’اسلام کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں‘، پوپ فرانسس

پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ اگر متشدد اسلام کی بات کی جائے تو پھر انہیں یہ بھی کہنا پڑےگا کہ کیتھولک مذہب بھی پر تشدد ہے کیوں کہ وہاں بھی ایسی تاریخ رہی ہے۔ پوپ فرانسس کا کہنا ہے کہ اسلامک سٹیٹ نے اپنی شناخت متشدد جماعت کے طور پر کرائی ہے…

[pullquote]ورلڈ یوتھ ڈے کے اجتماع میں شرکت کے بعد پولینڈ کے شہرکراکوف سے روم واپسی پر جب صحافیوں نے گزشتہ رات پوپ فرانسس سے سوال کیا کہ دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کبھی ’اسلام ‘ کا لفظ استعمال کیوں نہیں کیا، تو پوپ فرانسس کا جواب کچھ یوں تھا، ’’اسلام کو تشدد کے ساتھ جوڑنا درست نہیں ہے۔ ہر مذہب میں ایک مختصر جماعت بنیاد پرستوں کی بھی ہوتی ہے۔‘‘
[/pullquote]

انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ اسلام میں تشدد کی بات کریں گے تو پھر انہیں یہ بھی کہنا پڑےگا کہ کیتھولک مذہب بھی پر تشدد ہے کیوں کہ کیتھولک کلیسا میں بھی ایسی تاریخ رہی ہے۔ دہشت گرد ملیشیا ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا ذکر کرتے ہوئے پوپ فرانسس کا موقف تھا کہ داعش یا ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے اپنی شناخت ایک متشدد جماعت کے طور پر بنائی ہے تاہم اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس سے قبل مسیحیوں کے روحانی پیشوا پاپائے روم فرانسس نے کہا تھا کہ اب ایک ایسی’’نئی طرز انسانیت‘‘ پر یقین رکھنے کی ضرورت ہے، جو برائی اور ایسی سوچ کے خلاف ہو، جس میں ایک مذہب کو دوسرے مذاہب کے مقابلے میں زیادہ پُر تشدد گردانا جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پوپ فرانسس نے گزشتہ روز پولینڈ کے شہر کراکوف کے قریب ایک وسیع سبزہ زار میں ورلڈ یوتھ ڈے کے اختتام پر دنیا بھر سے جمع لاکھوں نوجوان شرکاء سے اپنے خطاب کے دوران کیا تھا۔

ورلڈ یوتھ ڈے کا آغاز پوپ جان پال دوئم نے کیا تھا اور اس کا پہلا اجتماع 1986ء میں روم میں ہوا تھا۔ کراکوف میں ہونے والے پروگرام کے منتظمین کے مطابق ایک اعشاریہ پانچ ملین سے زائد نوجوان پوپ فرانسس کے خطاب کو سننے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ ورلڈ یوتھ ڈے کے موقع پر پوپ فرانسس نے لاکھوں نوجوان افراد سے خطاب کیا… پوپ فرانسس نے اس بہت بڑے مذہبی اجتماع کے آخری روز اپنے خطاب میں کہا، ’خدا ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم برائی کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہونے کی ہمت پیدا کریں‘:’’وہ چاہتا ہے کہ ہم سب سے محبت کریں حتٰی کہ اپنے دشمنوں سے بھی۔‘‘

اس اجتماع کے آغاز پر پاپائے روم نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا تھا کہ بہت سے افراد اور ممالک اپنے وطن سے ہجرت کرنے والوں کو خاطر خواہ طور پر خوش آمدید نہیں کہہ رہے۔ جمعے کے روز پوپ فرانسس نے آؤشوٹس کے اذیتی کیمپ میں جا کر پندرہ منٹ کی خاموشی اختیار کرتے ہوئے نازی دور کے مظالم کا شکار بننے والے افراد کے لیے دُعا بھی کی تھی۔ خیال رہے کہ پیرس میں سن 2015ء کے اوائل میں ہونے والے انتہا پسندانہ حملوں کے بعد سے ایسے خدشات نے جنم لیا تھا کہ مسیحی پادریوں کو بالعموم اور سب سے با اثر مسیحی رہنما ہونے کے حوالے سے پوپ فرانسس کو بالخصوص کسی دہشت گردانہ کارروائی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے