جیت کے پش اپس ۔۔۔

[pullquote]شکریہ کشمیریوں۔۔۔ ہم ممنون اورمشکور ہیں آپ کے۔۔۔ جو کام اعلیٰ تعلیم یافتہ برطانوی ڈاکٹرز ، موٹی موٹی کتابیں پڑھ کر اور بھاری بھاری ڈالرز جیبوں میں ٹھونس کر بھی نہ کرسکے وہ آپ کے کاغذ کے ایک معمولی ٹکڑے نے جسے ہماری عوام قسمت بدلنے کی پرچی سمجھتے ہوئے برسوں سے ’ووٹ ‘ کہتے آئے ہیں اسی سے کر ڈالا ۔ [/pullquote]

ہمارا اور وزیراعظم کا بھی دل باغ باغ ہوگیا ۔ ۔۔ کچھ ’ دیوانے ‘ تواس بھول بھلیوں میں مست کھوئے ہوئے تھے کہ اب تو وزیراعظم کی چہرہ رونمائی استعفیٰ دینے کے لیے ہی ہوگی ۔اُدھر وزرا بھی بے چارے ’ صفائی ‘ دیتے دیتے اپنا گلہ خشک کرچکے تھے ۔ مگر آپ نے تو ان کی پریشانی ، بے چینی اور بے قراری دور کردی ۔ ان کے اندر پھر سے لڑنے کا جذبہ بیدار کردیا ۔ وزیراعظم لندن میں تھے جب کسی کو چین نہیں تھا ، جب اپنے ہی وطن میں آئے اور عوام میں ہوتے ہوئے بھی اُن سے دور رہے‘ جبھی آستینیں چڑھا چڑھا کر علیل وزیراعظم پر سب برس رہے تھے ۔ نہ بیمار وزیراعظم کا کسی کو خیال تھا۔ اور نا ان کے دل کی تکلیف کا ۔ کبھی پانامہ لیکس سے ، کبھی دھرنوں او ر احتجاج سے تو کبھی ترکی بغاوت مثال لا لا کر ترکی بہ ترکی ڈراتے اور دھمکاتے رہے ۔ ۔ یہ بھی فراموش کر گئے کہ گھر میں کوئی بیمار ہوتا ہے تو ذرا دھیمے لہجے میں ہی بات کی جاتی ہے ۔اس کی دل جوئی کی جاتی ہے ۔ حوصلہ بڑھایا جاتا ہے ۔اس کے دکھتے زخموں پر نمک پاشی سے پرہیز کیا جاتا ہے ۔ کسی نے انسانیت کا کوئی ثبوت ہی نہیں دیا ۔ کوئی ہمدرد بنا نہ غم گسار ۔بس لالچی نگاہوں سے ’ کرسی ‘ کی طرف دیکھتے رہے کہ کب اس پر بیٹھنے کی باری آتی ہے ، کچھ نے اس فریب میں اپنی تیسری خاتون اول کے انتخاب پر سوچنا شروع کردیا ۔ایوان وزیراعظم اور نجی زندگی میں ’ تبدیلی ‘ لانے کا پھر سے ارادہ کرلیا ۔ لیکن بھلا ہو کشمیریوں کا جنہوں نے جیت کا ایسا مرہم لگایا کہ وزیراعظم کی ساری کی ساری بیماری اڑن چھو ہوگئی ۔ پھر سب نے دیکھا ، جہاں ایک شہر سے کئی دنوں تک دوسرے مقام پر جانا مشکل ہورہا تھا ۔جہاں قوم کے محسن ایدھی کے گھر والوں سے مل کر تعزیت کرنے کی بھی سکت نہیں ہو پارہی تھی ۔

ملکی اہم فیصلے گھر بیٹھے بیٹھے ہورہے تھے ۔ کیسے ’فتح کے ٹانک ‘ نے ایسی انرجی بھری کہ چند گھنٹوں میں وزیراعظم ’ سلطان ‘ کی طرح اکھاڑے میں اتر گئے ۔ پھر بتایا کہ موٹر وے کیسے بنی ۔ کیسے ملک ترقی کررہا ہے ۔ کیسے خوش حالی کا دور دورا ہے ، کیسے گاؤں گاؤں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ کیسے عوام کے گھروں میں شادیانے بج رہے ہیں ، بے روزگاری کا خاتمہ ہوگیا ۔ ملک سے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غربت اور افلاسی غائب ہوچکی ہے ۔امن وامان ہے ، کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہورہی ۔ ۔ ۔۔ وہی جوش تھا ۔ وہی للکارنے والی گرج چمک تھی ۔ وہی ولولہ تھا جو بیماری سے پہلے اور پچھلے تین برس سے ہم صرف جلسوں میں ہی دیکھتے آئے ہیں۔۔ کسی نے امیتابھ بچن کے مشہور فلمی ڈائیلاگ میں تھوڑی سی قینچی چلائی اور ٹوئٹ کردیا کہ ہم تو وہ ہیں جہاں کھڑے ہوجائیں وہاں جلسہ ہو جاتا ہے ۔ ویسے اب تو ان مخالفین اور تنگ نظروں کے کلیجے کو سکون مل جانا چاہیے جو چینلز پر وزیراعظم کی ’ فائل فوٹیج ‘ دیکھ دیکھ کر مسرور ہورہے تھے ۔ وزیراعظم نے جلسہ کرکے مصباح الحق کی طرح جیت کے پش اپ تو لگائے ۔ لیکن فرق یہ تھا کہ مصباح کی ٹیم کی کامیابی پر پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی ۔ اور وزیراعظم کے یہ صرف ’ پارٹی جیت پش اپ ‘ ہیں۔ اور یہ ’ پش اپ ‘ وقت بے وقت لگتے ہی رہتے ہیں ۔جن پر عوام نہیں سرکار اور اس کے وزرا خوش ہوتے ہیں۔ کیونکہ تماشا وہی اچھا دکھا سکتا ہے جنہیں زیادہ ’ کرتب کے ’ ہنر ‘ کا پتا ہو ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے