ن لیگ کی کامیابی کی وجہ ؟

مسلم لیگ ن کی قیادت نے معروف امریکی ماہر نفسیاتابراہام ماسلو (1908تا 1970) کی تھیوری Hierarchy of Needs تو یقیناً نہیں پڑھی ہوگی، لیکن سیاسی طور پر وہ اسی پر عمل پیرا ہے۔ ویسے بھی عمرانی تھیوریز سماجی اور انسانی رویوں سے ہی اخذ و کشید کی جاتی ہیں۔ اس تھیوری کے ذریعے البتہ ہم بڑے واضح طور پر جان سکتے ہیں کہ ن لیگ کے انتخابات جیتنے کے سماجی عوامل کیا ہیں۔ مجھے غالب گمان ہے کہ حالات اگریوں ہی رہے تو اگلے الیکشن میں بھی ن لیگ کی جیت یقینی ہے۔

ابراہام ماسلو کی اس تھیوری کے پہلے ورژن کے مطابق انسانی بنیادی ضروریات پانچ ہیں جو ایک خاص ترتیب سے یکے بعد دیگرے ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ ضروریات اور ان کی ترتیب درج ذیل ہے:
1. جسمانی ضروریات کھانا پینا وغیرہ physiological Needs
2. تحفظ Safety Need
3. محبت Love Need
4. عزت Esteem
5. ذاتی شناخت Self-Actualization

ماسلو کہتا ہے کہ یہ ضروریات عمومًا اسی ترتیب سے سامنے آتی ہیں۔ جب ایک ضرورت پوری ہو جاتی ہے تب دوسری ضرورت سر اٹھاتی ہے۔ کبھی البتہ ترتیب بدل بھی جاتی ہے لیکن وہ کسی عارضی عامل کی مداخلت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ورنہ عام حالات میں ان ضروریات کی ترتیب یہی رہتی ہے ۔ ماسلو کی اس تھیوری کو ۸۰ فیصد سے زائد درست پایا گیا ہے۔

سادہ لفظوں میں تھیوری کو بیان کیا جائے تو آدمی کی پہلی ضرورت اس کا پیٹ ہے۔ روٹی کی خاطروہ جان بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔ پیٹ جب بھرا ہو تب انسان کو اپنے تحفظ کی ضرورت کا خیال آتا ہے۔ تحفظ کے حصول کے بعد اس میں محبت کرنے اور کیے جانے خواہش سر اٹھاتی ہے۔ بات محبت کی ہو رہی ہے ہوس کی نہیں۔ چناچہ لوگ عمومًا معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے بعد شادی کرنا پسند کرتے ہیں۔ دیکھا جاتا ہےکہ شادی کے بعد اگر معاشی حالات خراب ہو جائیں تو محبت بھی رخصت ہو جاتی ہے، شادیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں، اور انتہائی صورت میں لوگ بیوی بچوں کو مار کر خود خود کشی بھی کر لیتے ہیں۔ محبت کی ضرورت جب پوری ہوجاتی ہے تو عزتِ نفس کی ضرورت کا احساس ابھرتا ہے۔ ایسے لوگجو معاشی طور پر مستحکم اورجان و مال کے تحفظ میں بھی مبتلانہیں ہوتے تو مساوی حقوق کی طلب کرنے لگتے ہیں، جس کا تعلق عزتِ نفس سے ہے۔ (پی ٹی آٹی میں ایسے ہی لوگوں کی اکثریت ہے)۔ جب چاروں ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں تو ذاتی شناخت منوانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ فارغ البال اقوام سمندروں کی تہ میں، آسمان کی فضاؤں میں غوطے لگا کر نئی نئی چیزیں دریافت کرتی ہیں، محیر العقول کارنامے سر انجام دیتی ہیں، چاند اور مریخ پر کمندیں ڈالتی ہیں، لیبارٹریوں میں نئے نئے اکتشفات اور انکشافات کرتے ہیں۔ جب کہ ان میں سے کئی چیزیں ہمارے روٹی کی تلاش میں سرگرداں عوام کے لیے حماقت کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔

اب آئیے پاکستانی معاشرے پر اس تھیوری کے اطلاق کی طرف۔ پاکستانی عوام کی غالب اکثریت کی پہلی ضرورت یعنی جسمانی ضرورتیں یعنی کھانا پانی ہی پورا نہیں ہو پایا۔ہم دیکھتے ہیں کہ دعوتوں میں اور سیاسی پارٹیوں کے جلسوں میں کھانا کھلنے پر ہمارے عوام کس طرح بھوکوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں،باہم سیاسی اختلاف رکھنے والے عوام اس معاملے میں بالکل ایک جیسے رویے کا مظاہرہ کرتے پائے جاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کا اصل مسئلہ پیٹ ہے۔اس لیے ان میں دیگر ضروریات کا احساس اور ان کی تکمیل کی خواہش سرِ فہرست ہی نہیں ہے۔

ن لیگ کا کمال یہ ہے کہ اس نے پاکستانی عوام کی پہلی ضرورت کو اپنا عملی منشور بنایا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے میں سیاسی طور پر اسی ضرورت کا انتخاب کیا ہوا ہے، لیکن وہ عوام سےاپنی حد سے بڑھی ہوئی بے حسی کی بنا پر اپنے اس منشور پر بقدرِ ضرورت بھی عمل کر کے دکھا نہ سکی، اور اسی وجہ سے اپنا ووٹ بینک کھوتی گئی ۔ ن لیگ، البتہ، عوام کی ان بنیادی ضروریات کی تکمیل میں کم از کم اس حد تک لگی ہوئی ہے کہ اس کے ووٹرز کی بڑی تعداد ان سے مطمئن ہوجاتی ہے ۔ جو ووٹر ایک روٹی سے رام ہو جاتا ہے ن لیگ اسے دو روٹیاں دینے کی حماقت نہیں کرتی۔

آپ ن لیگ کے کاموں کی فہرست دیکھیں، جسے ان کے بڑے اور چھوٹے اپنی تقریروں اور بیانات میں دہراتے رہتے ہیں۔ یہ تمام کے تمام کام ماسلو کی فہرست میں دی گئی پہلی ضرورت، یعنی کھانے پینے کی ضرورت کے گرد گھومتے ہیں۔ سستی روٹی جیسے پراجیکٹ کی حماقت پر ماہرینِ معاشیات چاہے کتنا ہی سر پیٹ لیں ، ایک عام ووٹر کا ووٹ بہرحال پکا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سڑکیں، پُل، بس اور ٹرین بھی اِسی بنیادی ضرورتمیں سہولت پیدا کرنے کے اقدامات ہیں۔ ن لیگ بلا وجہ ان پر اربوں روپیہ نہیں لگا دیتی۔ یہ اپنے عوام کی ضرورت اور ان کے مزاج سے واقف ہیں اس کیے ان کا تیر خطا نہیں جاتا۔ اہل عقل چاہے عوام کی عقل پر ماتم کناں رہیں کہ ملک کے حقیقی مفاد کے لیے یہ چیزیں غلط ترجیحات ہیں، حکومت کے کرنے کے اور بھی کام ہوتے ہیں، لیکن غریب سے پوچھو تو اسے چاند میں بھی روٹی نظر آتی ہے۔ غریب آدمی روٹی کے پیچھے بھاگے گا، جو ن لیگ اسے للچا للچا کر دیتی ہے، وہ آپ کیمعقول باتوں سے انکار بھی نہیں کر سکے گا لیکن وہ آپ کی بات سنی ان سنی کر ضرور کر دے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس پہلی ضرورت پر سب سے کم خرچ آتا ہے۔ دیگر ضروریات جیسے تعلیم، صحت انصاف وغیرہ پر خرچ بھی زیادہ آتا ہے، اور وہ معاملات پیچیدہ بھی زیادہ ہیں۔ ان دیگر ضروریات پر خرچ کرنے سے بچنے کےلیے ن لیگ اگلا اہتمام یہ کرتی ہے کہ عوام کو انہی ضرورت تک محدود بھی رکھتی ہے ۔ یعنی وہ ان کی پہلی ضرورت بھی اس طرح پوری نہیں کرتی کہ اگلا مطالبہ اٹھ کھڑا ہو۔ ن لیگ کو تجربہ ہو چکا ہے کہ پیٹ بھرے نوجوانون کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے لیپ ٹاپ جیسی مہنگی سکیم پر اربوں روپے لگانے پڑے تھے، اتنے پیسوں میں تو وہ تین بار الیکشن جیت جاتی۔ اسی لیے آپ دیکھیے کہ تعلیم سے ایک گونا بیر ہے ن لیگ کو۔ تعلیم ان کی ترجیحات میں ڈھونڈنے سے بھی نظر ںہیں آتی۔ چنانچہ وہ عوام کوحتی المقدور اسی پہلی ضرورت کے دائرے میں گھماتے رہتے ہیں، اور لوگ روٹی سے پھر روٹی تک کی امید اور وعدوں پر ہر بار اپنا ووٹ ان کے لیے قربان کرتے چلے جاتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ ان کے لیے دل و جان سے نعرے بھی لگاتے ہیں، ان کی گاڑیوں کے آگے بھنگڑے بھی ڈالتے ہیں، صرف اس لیے کہ ان کی روزی روٹی لگی رہے۔

ہم جانتے ہیں اس نظام میں غریب کی عزت محفوظ نہیں۔ سو روپے کی چوری کے جھوٹے الزام پرپولیس جو تذلیل ایک غریب آدمی کی کرتی ہے، چھتر مار مار کر اس کا مثانہ تک پھاڑ دیتی ہے، لیکن کروڑوں کی مبینہ چوری کرنے والی ایان علی کو جیل میں بھی عزت و احترام ملتا ہے۔ غریبوں کی عزت سےکوئی طاقتور جب چاہے جتنا چاہے کھلواڑ کر سکتا ہے، نظام اس کا ہاتھ پکڑنے کی بجائے اس کی پشت پر کھڑا ہو جاتا ہے ۔ لیکن پاکستان کے غریب عوام کو آپ جتنا بھی سمجھا لیں کہ پولیس، کچہری، عدالت وغیرہ کا یہ نظام جان بوجھ کر ایسا ظالمانہ بنا کر رکھا گیا ہے تاکہ طاقت ور جو فائدہ اٹھانے چاہے اٹھا لے اور الٹاتم اس ظلم سے بچنے کے لیے بھی اسی ظالم ایم این اے، ایم پی اے اور وززیر اعلی کے در پر سجدہ ریز ہو جنھوں نے یہ نظام بنایا ہے تاکہ وہ تمہاری داد رسی بھی تمہارے ووٹ کی قیمت پر کریں، لیکن یہ روٹی کے پیچھے بھاگتے عوام اپنا ووٹ ن لیگ کو ہی دیں گے ۔ یہ معاملہ جبلت سے متعلق ہے عقل والے چاہے جتنا زور لگا لےکے وہ جبلت کو شکست نہیں دے پائیں گے۔

عمران خان کا انصاف کا نعرہ ماسلو کی بیان کر دہ ترتیب کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر آتا ہے، کیونکہ اس کا تعلق عزتِ نفس سے ہے، اسی لیے عمران خان کو باوجود اپنی ذاتی کرشماتی شخصیت کے اپنی بات سمجھانے میں دو دہائیاں لگ گئیں۔ اتنی محنت کے باوجود بھی اس کے گرد وہی لوگ جمع ہو سکے جوپیٹ،تحفظ اور محبت کی تینوں ضرورتوں سے آگے اب ملک میں عزت نفس سے جینے کے حق مانگتے تھے۔یہ الگ بات ہے کہ منشور فی الحقیقت درست ہونے کے باوجود عمران خان کی اپنی احتجاجی سیاست اور بد اخلاقی نے خود اس کی راہ میں کتنی مشکلات کھڑی کیں، اس کے حمایتیوں کوکتنا مایوس کیا اور اس کی ناکامی میں دیگر خارجی عوامل کا کتنا دخل ہے۔

ن لیگ اور دیگر سٹیس کو کی جماعتوں کے قائم کردہ اس چکر ویو کا توڑ بہت مشکل ہے۔ اس کا علاج کسی آمر سے تو ہرگز ممکن نہیں۔ آمروں نے اس اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئ اسے مزید گہرا ہی کیا ہے۔ اس صورتِ حال سے نجات مستقبل قریب میںدکھائی نہیں دیتی۔

اس مضمون میںتاجر برادری اور لینڈ مافیاپر بات نہیں کی گئی جو ٹیکس سے بچنے اور کارباری فوائد اور مراعات کے حصول کے لیے جو ن لیگ کے ساتھ ایک مافیا بناتے ہیں اور اس لیے اس کے کٹر ووٹرز بھی ہیں۔ اس مضمون کا تعلق عوام کے اکثریتی طبقے سے ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے