کشمیر میں ریاستی تشدد اور عوامی مزاحمت

8جولائی2016 کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد لوگ گھروں کو واپس جا رہے تھے۔ عید الفطر کے بعدبازار وں میںکافی چہل پہل تھی ۔ایک خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگی۔ جنوبی کشمیر کے سیاحتی مقام کوکر ناگ کے بمڈورہ گاﺅں کابھارتی فوج اور پولیس ٹاسک فورس نے اچانک کریک ڈاﺅن کر لیا ۔ فورسز نے گاﺅں کا تلاشی آپریشن شروع کیا۔ ایک رہائشی مکان سے فورسز پر اندھا دھند گولیاں برسنے لگیں۔
کشمیر میں بھارتی فوج کے،محاصرے، چھاپے اور تلاشی آپریشن کریک ڈاﺅن کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ آج تک کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں کریک ڈاﺅن ہو چکے ہیں۔ شاید ہی کوئی گھر ایک سے زیادہ بار فورسز کے آپریشن اور توڑ پھوڑ سے بچا ہو۔ مگر اس آپریشن کا اس لئے چرچا ہو اکہ اس کا نشانہ ایک ایسا مجاہد نوجوان اور اس کا گروپ تھا۔ جس نے وادی میں مسلح جدوجہدکی پہچان ہی بدل ڈالی۔اسے نوجوان اپنا رول ماڈل قرار دے رہے تھے۔وہ پوسٹر بوائے کے طور پر شہرت پا رہا تھا۔یہ برہان وانی تھا۔جو اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ اس مکان میں موجود تھا۔ جہاں سے فورسز پر لگاتار فائرنگ ہو رہی تھی۔ علاقہ میں برہان وانی کی موجودگی کی اطلاع پھیلی تو لوگ جوق در جوق گاﺅں کی جانب بڑھنے لگے۔ جہاں جھڑپ جاری تھی۔عوام نے فورسز پر پتھراﺅ شروع کر دیا۔لوگ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر بلا خو ف و خطر آزادی کے حق میں بھارت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔دو گھنٹے کی اس معرکہ آرائی میں برہان وانی اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔جدوجہد کا ایک نیا باب برہان کی شہادت کے ساتھ ہی بند ہو گیا ۔اورمزاحمت کاایک نیا باب کھل گیا۔

برہان وانی نے صرف 15 سال کی عمر میں بندوق اٹھا ئی۔ یہ 2010کا دور تھا۔ جب کشمیر میں بھارت کے خلاف مزاحمت کو نئی جہت ملی تھی۔ نوجوان پتھروں اور ڈنڈوں سے فورسز پر حملے کر رہے تھے۔ تقریباًً 120نوجوان قابض فورسز کی گولیوں سے شہید ہو گئے۔ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ برہان اکیلا 2010کی پیداوار نہیں۔ اس جیسے لاتعداد نوجوان اس کی صفوں میں شامل تھے۔ انھوں نے اپنا ایک گروپ بنایا۔ پہلی بار انھوں نے گوریلا جنگ کے اصول ایک طرف رکھ دیئے۔ چہرے سے نقاب اتار دی۔ فوجی وردی، بکتر بند گول ٹوپی، ہاتھوں میں کلانشنکوف اٹھائے یہ نوجوا ن کم وقت میں وادی اور اس سے باہر شہرت یافتہ بن گئے۔ کبھی یہ ایک شہر اور کبھی دوسرے سے اچانک نمودار ہو کر بھارتی فوج کے لئے دہشت کی علامت بن جاتے۔ سوشل میڈیا پر ان کے پیغامات آنے لگے۔ نوجوان ان کی صفوں میں شامل ہونے لگے۔ انھوں نے بھارتی فورسز کی نیندیں حرام کر دیں۔ اس دوران چھ سال کا عرصہ بیت گیا۔اس گروپ کے کئی کمانڈر شہید ہو گئے۔ مگر ان کی شہرت پر کوئی اثر نہ پڑا۔ وادی کے نوجوان ان کے دیوانے تھے۔ ان سے وہ ہمت اور نیا جذبہ پاتے تھے۔ کیو ں کہ اس گروپ کا لیڈر حزب المجاہدین کا نو عمر کمانڈربرہان تھا۔

برہان کون تھا۔ وہ کوئی دیومالائی داستان کا کردار نہیں۔ بلکہ ایک حقیقت بن کر میدان میں نمودار ہوا۔دنیاکشمیر کی ماﺅںپر فخرکرے گی جو برہان جیسے بیٹوں کو جنم دی رہی ہیں۔ یہ مسلہ کشمیر کو بات چیت سے حل کرنے میں ناکامی کی حقیقت ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کی حقیقت۔ ترال کے ڈاڈسر، شریف آباد گاﺅں کا برہان ایک ہیرو تھا۔ اس کی بہادری اور شجاعت نے اسے ہیرو بنایا۔بھارت اس کے سر پر دس لاکھ روپے (18)لاکھ پاکستانی روپے کا انعام رکھنے پر مجبور ہوا۔کیوں کہ اس کے بارے میں کسی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آ رہی تھی کہ وہ کب کہاں پر حملہ آور ہو گا۔ دسویں جماعت کے امتحان میں شامل ہونے کے فوری بعد وہ گھر سے نکل پڑا۔بھارتی مظالم نے اسے یہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔آج کی نئی نسل بھارتی جارحیت کی چشم دید گواہ ہے۔ سب کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ 1931ءسے کشمیر کی پانچویں نسل یہ اس تحریک سے وابستہ ہو چکی ہے۔ آج کا نوجوان دلیل اور مشاہدہ پر یقین رکھتا ہے۔وہ دنیا بھر سے تبادلہ خیالات کر رہا ہے۔ اسے دھوکہ دینا اتنا آسان نہیں ہے۔

چھٹیوں میں طلباءکو خصوصی کورسز میں شامل کیا جاتا ہے۔ لیکن برہان نے اپنے لئے کورس کا انتخاب خود کیا۔ اس نے حزب المجاہدین میں شامل ہو کر جنگل کی راہ لے لی ۔ وہ اپنے شہداءکے مشن پر چل پڑا۔ اس کی آنکھوں میں قوم کی بے بسی تھی۔ انتقام کا جذبہ تھا۔2015میں برہان کے بڑے بھائی خالد مظفر وانی کو فورسز نے بے دردی سے شہید کردیا۔ جو پوسٹ گریجویٹ طالب علم تھا۔ وہ اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ برہان سے ملاقات کے لئے جنگل کی طرف جا رہا تھا۔ فوجیوں نے اسے گرفتار کیا۔ برہان کا بھائی ہونے پر اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ اور زیر حراست ٹارچر کرتے ہوئے اسے بے دردی سے شہید کر دیا۔کشمیر میں بھارتی فورسز نے ہمیشہ اسی پالیسی پر عمل کیا۔ ہمیشہ یہی پالیسی اختیار کی۔ بھائی کے بدلے بھائی اور بیٹے کے بدلے باپ کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ یا پابند سلاسل کر دیا۔ یہاں تک کہ خواتین اوربچوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ بھارت کا کوئی پروفیشنل کریکٹر نہیں۔ وہ پر امن عوام پر ریاستی دہشت گردی آزماتا رہا ہے۔

بڑے بھائی کی فوج کی زیر حراست یوں بے دردانہ شہادت کے بعد فورسز پر برہان کے حملے تیز ہو گئے۔ایک نہتے اور غیر مسلح یونیورسٹی طالب علم کی شہادت پر برہان کے ساتھی بھی مشتعل تھے۔انھوں نے جگہ جگہ فورسز کے کیمپوں اور گشتی پارٹیوں پر پے در پے حملے تیز کر دیئے۔ فورسز نے اس گروپ کی گرفتاری کے لئے کئی آپریشن کئے ۔لیکن وہ ناکام ہوئے۔ کیوں کہ عوام ان کا بھر پور ساتھ دے رہے تھے۔مگر ایجنسیاں اس حد تک کامیاب ہوئیں کہ بعض لوگ برہان کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے لگے۔سب اس گروپ کی جانب سے سوشل میڈیا پر سر گرمیاں مشکوک تصور کرتے تھے۔کیوں کہ خود کو منظر عام پر یوں لانا گوریلا جنگ کے اصولوں کے بر خلاف سمجھا جاتا ہے۔اس جنگ میں دشمن پر گھات لگا کر اور چھپ چھپ کر وار کرنا ہی بہترین حکمت عملی سمجھی جاتی ہے۔ آج برہان گروپ کے بارے میں وہ سب لوگ افسوس کرتے ہوں گے۔ جو بھارتی پروپگنڈہ مشینری کی زد میں آ گئے تھے۔کیوں کہ برہان نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے بھارتی فوج کے ساتھ لڑ کر شہادت کو ترجیح دی۔ برہان میںلوگ اپنی خوابوں کی تعبیر دیکھ رہے تھے۔مگر وہ کوکرناگ میں فوج اور ٹاسک فورس کے آپریشن میں لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ وہ ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔برہان کے والد مظفر وانی ترال میں گورنمنٹ ہائر سکینڈری سکول (انٹر کالج)میں پرنسپل ہیں۔ انہیں فخر ہے کہ ان کے دو بیٹے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ہیں۔

کشمیر میں مسلح تحریک کے ساتھ آبادی کی وابستگی کا یہ عالم ہے کہ اب لوگ مجاہدین کے فورسز کے ساتھ معرکے کی جگہ پہنچ کر چاروں اطراف سے فورسز پر پتھراﺅ شرو ع کر دیتے ہیں۔ وہ فوج کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا فائدہ اٹھا کر محاصرے میں پھنسے مجاہد وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔جب کوکر ناگ میں جھڑپ ہو رہی تھی۔ اس وقت بھی مقامی آبادی مجاہدین کو وہاں سے نکالنے کے لئے فوج پر حملہ آور ہوئی۔ فورسز پر چاروںا طراف سے پتھراﺅ کیا گیا۔ مقبوضہ ریاست میں اب یہ نئی روایت قائم ہو رہی ہے۔ جہاں بھی مجاہدین کا فوج کے ساتھ مقابلہ ہوتاہے ۔ مقامی آبادی فوج پر پتھراﺅ کرتی ہے۔ لوگ اب فوج کی گولی سے بالکل نہیں ڈرتے۔ بلکہ مجاہدین کو کسی بھی صورت میں فورسز کے چنگل سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ فوج کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ پہلے جب بھی کوئی جھڑپ ہوتی تھی یا کوئی آپریشن ہو تا، لوگ وہاں سے نکل کر محفوظ مقامات کی طرف چلے جاتے تھے۔ کئی روز وہ گھروں کو لوٹنے سے گریز کرتے۔ مگر اب لوگ فورسز آپریشن کو ناکام بنانے اور مجاہدین کی مدد کے لئے آپریشن کی جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ وہ بھارت کے خلاف اور آزادی کے حق میں نعرہ بازی شروع کر دیتے ہیں۔بھارتی فوج نے اس سلسلے میں کئی بار وارننگ بھی جاری کی ہیں۔عوام کو خبردار کیا گیا۔انہیں جھڑپ کی جگہ سے دور رہنے کی تاکید کی گئی۔ مگر عوام پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ لوگ اس تحریک کے پشتبانی کرتے ہیں۔

برہان وانی جب سے بھارت کے خلاف مضبوط آواز بن کر ابھرے ہیں اور انھوں نے اپنا چہرہ چھپائے بغیر فوج پر مسلح حملوں کا اعلان کیا ۔ تب سے فورسز کے لئے مشکل میں اضافہ ہو رہا تھا۔ برہان گروپ کے تمام مجاہدین نے بھی نقاب اتار دیئے ہیں۔ وہ اسلحہ کی نمائش کرتے رہے۔ سوشل میڈیا کا انھوں نے کھل کر استعمال کیا ہے۔کوکر ناگ جھڑپ میں برہان وانی اپنے دو ساتھیوں سمیت شہید ہوئے۔ مگر ان کے ساتھ والہانہ عقیدت اور ان کی بہادری اور شجاعت کو سلام پیش کرنے لوگ لاکھوں کی تعداد میں ترال پہنچے ۔ خواتین نے ان کی شان میں لوک گیت ” ون ون“گائے۔ مجاہدین نے انھیں گولیوں کی سلامی دی۔ اسلام اور آزادی کے حق میں نعرے لگاتے عوام نے وادی میں کرفیو توڑ دیئے۔ فوج پر حملے کئے۔ فوجی تنصیبات کو آگ لگا دی۔ بھارتی فورسز نے ریاستی دہشت گردی کا کھل کر مظاہرہ کیا۔تقریباً50 نوجوانوں کو گولیاں مار کر شہید کر دیا ۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔وادی کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔ نصف ماہ تک فورسز نے سخت کرفیو نافذ کئے رکھا۔ عوام نے کرفیو توڑ دیا ۔ بھارت کی عملداری کے خلاف شدید مزاحمت کی۔

آج پوری وادی میں شدید مظاہرے ہو رہے ہیں۔ بھارتی فورسز مظاہرین پر نشانہ باندھ کر فائرنگ کر رہے ہیں۔ مظاہرین پر مہلک ”پیلٹ گن“ سے فائرنگ کی جاتی ہے۔ پیپر گیس کا استعمال ہو رہا ہے۔ پیلٹ کی فائرنگ انسانی جسم کو گولیوں سے چھلنی کر دیتی ہے۔ یہ ایسا کارتوس ہے جس میں تقریباً 600چھرے ہوتے ہیں۔ بھارتی فورسز گزشتہ چند برسوں سے اس کا بے دریغ استعمال کر ہے ہیں۔ اس کی زد میں آ کر لا تعداد افراد جن میں خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے، شہید ہو چکے ہیں یا عمر بھر کے لئے آنکھوں سے محروم کر دیئے گئے ہیں۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارت مخالف مظاہروں میں تین سو سے زیادہ افراد شدید زخمی ہیں۔ جن میں سے ایک سو سے زیادہ ایک یا دو آنکھوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ بھارتی فورسز نے پانچ سال کی بچی سے 80سال کی بزرگ خواتین تک کو اس کا نشانہ بنایا ہے۔ آج ہسپتال بھارتی فوج کی فائرنگ اور پیلٹ گن فائرنگکے زخمیوں سے بھر چکے ہیں۔ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق چار ہزار افراد مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں جن میں سے 500کا آپریشن کیا گیا۔ ڈاکٹر پیلٹ گن فائرنگ کی وجہ سے بینائی سے محروم ہونے والوں کی روشنائی لوٹانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ کیوں کہ وہ اسے مہلک ترین چھرے قرار دیتے ہیں۔ جس کا بھارت میں کوئی علاج نہیں ہے۔ اس طرح بھارت کشمیریوں کو معذور بنانے اور انھیں اندھا کرنے کی پالیسی پر گامزن ہو چکا ہے۔ بھارت صرف کشمیر میں مہلک اسلحہ اور زہریلی گیسیں استعمال کر رہا ہے۔جس کی وجہ سے لوگ جسمانی اور ذہنی طور پر مفلوج بن رہے ہیں۔آج سیکڑوں لوگ زخمی ہیں۔بھارت کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم دنیا سے چھپا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے وادی سے شائع ہونے والے اخبارات پر پابندی لگا دی۔ اخبارات کے چھاپہ خانوں پر تالہ لگا دیئے اور اخباری کاپیاں ضبط کر لیں۔ کئی دنوں سے سرینگر کے اخبارات پر پابندی عائد رہی۔ بھارتی میڈیا اپنی فورسز کی جانب سے کشمیریوں کے قتل عام کا بلیک آﺅٹ کر رہا ہے۔ بھارتی میڈیا کی پالیسی جانبدارانہ اور کشمیر دشمنی پر مبنی ہے۔جو حقائق کو چھپانے میں مصروف ہے۔ مقبوضہ ریاست میں انٹر نیٹ اور موبائل سروسز بھی نصف ماہ سے بند ہیں۔ لوگ بھارت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔لیکن دنیا اس سے بے خبر ہے۔ یہ سب اصل میں بھارتی ہٹ دھرمی اور بات چیت پر سے عوام کااعتبار اٹھ جانے کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مایوس ہو کر ایک بار پھر بندوق کو ہی نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ وہ برہان کو اپنا ہیرو
اور رول ماڈل مانتے ہیں۔ ایک برہان کی شہادت کے بعد کشمیر میں سیکڑوں برہان پیدا ہو چکے ہیں۔

21سالہ برہان نے شروع میں منظر عام پر آتے ہی کشمیر میں ہندﺅں کی امرناتھ یاترا پر حملے نہ کرنے کا اعلان کیا۔ کیوں کہ کشمیری ہندﺅں یا کسی بھی مذہب کے پیروکاروں پر حملے کرنے کے مخالف ہیں۔ وہ ہندﺅں کی امر ناتھ یاترا یا کسی دیگر مذہبی تیوارکے مخالف نہیں۔ آج بھی یہ یاترا جاری ہے۔ جب وہ شہید ہوئے اس وقت بھی یاتراجاری تھی۔ کشمیری کبھی بھی غیر مسلموں کے مذہبی عقائد کے مخالف نہیں رہے۔لیکن بھارت نے اس یاترا کو سیاسی رنگ دے دیا ہے۔ وہ جنوبی کشمیر میں ماحولیات کو تباہ کر رہا ہے۔ یاتریوں کے لئے کشمیریوں کی اراضی پر ناجائز قبضہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں پر تعمیرات ہو رہی ہیں۔جبکہ کشمیری مجاہدین نے مقبوضہ ریاست میں پنڈت ہندﺅں کا تحفظ یقینی بنانے میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا۔ بزرگ پنڈتوں کی آخری رسومات بھی مسلم آبادی انجام دیتی ہے۔جبکہ ان کے نوجوان بچے بھارت کی شے پر دنیا بھر میں کشمیریوں کے خلاف پروپگنڈہ مہم چلا رہے ہیں۔زیادہ تر پنڈت آبادی کو گورنر جگ موہن نے کشمیریوں کی نسل کشی کرانے کے لئے کشمیر سے فرار کرایا۔ راتوں رات لاکھوں پنڈت وادی سے جموں اور بھارت کے شہروں میں چلے گئے۔انھوں نے کشمیر میں اپنے مکانات اور جائیدادیں فروخت کر دیں۔اب وہ کہتے ہیں کہ ان سے کشمیری مسلمانوں نے زبردستی جائیدادیں چھین لیں۔ یہ انتہائی گمراہ کن اور جھوٹا پروپگنڈہ ہے۔اس کے باوجود کشمیر میں موجود پنڈتوں کی حمایت میں مجاہدین نے خود کو پیش کیا۔برہان بھی عوام کی طرح کشمیر میںبھارت کی طرف سے الگ فوجی یا سینک بستیوں اور پنڈتوں کے لئے رہائشی کالونیوں کی تعمیر کی سختی سے مخالفت کر رہے تھے۔ کشمیری وادی سے فرار ہونے والے پنڈتوں کی واپسی کے حق میں ہیں۔ لیکن وہ واپس آ کر اپنے گھروں میں رہ سکتے ہیں۔ ان کے لئے اسرائیل طرز پر الگ بستیاں قائم کرنے کا مقصد جدوجید آزاد ی کو کچلنے اور تقسیم کشمیر کی سازش ہے۔بھارت کی تمام سازشیں عوام نے ناکام بنائی ہیں۔ کیوں کہ ان کی بنیاد نفرت اور تعصب پر کھڑی کی گئی ہیں۔بھارتی فوج میں ہندو انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر کا غلبہ ہو رہا ہے جو کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ مسلہ کشمیر کو حل کرنے کے بجائے قتل عام کی پالیسی پر چل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری مایوس ہو کر بندوق کی طرف رجوع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ عوام نے ہی کشمیر میں برہان اور ان کی سوچ کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔ برہان شہید ہو گئے مگر ان کا مشن ، ان کی سوچ زندہ ہے۔ کشمیری بھارتی فورسز کے بدترین مظالم کے باوجود سینہ سپر ہیں۔ وہ آزادی کی جدوجہد سے دست کش ہونے پر تیار نہیں۔ دنیا کشمیر میں کشیدہ حالات سے بے خبر ہے۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام رائے شماری کی جدوجہد کو کچلنے کے لئے بھارت مظالم اور بدترین تشدد کا سہارا لے رہا ہے۔ مگر وہ تمام حربے بروئے کار لانے کے باوجود آزادی کی جدوجہد کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے