عمران خان کے کھوٹے سکے

پانچ برس ہونے کہ جب عمران خان کی جماعت نے اپنی سیاسی طاقت کو منوایا سچ پوچھئے تو 30اکتوبر2011ء وہ دن تھا جس دن ایک بہت بڑے طبقے نے تحریک انصاف سے انقلابی امیدیں وابستہ کیں یہ وہ دن تھا جس نے جاوید ہاشمی جیسے سیاستدان کو تحریک انصاف میں شمولیت کیلئے مجبور کر دیا پھر جوق در جوق سیاستدانوں کا سمندر تحریک انصاف کا حصہ بن گیا اور اسکے بعد ایک طوفان اٹھا ‘بد انتظامی کا ایسا طوفان جس سے تحریک انصاف کی تنزلی کے سفر کا آغاز ہوا ‘عمران خان کا طرز سیاست روز اول سے ہی جارنہ تھا عمران خان اس ملک کے مسائل تو جان گیا لیکن وہ اس نظام کی خامیوں سے مفاہمت کیلئے کبھی تیار نہ ہوا مجھے تحریک انصاف کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا میں دیکھا عمران خان کا خوف کسی کارکن میں نہیں کچھ’’ لیڈروں ‘‘کے سوا ‘یا یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ 2011ء سے قبل کی قیادت عمران خان کے سامنے بھی حق اور سچ بات بے خوف و خطر کرنے کا حوصلہ رکھتی تھی ‘سب سے اہم بات کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کوباربار یاد دلایا جاتا کہ تحریک انصاف کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک ادارہ ہے اس جماعت کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ عوا می حقوق کی آگاہی اور انصاف کیلئے آواز بلند کر نا ہے‘ موروثی سیاست کے خاتمے کا نعرہ بھی بہت کار آمد ثابت ہوا اور پھر کروڑوں لوگوں نے دیکھا کہ کل تک موروثی سیاست کو کند ھا دینے والے آج عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں باقی تاریخ ہے۔

ایک مخصوص طبقے نے محض عہدوں کی خاطر تحریک انصاف کا انتظامی ڈھانچہ اس کمال ذہانت سے تباہ کیا کہ عقل حیران رہ گئی اور جو بھی اس ٹولے کے مقاصد میں رکاوٹ بنا اسے پارٹی یا اصولوں میں سے کسی ایک چیز کی قربانی دینا بڑی ایک واضح مثال این اے 54کی سابق امیدوار محترمہ حناء منظور کی ہے جنہوں نے پارٹی میں اصول اور جمہوریت کی بات کی تو ان کا پارٹی میں رہنا دشوار کردیا گیا ‘ انٹرا پارٹی الیکشن میں جسطرح جعلی ووٹ ڈالے گئے اس سے بھی ہم سب خوب واقف ہیں ٹیکسلا کی ایک ’’معتبر‘‘ شخصیت نے پارٹی الیکشن ماننے سے صاف انکار کردیا اور بالاآخرانہیں جنوبی پنجاب کی صدارت سے نوازا گیا کہا جاتا ہے کل تک عمران خان کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے والا اور بعد میں جنوبی پنجاب کے جنرل سیکرٹر ی کے عہدے سے نوازا جانے والا شخص دوہری شہریت تو رکھتا ہی ہے ساتھ ساتھ قبضہ گروپوں کا سر غنہ بھی ہے ‘کل ہی خبر بڑھ رہا تھا کہ پنجاب سے تحریک انصاف کے ایم پی اے پر الزام ہے کہ اس نے کچھ غرباء کی زمین ہتھیا رکھی ہے

عاطف خان نے اپنے لیڈر کیلئے مسائل پیدا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی‘صوبائی وزیر تعلیم سے کیا گلہ وہ تو پہلی بار پاور میں آئے ناجانے اور کتنے ہیں جو تحریک انصاف کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں اور عمران خان کو خبر تک نہیں ‘کچھ ایسے بھی ہیں اہم ترین عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود جن کے دل نہیں بھرے ذاتی مفاد کیلئے جنہوں نے پارٹی داؤ و پر لگا دی وہ پارٹی جو کروڑوں لوگوں کی امیدوں کا مرکز ہے‘ اس وقت میری حیرانگی کی انتہا نہیں رہتی جب عمران خان ایک طرف جہانگیر ترین اور دوسری طرف شاہ محمود قریشی کو کھڑا کر کے تبدیلی کا نعرہ لگا تے ہیں میںیہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ذاتی جہازوں پر گھومنے والے کیسے تبدیلی لائینگے‘وہ جن کے گھروں میں ملازمین پر جوتے اتارے رکھنا لازم ہووہ کیا تبدیلی لائینگے…!

تین سال قبل پریس کانفرنس میں ایک خاتون میڈیا ورکرنے عمران خان سے گلہ کیا کہ جہانگیر ترین کے ٹی وی چینل میں کا م کرتی ہوں مجھ سمیت درجنوں لوگ چھ ماہ کی تنخواہوں سے محروم ہیں آپ کچھ کریں تو عمران خان کا جواب تھا یہ ان کا کاروباری معاملہ ہے میں جس میں دخل اندازی نہیں کر سکتا اب وہی عمران خان نواز شریف کو اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ وہ سیاست کے ساتھ کاروبار کیوں کرتے ہیں اب اگر میں یہ کہہ دو ں کہ یہ میاں صاحب کے کاروبار ہی ہیں جو عمران خان کو سیاست کیلئے مرکزی نقطہ فراہم کر رہے ہیں تو تحریک انصاف کے جوشیلے کارکن مجھے پل بھر میں لیگی ثابت کر دینگے باقی رہا حکمرانوں کے کاروبار میں ’’ملوث‘‘ ہونے کا (یہاں میں واضح کرتا چلو کے پانامہ لیکس سے پہلے بھی عمران خان کو شریف برداران کے کاروبار پر اعتراض تھا )معاملہ تو تحریک انصاف میں کتنے ہی ایسے انصافین موجود ہیں جو سرکاری عہدے کیساتھ ساتھ کاروبا ربھی کرتے ہیں۔

خیبر پختونخواہ اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر سکول اور کالجز کا وسیع نیٹ ورک چلا رہے ہیں ‘تحریک انصاف میں اپنی جماعت ضم کرنے والے صوبائی وزیر صحت شہرام ترکئی اور ان کا خاندان بھی ایک بڑا کاروباری گروپ ہے کچھ مزید نام بھی ہیں وقت آنے پر جو عوام کے سامنے رکھ دیے جائینگے میری اس تمام تر تہمید کامقصد یہ ہے کہ عمران خان کو اب یہ جان لینا چاہئے کہ کھوٹے سکوں کیساتھ کبھی قلعے فتح نہیں کئے جاسکتے اگر خان صاحب واقعی تبدیلی کے خواہاں ہیں تو اپنی جیب کو کھوٹے سکوں سے پاک کریں گو کہ قوم پل بھر میں تبدیلی کی متمنی ہے لیکن بطور لیڈر عمران خان کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ قوموں کو منزل کے حصول کیلئے ایک مدت درکار ہوتی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کی احتجاجی سیاست نے نواز اینڈ کمپنی کی نیند یں اُڑا رکھی ہیں لیکن اس کے باوجود 2018ء سے قبل کسی تبدیلی یا انقلاب کی کوئی امید نہیں2018ء کا معرکہ ہی فیصلہ کن ہوگا اور ناکامی کی صورت میں تحریک انصاف کواقتدار کی جنگ سے باہرنکل بقاء کی جنگ لڑنا پریگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے