ہو کر آیان علی نہیں بنیں گے۔۔۔؟
یہ چھوٹے چھوٹے معصوم سے لڑکے ایسی ہلکی پھلکی دھوکے بازیوں سے بڑے بڑے جرائم تک آخر پہنچتے کیوں ہیں ‌۔۔؟؟

کیا والدین کی تربیت میں کوتاہی ہے؟ غربت نے ستا رکھا ہے؟ یا یہ ٹوکن بلیک میل کرنے والا بھی کوئی "آفشور گینگ” ہے۔۔۔۔؟؟

سوچیئے ۔۔۔۔۔ اور سر دھنیے ۔۔۔۔۔۔!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے