بین الاقوامی قانون کے اصول اور ”آزادی کی جنگ“کا جواز

کسی حکومت کے خلاف لوگوں کی مزاحمت کے کئی مراحل ہوتے ہیں اور اس کی شدت کے بھی کئی درجے ہوتے ہیں۔ ہر طرح کی مخالفت یا مزاحمت کو بغاوت یا آزادی کی جنگ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ (م ۲۰۰۲ ء) نے اسلامی قانون میں بغاوت کے تصور پر بحث کے دوران میں اس مخالفت اور مزاحمت کے پانچ مراحل کا تذکرہ کیاہے:

۱۔ اگر مخالفت کسی حکومتی اقدام کے خلاف ہو اور کسی قسم کا انقلاب مقصود نہ ہو تو یہ ”احتجاج“ ہے۔
۲۔ اگر احتجاج سے مقصود کسی جائز حکومت کو ناجائز طریقے سے ہٹانا ہو تو یہ ”غدر“ہوجائے گی۔
۳۔ اس کے برعکس اگر کسی ناجائز حکومت کو ہٹا کر جائز حکومت قائم کرنا مقصود ہو تو اسے ”آزادی کی جنگ“ کہا جائے گا۔
۴۔ اگر مزاحمت کار حکومت کے تسلط سے کسی علاقے کو چھڑا کر وہاں متوازی حکومت قائم کریں تو اسے ”بغاوت“ کہا جائے گا۔
۵۔ اگر باغی اتنے طاقتور ہوں کہ وہ مرکزی حکومت کے متوازی حکومت چلائیں اور مرکزی حکومت ان کو قابو میں نہ لاسکے لیکن وہ مکمل آزادی بھی حاصل نہ کرپائے ہوں تو اسے ”خانہ جنگی“ کہا جائے گا۔

بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی روشنی میں جنگوں کی دو قسمیں ہیں: بین الاقوامی تصادم اور غیر بین الاقوامی تصادم۔ چونکہ غیر بین الاقوامی تصادم ایک ہی ریاست کے اندر مرکزی حکومت اور باغیوں کے درمیان یا دو متحارب گروہوں کے درمیان ہوتا ہے اس لیے عموماً ریاستیں اسے اپنا ”اندرونی معاملہ“قرار دے کر بین الاقوامی قانون کے دائرہ کار سے باہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ البتہ آداب القتال کے متعلق بین الاقوامی قانون (International Humanitarian Law)کے کچھ حصے کا اطلاق خانہ جنگی پر بھی ہوتا ہے۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ کسی ریاست کے اندر حکومت کے خلاف ہونے والے ہر طرح کے مظاہروں کو غیر بین الاقوامی ”مسلح تصادم“ نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں تک پر تشدد مظاہروں کو بھی امن و امان کا مسئلہ قرار دے کر ملک کا اندرونی معاملہ کہا جاسکتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مظاہرین یا ”شرپسندوں“ کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوں تو فوجی یا نیم فوجی دستوں کو ان کی مدد کے لیے بھی بلایا جاتا ہے لیکن تب بھی اسے جنگ نہیں کہا جاسکتا۔
البتہ بعض علامات ایسی ہیں جن کی موجودگی میں کہا جائے گا کہ یہ محض امن و امان کا مسئلہ نہیں بلکہ ”مسلح تصادم“ یا جنگ ہے۔ مثال کے طور پر یا اگر مزاحمت کا سلسلہ ایک طویل عرصے پر محیط ہوجائے یا مزاحمت میں ہونے والا جانی و مالی نقصان بہت زیادہ ہو؛ یا حکومت خود تسلیم کرلے کہ یہ محض امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے اور وہ مزاحمت کاروں سے نمٹنے کے لیے فوج کو تمام اختیارات دے دے؛ یا اگر حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ کسی علاقے میں اپنی حکومت قائم کرلیں اور ریاستی حکومت کی باقاعدہ مزاحمت کریں۔

واضح رہے کہ مقبوضہ علاقوں (Occupied or Colonial Territories) میں کی جانے والی وہ مزاحمت جو غیروں کے تسلط کے خلاف کی جائے ، تو اسے قابض ریاست کا ”اندرونی معاملہ“نہیں کہا جاسکتا، نہ ہی اس تصادم کو ”غیر بین الاقوامی“کہا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جن علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے آزادی کا حق تسلیم کرلیا ہو وہاں آزادی کے لیے کی جانے والی مسلح جد و جہد کو حکومت اپنا اندرونی معاملہ نہیں قرار دے سکتی۔ پس جن لوگوں کو پہلے درجے کا حق ارادیت حاصل ہے ان کی مسلح جد و جہد بہر حال بین الاقوامی مسلح تصادم ہے۔

جہاں تک دوسرے درجے کا حق ارادیت رکھنے والے لوگوں کا تعلق ہے ان کی جد و جہد ابتدا میں ریاست کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے۔ تاہم جب وہ جد و جہد احتجاج کے مرحلے سے آگے بڑھ کر مسلح تصادم کی صورت کی اختیار کرلیتی ہے تو اس پر بین الاقوامی قانون کے کچھ حصے کا اطلاق ہوتا ہے۔ پھر جب یہ جد و جہد آزادی کی جنگ میں تبدیل ہوجاتی ہے تو جنیوا معاہدات کے پہلے پروٹوکول کی تصریح کے مطابق یہ بھی بین الاقوامی مسلح تصادم ہوجاتی ہے۔ اس بین الاقوامی تصادم پر جنگ کے جواز اور عدم جواز کے قانون کا بھی اطلاق ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اس پر آداب القتال کے متعلق رواجی قانون، اس قانون کے قواعد عامہ، چاروں جنیوا معاہدات اور پہلے اضافی پروٹوکول کا بھی اطلاق ہوتا ہے۔

آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے پاس تین راستے ہوتے ہیں:

۱۔ روایتی جنگ (Conventional Warfare)؛
۲۔ چھاپہ مار کاروائی (Guerrilla Tactics)؛ اور
۳۔ دہشت گردی (Terrorism)۔

چونکہ مزاحمت کاروں کا سامنا ایک طاقتور حریف سے ہوتا ہے اس لیے ابتدا میں روایتی جنگ کے طریقے کو نہیں اپنایا جاتا بلکہ چھاپہ مار کاروائی یا دہشت گردی کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ چینی لیڈر ماؤزے تنگ کو چھاپہ مار کاروائی کے بڑے ماہرین میں سمجھا جاتا ہے۔ وہ چھاپہ مار کاروائی کی اہم خصوصیات کی توضیح ان الفاظ میں کرتے ہیں:

Guerrilla strategy must be based primarily on alertness, mobility and attack. It must be adjusted to the enemy situation, terrain, the existing lines of communication, the relative strengths, the weather and the situation of the people… In guerrilla warfare, select the tactic of seeming to come from the east and attacking from the west; avoid the solid, attack the hollow; attack; withdraw; deliver a lightening blow, seek a lightening decision. When guerreilla engage a stronger enemy, they withdraw when he advances; harass him when he stops; attack him when he is weary; pursue him when he withdraws. In guerrilla strategy, the enemy’s rear, flanks and other vulnerable spots are his vital points, and there he must be harassed, attacked, dispersed, exhausted and annihilated.

گوریلا کاروائی اور دہشت گردی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ گوریلا کاروائی میں مخالف فریق کے فوجی ٹھکانوں اور تنصیبات کو ہدف بنایا جاتا ہے، اور کبھی کبھار اہم اقتصادی ہدف بھی مد نظر ہوتا ہے، جبکہ دہشت گردی کا شکار بالعموم نہتے شہری ہوتے ہیں۔ چونکہ گوریلا کاروائی اور دہشت گردی کمزور فریق کے ہتھیار ہیں اس لیے کامیابی کے حصول کے لیے جلد یا بدیر روایتی جنگ کا طریقہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔

مزاحمتی تحریکوں کو چار طریقوں سے مدد فراہم کی جاسکتی ہے: اخلاقی مدد، سفارتی مدد، مادی مدد اور محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنا۔ اخلاقی مدد یہ ہے کہ انفرادی سطح پر یا سرکاری طور پر مزاحمت کاروں کے ساتھ ”ہمدردی“ظاہر کی جائے، ان کے ساتھ کیے جانے والے ”مظالم“ کا ذکر کیا جائے، ان کے ”حوصلے اور ہمت“کی داد دی جائے، انہیں ”آزادی کے متوالے“، ”مجاہدین“ یا اس طرح کے دیگر القابات دیے جائیں، وغیرہ۔ سفارتی یا سیاسی مدد سے مراد یہ ہے کہ سفارتی سطح پر مزاحمت کاروں کے مقصد کے حصول میں ان کی مدد کی جائے، ان کی حمایت میں دیگر ریاستوں کو قائل کرنے کی کوشش کی جائے، ان کے مخالف فریق پر بین الاقوامی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جائے، وغیرہ۔ عموماً اخلاقی مدد اور سفارتی مدد ساتھ ساتھ دی جاتی ہے۔ تاہم بعض اوقات ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی ریاست صرف اخلاقی مدد دینے پر اکتفا کرے۔ مادی مدد سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ مزاحمت کاروں کو اسلحہ فراہم کیا جائے، بلکہ ان کو معلومات فراہم کرنا، انہیں تربیت دینا، ان کو ریڈیو، وائر لیس اور دیگر ذرائع سے مختلف لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کی سہولت فراہم کرنا، انہیں خوراک، ادویات اور دیگر ضروریات کی فراہمی وغیرہ سبھی کچھ اس میں شامل ہے۔ محفوظ پناہ گاہ کسی بھی مزاحمتی تحریک کی کامیابی کے لیے از بس ضروری ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جتنی بھی مزاحمتی تحریکیں دنیا کے مختلف خطوں میں اٹھی ہیں ان کی کامیابی یا ناکامی میں محفوظ پناہ گاہ کی موجودگی یا عدم موجودگی نے نہایت اہم کردار اداکیا ہے۔

آزادی کی جنگ کے سیاق میں طاقت کے استعمال کے جواز پر چار مختلف زاویوں سے بحث کی جاسکتی ہے۔

اولاً: کیا ریاست کے لیے جائز ہے کہ آزادی مانگنے والوں کے خلاف فوجی کاروائی کرے؟
ثانیاً: کیا دیگر ریاستیں آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے اس ریاست کی فوجی مدد کرسکتی ہیں؟
ثالثاً: کیا آزادی مانگنے والے اس مقصد کے لیے مسلح جد و جہد کرسکتے ہیں؟
رابعاً: کیا دیگر ریاستیں آزادی مانگنے والوں کو مدد فراہم کرسکتی ہیں؟
ہم پہلے دو مسائل پر پہلے بحث کریں گے۔ اس کے بعد باقی دو مسائل پر بحث آسان ہوجائے گی۔
اولاً: آزادی مانگنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال
یہاں قانونی جواز و عدم جواز کے تعین کے لیے جس بات کا تعین پہلے نہایت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کیا آزادی مانگنے والوں کا مسئلہ کسی ریاست کا ”اندرونی مسئلہ“ ہے؟

ہم واضح کرچکے ہیں کہ جن علاقوں پر غیروں کا تسلط ہو وہاں کے لوگ اگر آزادی مانگیں تو یہ قابض ریاست کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اس لیے قابض ریاست کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ وہ ان لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرے۔ چنانچہ ہم نے جنرل اسمبلی کی جتنی قراردادوں کا حوالہ دیا ان سب میں تصریح کی گئی ہے کہ حق خود ارادیت کے لیے جد و جہد کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال ناجائز ہے۔ یہی اصول ان دیگر لوگوں کے لیے بھی جنہیں پہلے درجے کا حق خود ارادیت حاصل ہے۔

جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جنہیں دوسرے درجے کا حق خود ارادیت حاصل ہے تو اگر وہ علیحدگی کی کو شش کریں گے تو ریاست اسے ”بغاوت“ قرار دے کر اس کے خلاف طاقت کا استعمال کرسکتی ہے۔ ابتدا میں اس مسئلے کو وہ ریاست اپنے ریاستی قوانین کے ذریعے ہی حل کرے گی۔ تاہم اگر یہ مسئلہ محض امن و امان کی بحالی کی حد تک نہیں رہا بلکہ اس نے آگے بڑھ کر”مسلح تصادم“ کی شکل اختیار کرلی تو، جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا، چاہے یہ بین الاقوامی تصادم نہ ہو اس پر بین الاقوامی قانون کے کچھ حصے کا اطلاق ہوتا ہے جس کی پابندی ریاست پر لازم ہوگی۔

مزید برآں، اگر کسی ریاست کا اندرونی معاملہ بین الاقوامی امن کے لیے خطرے کا باعث بنے تو سلامتی کونسل کو فوجی کاروائی کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ بھی واضح کیا جاچکا کہ جب یہ مسلح تصادم باقاعدہ جنگ آزادی کی صورت اختیار کرلے تو یہ بین الاقوامی تصادم میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

یہاں اس بات کی طرف بھی توجہ رہے کہ معاصر دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بین الاقوامی برادری سخت ردعمل کا اظہار کرتی ہے خواہ کوئی ریاست خود اپنے ہی لوگوں کے خلاف کارروائی کررہی ہو۔ اس ضمن میں ٹیکنالوجی کے ارتقا اور بالخصوص سوشل میڈیا کے دباو نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔اس لیے خواہ معاملہ آزادی کی جنگ کا ہو یا اندرونی خودمختاری اور حقوق کے تحفظ کا، اب کلیتاً ریاست کا اندرونی معاملہ نہیں رہا۔

باقی رہا یہ سوال کہ کیا آزادی یا علیحدگی کی تحریک کو دبانے کے لیے ایسی ریاست کو مدد فراہم کرنا جائز ہے؟ تو اس کا انحصار اس پر ہے کہ خود اس ریاست کی جانب سے ان لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال جائز ہے یا ناجائز۔

ثانیاً: آزادی کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال

مزاحمت اور آزادی کی جنگ پر بحث دو مختلف زاویوں سے کی جاسکتی ہے۔ ایک صورت یہ ہے کہ کسی علاقے پر غیروں کی جانب سے حملہ ہو اور وہاں کے لوگ اس حملے کے خلاف مدافعت اور مزاحمت کے لیے کھڑے ہوں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی ریاست کے اندر مقیم کوئی گروہ اس ریاست سے علیحدگی اور آزادی کے لیے مسلح جد و جہد کی راہ اختیار کرلے، یا کسی ریاست پر بیرونی قبضہ مکمل ہونے کے بعد وہاں کچھ لوگ اس قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کریں۔ پہلی صورت اضطراری ہے اور دوسری صورت اختیاری۔ پہلی صورت میں مزاحمت اور جنگ کے جواز پر بین الاقوامی قانون کے ماہرین میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دوسری صورت تفصیل کی متقاضی ہے۔

یہ مسئلہ مغربی ممالک اور تیسری دنیا کے ممالک کے درمیان ابتدا ہی سے اختلاف کا باعث رہا۔ چونکہ مغربی طاقتوں نے تیسری دنیا پر قبضہ کیا تھا اس لیے آزادی کے لیے لڑنے والوں کو انہوں نے دہشت گرد قرار دیا۔ اس کے برعکس تیسری دنیا کے ممالک میں آزادی کی جنگ کو نہ صرف جائز بلکہ ایک قابل فخر اور قابل تقلید کام گردانا گیا۔ 1960ء کے عشرے سے چونکہ جنرل اسمبلی میں تیسری دنیا کے ممالک کو اکثریت حاصل ہوگئی تھی اس لیے اسمبلی کی قراردادوں میں ایک طرف آزادی کے لیے جد و جہد کرنے والوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو ناجائز قرار دیا گیا تو دوسری طرف آزادی کے حصول کے لیے جد و جہد اور اس مقصد کے لیے باہر سے مدد کے حصول کی کوشش کو بھی جائز قرار دیا گیا۔ تاہم مغربی ممالک کے اصرار پر ساتھ ہی یہ شق بھی شامل کی جاتی رہی کہ کسی ریاست کے اندر علیحدگی کی تحریکیں برپا کرانا یا ان کی مدد کرانا تاکہ وہ ریاست ٹکڑوں میں بٹ جائے ناجائز ہے۔

یہاں پھر وہی مسئلہ اہمیت حاصل کرلیتا ہے کہ کیا آزادی کی جنگ کسی ریاست کا اندرونی معاملہ ہے؟ چونکہ مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کی آزادی کی جد و جہد قابض ریاست کا اندرونی معاملہ نہیں ہے اس لیے اوپر مذکور شق کا اطلاق اس جد و جہد پر نہیں ہوتا۔ یہی اصول ان دیگر لوگوں کے لیے بھی جنہیں پہلے درجے کا حق خود ارادیت حاصل ہے۔

البتہ جن لوگوں کو دوسرے درجے کا حق خود ارادیت حاصل ہے انہیں چونکہ علیحدگی کا حق حاصل نہیں ہے اس لیے اصولاً ان کے لیے مسلح جد و جہد جائز نہیں ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اگر انہیں ان کے حقوق سے ریاستی جبر کے ذریعے محروم رکھا جارہا ہو تو کیا وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ہتھیار نہیں اٹھاسکیں گے؟ اگر انفرادی طور پر ہر شخص کو حق دفاع شخصی حاصل ہے اور حملہ آور کے خلاف طاقت کا استعمال اس کے لیے جائز ہے تو کئی افراد مل کر ایک دوسرے کے حقوق کا دفاع کیوں نہیں کرسکیں گے؟

جنرل اسمبلی کی قراردادوں، بالخصوص ”جارحیت کی تعریف“ کی قرارداد میں آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کو ”جارحیت“ کی تعریف سے مستثنی کیا گیا ہے لیکن اس مقصد کے لیے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون، بالخصوص اقوام متحدہ کے منشور اور ”بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے اعلان 1970ء“ کے مطابق ہو۔ بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے منشور اور مذکورہ اعلان کے تحت طاقت کے استعمال کے جواز کے لیے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل امور کا لحاظ رکھا جائے:

(۱) تمام متنازعہ امور پر امن ذرائع سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
(۲) طاقت کا استعمال آخری حربے کے طور پر ہو۔ اور
(۳) کسی دوسری ریاست کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے۔

اس آخر الذکر قید کی بنا پر مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کی مدد ناجائز ہے اور وہ اسے ”ریاستی دہشت گردی“ قرار دیتے ہیں۔ تاہم بین الاقوامی قانون نے طے کیا ہے کہ مندرجہ ذیل گروہوں کی جدوجہد ریاستوں کا اندرونی معاملہ نہیں ہے:

(ا) قابض طاقتوں کے زیر تسلط لوگ؛
(۲) غیر وں کے زیرتسلط لوگ؛ اور
(۳) ایسے لوگ جن کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حق خود ارادیت تسلیم کیا ہو۔

پس ریاستی دہشت گردی یہ نہیں کہ ان گروہوں کی جدوجہد آزادی میں ان کی مدد کی جائے، بلکہ یہ ہے کہ ان کے خلاف طاقت استعمال کی جائے۔
ثالثاً: مظلوم افراد کی مادی مدد

جہاں تک ایسی صورت میں مظلوم افراد کی مادی امداد کا تعلق ہے تو سلامتی کونسل کو اس قسم کی کارروائی کا قانونی اختیار حاصل ہے۔ چنانچہ منشور کی دفعہ39 کے تحت سلامتی کونسل کو اختیار ہے کہ اگر وہ یہ سمجھے کہ کسی ملک سے دنیا کے امن کو خطرہ ہے تو وہ اس کے خلاف فوجی کاروائی کرسکتی ہے۔ یہ بات بھی بین الاقوامی قانون کے تحت مسلمہ ہے کہ ”دنیا کے امن کو خطرہ“ کسی ملک کی حکومت کی جانب سے اپنی رعایا پر ظلم یا کسی ملک کے اندر جاری خانہ جنگی سے بھی ہوسکتا ہے۔

کیا سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر کوئی کوئی ملک انفرادی طور ان لوگوں کو فوجی مدد دے سکتا ہے ؟

یہ بین الاقوامی قانون کا متنازعہ مسئلہ ہے ۔ بعض ممالک اس کے قائل ہیں کہ ”انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوجی مداخلت“ (Humanitarian Intervention) کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اجازت لازمی نہیں ہے۔ اس پر الگ سے تفصیلی بحث کی ضرورت ہے ۔

آزادی کے لیے لڑنے والوں پر لازم ہوگا کہ وہ آداب القتال کے متعلق بین الاقوامی قانون کی پابندی کریں۔ ان قواعد وہ آداب کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے لیکن ان میں چند اہم یہ ہیں:

(۱) شہری آبادی اور تنصیبات (ہسپتالوں، سکولوں وغیرہ) کو نشانہ نہ بنایا جائے؛ صرف جنگجوؤں اورجنگی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے تنصیبات اور ٹھکانوں کو ہی نشانہ بنایا جائے۔
(۲) خطرے کی مناسبت سے طاقت استعمال کی جائے؛
(۳) زخمیوں، ہتھیار ڈالنے والوں اور قیدیوں کا خیال رکھا جائے؛
(۴) غدر کا ارتکاب نہ کیا جائے؛
(۵) کیمیاوی، حیاتیاتی اور ایٹمی ہتھیار اور گیسیں نہ استعمال کی جائیں۔

ان میں کسی قاعدے کی خلاف ورزی سے طاقت کا استعمال دہشت گردی میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ آزادی کے لیے لڑنے والے بھی دہشت گردی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ دہشت گردی کا ارتکاب صرف آزادی کے لیے لڑنے والے ہی نہیں کرتے۔ پس آزادی کی جنگ اور دہشت گردی میں نہ لازم و ملزوم کا تعلق ہے (کہ آزادی کے لیے لڑنے والا لازماً دہشت گرد کہلائے)، نہ ہی یہ ایک دوسرے کے متضاد ہیں (کہ آزادی کے لیے لڑنے والے کو بہر صورت دہشت گردکی تعریف سے باہر سمجھا جائے)۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے