ایک فلاحی ادارے کی "اصلیت”

رضیہ سلطانہ نامی خاتون سے میری پہلی ملاقات باغبان نامی نجی ادارے میں ہوئی تھی یہ ادارہ غربیوں اور بےسہارا افراد کو سائبان فراہم کرتا ہے۔ مدرز ڈے پر رپورٹ بنانے کے لیے میں نے باغبان والوں سے رابطہ کیا تھا۔ وہاں پہنچ کر مجھے پہلے چاندی چوک کے قریب باغبان کے مرکزی دفتر بلایا گیا۔۔ تنگ سیڑھیوں سے اوپر جاتا رستہ اوپر کسی بہترین عمارت کی نشاندہی نہیں کر رہا تھا۔۔ بالحال بتایا گیا کہ کچھ دور کرائے کی عمارت میں خواتین کو رکھنے کا انتظام کیا گیا ہے جہاں خواتین تحفظ کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر رہی ہیں۔۔

حاجی صاحب (باغبان کے اونر جو تقریبا ساٹھ سال کے باریش بزرگ ہیں) کے ہمراہ ہم تین کمروں پر مشتمل چھوٹے سے صاف سھترے گھر پہنچے۔ وہاں رضیہ سلطانہ، اور ایک اور بچی جسے ماں باپ کی وفات کے بعد بھائی بھابھی نے گھر سے نکال دیا تھا رہائش پزیر تھی۔۔ ان دونوں خواتین کے ساتھ ایک اٹھائیس سے تیس سال کی پھرتیلی سے خاتون نظر آئی معلوم ہوا وہ حاجی صاحب (باغبان کے اونر) کی دوسری اہلیہ ہے۔ جو ان خواتین کے ساتھ رہائش پزیر ہیں۔ حاجی صاحب نے بتایا کہ ادارہ بےسہارا مردوں اور عورتوں کو رہائش اور کھانے پینے کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔
رضیہ سلطانہ بہت مدبر سی خاتون تھی۔ ان کا پہلا تاثر ہی پڑھی لکھی اور مہذب خاتون کا تھا۔۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر سرکاری ملازم تھے اور بیس گریڈ کے افسر تھے۔ خود رضیہ سلطانہ نے سوشیالوجی میں ماسڑز کر رکھا ہے۔۔ ان کے شوہر کی پہلی بیوی چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئی تھی۔۔ انہوں نے شوہر کے بچوں کو پالا پوسا بچوں کے ساتھ پیار محبت کا رشتہ تھا شوہر کی وفات کے بعد ان کی جائیدار کا معاملہ سامنے آیا۔ پوش ائیریا میں دو کنال کے گھر میں وہ بھی اپنے سوتیلے بچوں کے ساتھ حصہ دار تھی اس کے علاوہ بینک بیلینس وغیرہ بھی تھا۔ سوتیلے بچوں نے کہا کہ گھر بیچ کر آپ اپنا حصہ لے لیں اور ہمیں ہمارا حصہ دے دیں۔ اگرچہ خاتون اپنے شوہر کی نشانی وہ گھر بیچنا نہیں چاہتی تھی مگر اولاد کے سامنے ہار مان گئیں۔۔ اس طرح گھر بک گیا۔۔ اور پھر اولاد بھی لاتعلق ہو گئی اپنی اپنی زندگیوں میں گم کسی نے بھی ماں کو پلٹ کر نہ پوچھا۔۔ بےسہارا ہو کر انہوں نے اپنے بہن بھائیوں سے رابطہ کیا مگر سبھی اپنی اپنی مجبوریوں کا بہانہ بناتے ان کو ٹالتے رہے۔ ایسے میں ان کو کسی نے اس ادارے کے بارے میں بتایا اور وہ یہاں آ کر رہنے لگی۔

بحرحال کبھی کبھار ان خاتون سے رابطہ رہتا تھا۔ کچھ عرصے سے وہ کافی پریشان محسوس ہو رہی تھی۔۔ دو روز پہلے ان کا فون آیا کہنے لگیں بیٹا میں بہت پریشان ہوں۔ میں نے پوچھا کیا ہوا کہنے لگیں زارا میں یہاں نہیں رہنا چاہتی۔۔ میں یہاں پر اپنے شوہر کی پینشن سے گزارا کر رہی ہوں۔ کھانے پینے سمیت تمام اخراجات میرے اپنے ہیں مگر اب حاجی صاحب کی دوسری بیوی مجھے پریشرائز کر رہی ہے کہ اپنا پیسہ اور باقی رہ جانے والی جائیداد میرے نام کر دو۔۔ مجھے بتاو میں کیسے ان کے نام کردوں۔ اور شاید میں کر بھی دیتی میرا کون ہے مگر اس طرح مانگ کر اور دباو ڈال کر یہ ثابت کر رہی ہیں کہ یہ لالچی اور مفاد پرست ہیں۔ مجھے کسی ہوسٹل یا ایسی جگہ کا پتہ دو جہاں میں رہ سکوں میں الگ کمرہ افورڈ کر سکتی ہوں مگر اکیلی خاتون کے لیے رہنا مشکل ہے۔۔

باغبان کے مردوں کے لیے بنائے گئے سینٹر میں بھی کچھ عرصہ پہلے جانے کا اتفاق ہوا۔۔ وہ بھی تین ہی کمروں پر مشتمل ایک گھر تھا جس میں داخل ہوتے ہی بدبو کے اٹھتے بھبھکوں نے استقبال کیا۔۔ سات لوگ اس سینٹر میں رہائش پزیر تھے۔ کچھ افراد کی پینشن آتی ہے اور کچھ کے اکاونٹ میں معقول رقم موجود ہے۔۔ وہاں سے نکلتے وقت میں آفس میں گاڑی میں بیٹھنے لگی تو آس پاس کے ایک دو لوگ آئے جہنوں نے کہا کہ ان لوگوں کے ساتھ یہاں اچھا سلوک نہیں کیا جاتا شدید گرمی میں یہ سارا دن برف ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ تاہم ادھر رہنے والوں میں سے کسی نے شکوہ نہیں کیا تھا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے حاجی صاحب خود وہاں موجود تھے۔

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا باغبان جیسے اداروں میں بھی لوٹ مار کا بازار گرم ہے غریبوں اور بے سہاروں کے نام پر بنائے گئے ادارے اور ان کے نام پر لیے جانے والے فنڈز کدھر جاتے ہیں۔ مال و دولت کی ہوس میں مبتلا لوگ رفاہی کاموں کی آڑ میں کیسے لوگوں کی مجبوریوں کا سودا کر رہے ہیں۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ ایسے لوگوں کو بےنقاب کرے اور عوام کو بھی اپنے اردگرد صرف دہشتگردوں پر ہی نظر نہ رکھے بلکہ ایسے نام نہاد اداروں کی نشاندہی کرے جو فلاحی کاموں کی آڑ میں اپنا الو سیدھا کر رہی ہیں۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے