امریکا پاکستان کی فوجی امداد بند کرے، براہمداغ بگٹی

واشنگٹن: بلوچ علیحدگی پسند رہنما براہمداغ بگٹی نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کی فوجی امداد بند کردے اور امید ظاہر کی ہے کہ آنے والی نئی حکومت اوباما انتظامیہ کے برعکس بلوچوں کے مطالبات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے گی۔

واشنگٹن کے نیشنل پریس کلب میں نواب اکبر بگٹی کی برسی کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی سمیت دیگر مقررین نے خطاب کیا جبکہ براہمداغ بگٹی نے جنیوا سے وڈیو لنک کے ذریعے تقریر کی۔

براہمداغ بگٹی نے کہا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور حکومت پاکستان سے بلوچوں کے حقوق پر مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مشکل تو یہ ہے کہ اگر موجودہ حکومت کسی فارمولے پر متفق ہوبھی جائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگلی حکومت یا فوج اس معاہدے کا احترام کرے گی۔


پاکستانی صحافی کی جانب سے اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات پر زور دینے پر براہمداغ بگٹی غصے میں آگئے اور کہا کہ ’یہ سوال آپ ہم سے کیوں پوچھتے ہیں، پاکستانی حکومت اور فوج سے کیوں نہیں پوچھتے اور اگر آپ ان سے پوچھنے کی ہمت نہیں رکھتے تو اس بات کا اعتراف کریں کہ آپ ڈرتے ہیں۔‘

براہمداغ بگٹی نے امید ظاہر کی کہ ہندوستان بلوچستان کے مسئلے کو کشمیر کے معاملے کو دبانے کیلئے استعمال نہیں کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر اور بلوچستان دو مختلف مسائل ہیں جن کا تاریخی پس منظر بھی جدا ہے۔

تقریب میں بڑی تعداد میں انڈین اور پاکستانی افراد کی موجودگی کی وجہ سے ایونٹ میں گرما گرمی بھی دیکھنے میں آئی۔

بعض ہندوستانی شہریوں نے امریکی محکمہ خارجہ کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کی علاقائی خودمختاری اور سالمیت کا احترام کرتا ہے اور بلوچستان کی آزادی کے حوالے سے مطالبات کی حمایت نہیں کرتا۔

اس کے جواب میں تقریب میں موجود پاکستانیوں نے یک آواز ہوکر کہا کہ ’ہم کبھی اپنے ملک کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔‘

تقریب کے منتظمین نے سیمینار میں صحافیوں کے علاوہ کسی کو سوال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی لہٰذا پاکستانی اور انڈین شہریوں نے مقرریں کو چائے کے وقفے کے دوران گھیر لیا۔

حاضرین میں شامل ایک پاکستانی شہری نے حسین حقانی سے چائے کے وقفے پر پوچھا کہ ’آپ کس طرح پاکستان کے لیے امریکی فوجی امداد پر پابندی کا مطالبہ کرسکتے ہیں حالانکہ آپ تو خود ماضی قریب میں امریکا میں پاکستانی سفیر رہے ہیں۔‘

اس بات پر دونوں کے درمیان زبردست بحث شروع ہوگئی اور پھر وہاں موجود دیگر افراد بھی اس بحث میں شریک ہوگئے۔

قبل ازیں براہمداغ بگٹی نے اپنے خطاب میں کہا کہ انہیں امید ہے امریکا میں آئندہ حکومت بلوچوں کے مطالبات کا احترام کرے گی اور پاکستان کی امداد معطل کردے گی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی معاشرے کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی بلوچستان کے لوگوں کی ابتر حالت زار کو نظر انداز کرچکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا میں روزانہ فضول باتوں پر بحث ہوتی ہے لیکن بلوچستان کے مسئلے پر کوئی بات نہیں کرتا، کسی کو ہماری فکر نہیں۔

حسین حقانی کا کہنا تھا کہ بطور پاکستانی میں چاہتا ہوں کہ بلوچستان پاکستان کا ہی حصہ رہے لیکن اگر حکومت کی بھی یہی خواہش ہے تو انہیں بلوچوں کی شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے۔

برطانوی اسکالر پیٹر ٹیچل نے مطالبہ کیا کہ عالمی امدادی ایجنسیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بلوچستان تک رسائی دی جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے