احمد جاوید صاحب اپنے فکری پایے کے اعتبار سے ہمارے دور کی چند غیر معمولی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ حسن طبیعت اور بلندی کردار اس پر مستزاد ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک ان کی علمی وجاہت اور دانش ورانہ علو مرتبہ کا تعارف واعتراف انھیں شخصی طور پر جاننے والے ایک مخصوص حلقے تک محدود تھا، کیونکہ وہ معروف معنوں میں کوئی بڑے مصنف یا کسی بڑے جامعہ میں استاذ نہیں رہے۔ تاہم اب صورت حال بحمد اللہ کافی مختلف ہے۔
ان کے علمی متوسلین اور قدر دانوں کے محدود حلقے نے ان سے استفادہ کا سلسلہ گذشتہ کئی سال سے جاری رکھا ہوا ہے اور علمی وفکری موضوعات پر ان کی سیکڑوں گفتگووں کا ریکارڈ محفوظ ہے جسے صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کا قابل قدر کام بھی محمد دین جوہر صاحب اور ان کا حلقہ کر رہا ہے۔ اب بعض دوسرے علمی فورم اور ادارے بھی ان سے استفادہ کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور اقبال مرکز اسلام آباد کے زیر اہتمام خطبات اقبال پر ان کی تدریسی کلاس کا اہتمام اسی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔
احمد جاوید صاحب سے استفادہ کی خواہش رکھنے والے حضرات کو دو چیزیں لازماً پیش نظر رکھنی چاہییں۔
ایک تو یہ کہ وہ مشکل زبان بولتے ہیں اور یہ تکلفاً نہیں ہوتا، بلکہ ان کے انداز فکر اور فکری سطح کے لحاظ سے اظہار خیال کا ایک فطری پیرایہ ہوتا ہے۔ وہ اس میں مخاطب کی سطح کی رعایت کے بھی خاص قائل نہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو بات جس سطح پر جس پیرایہ اظہار کی متقاضی ہے، اسے اس سے کم تر سطح پر بیان کرنا غیر علمی رویہ ہے۔ کئی سال قبل ایک نشست میں انھوں نے علم نفسیات سے متعلق کوئی بات کہی۔ اس نشست میں ڈاکٹر محمد فاروق خان مرحوم بھی موجود تھے جو خود ایک ماہر نفسیات تھے۔ انھیں وہ بات سمجھنے میں کچھ مشکل درپیش ہوئی۔ بعد میں انھوں نے سوال کیا کہ آپ نے جو بات کہی تو کیا اس سے مراد یہ تھی؟ احمد جاوید صاحب نے مسکرا کر کہا کہ اگر آپ یہی مراد سمجھے ہیں اور اس پر کوئی اعتراض نہیں تو یہی تھی۔ اور اگر اعتراض ہے تو میں مراد بدل کر پیش کر دیتا ہوں۔
دوسری یہ کہ وہ مختلف فلسفیوں اور اہل فکر کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ان کے افکار کی ’’سادہ ترجمانی’’ نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنا ایک پورا نظام فکر رکھتے ہیں اور اس نظام فکر میں کسی بھی فلسفی یا مفکر کے نظریات کا جو بھی مقام یا معنویت بنتی ہے، اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ چنانچہ مثال کے طور پر فلسفے میں افلاطون کے کنٹری بیوشن پر ان کی گفتگو عام معنوں میں افلاطون کے نظریات کی تشریح نہیں ہوگی، بلکہ دراصل ان کی معنویت سے متعلق خود احمد جاوید صاحب کے نظریات کی وضاحت ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیر بحث اہل فکر اور ان کے نظریات کی ایک سادہ تاریخی تفہیم سامعین کو الگ سے اور پیشگی حاصل ہونی چاہیے، کیونکہ احمد جاوید صاحب اپنی گفتگو میں مبتدیوں کے لیے اس سادہ تفہیم کا کام عموماً نہیں کرتے۔