اس کا نعرہ ، اس کا جھنڈا

قتل کے جعلی مقدمے میں اسے پھانسی دے دی گئی ۔ اس پھانسی کو عدالتی تاریخ کا قتل قرار دیا گیا ۔ جنازے پڑھنے کی اجازت بھی نہیں تھی ۔ جنازے کے بارے میں مذاق اڑائے گئے ، اس کی مسلمانی کو بے توقیر کیا گیا ۔ اس کی بیٹی اپنے باپ سے ملنے کیلئے ٹکے ٹکے کے لوگوں کی منتیں کرتی رہی ۔

دنیا حیران تھی کیی یہ سب کیا ہوگیا ۔ لمحوں نے ابھی زخموں پر کوئی مرہم بھی نہیں لگایا تھا کہ اس کے بیٹے کو قتل کر دیا گیا ۔ باپ کے بعد بیٹے کی لاش نے جذبات کی دنیا تہہ وبالا کردی..

یہ لاہور ہے ، آمریت کی تپتی دوپہر میں اس کی بیوہ کے سر پہ باوردی اہلکاروں نے ڈنڈے مارے ۔ وہ تڑپتی رہی ، اس کے پھٹے سر سے بہتا خون پوری قوم نے دیکھا ۔ وہ لاشیں قبول کرتے کرتے تھک گئی ، مار کھاتے کھاتے اور جیلوں میں جاتے جاتے اس کی برداشت ختم ہو گئی ۔ آخر اس کے ہوش و حواس جواب دے گئے اور وہ بستر پہ لگ گئی ۔ ایک دن مر گئی لیکن یوں مری کہ اسکی چہیتی بیٹی کو مرے تین برس ہو گئے تھے اور اسے علم ہی نہیں تھا کہ اس کی بیٹی مر گئی ہے ۔

اس کی بیٹی نے ڈنڈے کھائے ،کم عمری میں جیل دیکھی ،فتویٰ گردی برداشت کی ، اس کی ایک کارکن کے ساتھ حاضر سروس ڈی ایس پی نے کراچی کے ایک تھانے میں ریپ کیا ،لیکن اس نے اس کا ساتھ نہیں چھوڑا ، اس کے جیالوں نے کوڑے کھائے ۔ جیلیں دیکھیں ، ڈرموں میں ڈال کر انہیں سڑکوں پر لڑھکایا جاتا اور باوردی سپاہی تماشے دیکھتے،قہقے لگاتے رہتے ۔

اس کی بیٹی مسلم دنیا کی پہلی وزیر اعظم بنی تو اس کے خلاف پورے ملک کے سارے بونے کھڑے کر دیے گئے ۔ کسی نے اس کی حکومت کو ناجائز اور غیر شرعی قرار دیا ۔ کسی نے اس کو عورت ہونے کی وجہ سے طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا ، کسی نے اسمبلی میں کھڑے ہوکر اس پہ فقرے کسے ۔ وہ ہنستی مسکراتی رہی اور الزام سہتی رہی ۔

ایک روز اسے خبر ملی کہ اس کے بھائی کو ، اس کی حکومت میں ، اس کے گھر کے سامنے قتل کر دیا گیا ہے ۔وہ تین قبروں کے درمیان بیٹھ کو خوب روئی ۔ دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کی سب سے باوقار اور طاقتور خاتون اپنے باپ ، بھائی کے قبروں کے درمیان کتنی نہتی ، کمزور اور بے بس تھی ۔ اس کے آنسو ، اس کا ماتم اس کے اپنے ہی سمجھ سکتے تھے ۔ ان کا اس پر ایمان مزید مضبوط ہوگیا ۔

ابھی اس کے آنسو خشک نہیں ہو پائے تھے کہ اس پر کرپشن کا الزام لگا کر صادقوں اور امینوں سے "لتھڑی” لعینوں کی سپاہ نے اسے اقتدار سے الگ کر دیا ۔ اس کے خاوند کو جیل ہو گئی ۔ وہ بچوں کو انگلی سے لگائے روز سنٹرل جیل کراچی جاتی اور سلاخوں کے پیچھے اپنے خاوند کو سلام کر کے آنسو بہاتی ،چہرے پہ مصنوعی اور جھوٹی مسکراہٹ سجائے واپس آ جاتی ۔

ملک میں ایک بار پھر آمریت کی سیاہ رات آگئی ۔ اس کی بھی کیا زندگی تھی ،،، ضیاٗ کی آمریت کی خوفناک اور کالی رات سے مشرف آمریت کی گھٹیا سیاہ رات کے درمیان پسی ہوئی ۔ وردی والوں نے اس پر سیکورٹی رسک کے الزام لگائے ، وہ ملک چھوڑ کر چلی گئی ۔ آمر نے کہا کہ وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتی ، اس کے عوام میں رہنے پر پابندی عائد کر دی گئی لیکن وہ ان آمروں کی "طاقت” اور طاقت کے "مراکز” جانتی تھی ۔

یہ 2007 تھا ، میری زندگی کا عجیب ترین سال ، میں آج بھی سوچتا ہوں کہ کیا سقوط پاکستان کے بعد پاکستان میں 2007 سے بڑھ کر بھی کوئی منحوس سال آئے گا ؟ ۔

لوگ کہہ رہے تھے کہ بلوچستان ٹوٹ جائے گا ۔ آوازیں آرہی تھیں کہ فاٹا پاکستان کا حصہ نہیں رہے گا ۔ ہم سن رہے تھے کہ سندھ میں بغاوت کی تحریک جڑیں پکڑ رہی ہے ۔ میں نے تربت ، مند ، پنجگور ، گوادر میں جاکر لوگوں کو خود سنا اور دیکھا کہ کہ وہ آزاد بلوچستان کے جھنڈے لہرا رہے تھے ۔

وہ بھی سب دیکھ رہی تھی ، سب سن رہی تھی ۔۔ محبتوں کی پیاسی زمین نے اسے آواز دی ، تیس لاکھ لوگوں کاجم غفیر کراچی کی سرزمین پر اس کے استقبال کیلئے امڈ آیا ۔ وہ اصل سونامی تھا جس میں ملائیت کے سہارے کھڑا آمریت کا باوردی چراغ ٹمٹا رہا تھا ، آمر نے سونامی کی لہروں میں اپنی موت دیکھ لی تھی ۔

کراچی میں دھماکہ کرکے اسے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا لیکن وہ بھاگنے کے بجائے اپنوں کی لاشوں کے سرھانے جا کر کھڑی ہو گئی ، اس نے اگلا سارا دن قبرستانوں اور اسپتالوں میں گذارا ۔ وہ جس ماں اور بہن کو سینے سے لگاتی، اس کا چوبیس گھنٹے ماتم کرتا سینہ لوگوں کے دکھ درد بھلا دیتا تھا ۔ اس نے اس ننگی بدمعاشی کے باوجود پاکستان نہیں چھوڑا ۔

اس ملک پر عجیب سا وقت تھا ، وردی والے اس روسیاہ قبضہ گیر حکمران کے ساتھ تھے ، جبہ ودستار اس کے ساتھ تھے ، آج پاکستان توڑنے کی باتیں کرنے والے اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے والے اس کے ساتھ تھے ۔ وہ ان سب سے توانائی حاصل کر بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارتا تھا اور پھر فضا میں مکے لہراتا تھا ۔

ان حالات میں اسے ہر روز موت کی دھمکی ملتی اور وہ ہر روز موت کیلئے تیار ہو کر گھر سے نکلتی تھی ۔ وہ بدلی ہوئی تھی لیکن بد دل نہیں تھی ۔ وہ سیاست کیلئے نہیں ،اس وقت ریاست بچانے کیلئے آئی تھی جب ریاست کو اس کی ضرورت تھی ۔

روایتیں کہتی ہیں کہ نیل بہنے کیلئے ہر دس سال بعد ایک نوجوان لڑکے کی لاش مانگتا تھا ۔ یہ ملک بھی متحد رہنے کیلئے ہر دس سال بعد اس خاندان سے ایک لاش ضرور لیتا ہے ۔

اس نے کہا کہ تھا کہ جہاں جہاں سے پاکستان کا جھنڈا اترا ہے ، میں وہاں وہاں پاکستان کا جھنڈا لہرا کر رہوں گی ۔ جرنیلوں کی وجہ سے اس ملک کے جھنڈے اتر گئے تھے اور ایک "غدار” ، سیکورٹی رسک جھنڈے لہرا رہی تھی ۔ اس نے بونوں کا للکارا، پاکستان کا جھنڈا روز ہاتھ میں لیکر نکلتی اور ایک روز اپنی زمین پر، اپنے لوگوں کے ساتھ ، اپنے لوگوں کے درمیان مر گئی۔

اس کا جنازہ سامنے رکھا تھا ، شام ہو رہی تھی ، سورج ڈوب رہا تھا ، پوری دنیا کی آنکھوں میں آنسو تھے ، کون تھا جس کا دل دکھی نہ ہو ، آج وہ گئی تو ان کو بھی اپنی اپنی لگ رہی تھی جنہوں نے کبھی اپنے دل کو ٹٹول کر نہیں دیکھا تھا کہ وہ ان کے دل کے تہوں میں بستی ہے ۔ غم کا ایک پہاڑ تھا جو برداشت سے باہر تھا ۔

اس دوران کسی نے ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺳﻨﺪﮪ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻻﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺤﻔﮯ ﮨﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﯾﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺳﻨﺪﮪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻇﻠﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﯾﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﯿﮯ ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻤﻠﮧ ﭘﻮﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺷﮩﯿﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﺗﮭﺎﻣﮯ ، ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﯼ، ﺍﭘﻨﯽ ﺷﮩﯿﺪ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﻻﺵ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﭩﮭﺎ، ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭼﯿﺨﺎ ﮐﮧ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮭﭙﮯ ، ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮭﭙﮯ ، ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮭﭙﮯ ۔

ﮐﺴﯽ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻇﻠﻢ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﮩﺎﺩ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﯼٰ ﺩﯾﺎ ، ﮐﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﭘﺮﺳﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻇﻠﻢ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﻟﯿﮑﺮ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮔﯿﺎ ۔ ﮐﭽﮫ ﻣﮩﺎﺟﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﻇﻠﻢ ﮐﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﺮﺩﮦ ﺑﺎﺩ ﮐﮯ ﻧﻌﺮﮮ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺩﮬﺮﺗﯽ ﭘﮧ ﻏﺪﺍﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭨﻮﻟﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﻮﺭﯼ ﻗﯿﺎﺩﺕ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯼ ﻟﯿﮑﻦ ﻧﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﮉﺍ ﮔﺮﻧﮯ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺯﻧﺪﮦ ﺑﺎﺩ ﮐﮯ ﻧﻌﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﺯ ﺁﮰ_

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے