خطرہ باقی ہے

گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں داخلی سلامتی کی صورتحال میں نمایاں بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔ اس سے ملک بھر میں ناصرف امید کی فضا پیدا ہوئی ہے بلکہ شہری علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔2015 کے آغاز سے کوئٹہ، کراچی اور پنجاب میں لشکر جھنگوی کے سرکردہ رہنماؤں کی ہلاکت نیز شدت پسندوں کی تلاش اور ان کے خاتمے کے لیے جاری وسیع کارروائیوں کی بدولت فرقہ وارانہ تشدد کے خطرے میں بھی کمی آئی ہے۔ کم از کم فی الوقت تو ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں فوجی کارروائیوں سے شدت پسندوں کا انفراسٹرکچر اور نیٹ ورک نمایاں طور سے کمزور پڑ گیا ہے۔ ان دونوں علاقوں سے تعلق رکھنے والے بیشتر شدت پسند افغانستان یا فاٹا کی ہمسایہ ایجنسیوں سمیت پاکستان کے دوسرے حصوں میں چلے گئے ہیں۔تاہم فاٹا کے بعض حصوں اور خیبر پختونخوا میں شدت پسند جنگجوؤں کی موجودگی بدستور سیاسی چیلنج اور سلامتی کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔

مثال کے طور پر یہ جنگجو فاٹا کی تمام قبائلی ایجنسیوں میں اپنی موجودگی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹیڈیز کی جانب سے سیکیورٹی کی صورتحال پر جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں سال مئی اور جولائی کے درمیانی عرصہ میں دہشت گردوں نے فاٹا میں 39 حملے کیے۔ان میں آٹھ حملے باجوڑ اور شمالی وزیرستان، سات حملے مہمند اور جنوبی وزیرستان ایجنسی، چھ خیبر ایجنسی اور تین حملے کرم ایجنسی میں ہوئے۔ ان تین ماہ کے دوران اورکزئی ایجنسی میں ایسا کوئی حملہ نہیں ہوا۔

گزشتہ ماہ یہاں شدت پسندوں نے ازسرنو منظم ہونے کی کوشش کی مگر سیکیورٹی فورسز نے ان کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔اسی طرح اگرچہ خیبرپختونخوا میں مجموعی طور پر دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے مگر شمالی اور جنوبی وزیرستان سے ملحقہ اضلاع بدستور دہشت گردی کے نشانے پر ہیں۔ خدشہ ہے کہ شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے شدت پسند جنگجو ان علاقوں میں بھی منظم ہو چکے ہیں جہاں یہ آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں اپنی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کو خاص طور پر خطرہ ہے۔بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری کی رفتار زیادہ تیز نہیں ہے۔ سلامتی کے امور سے متعلق بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تشدد ترک کرنے اور ہتھیار ڈالنے والوں کے لیے معافی کا منصوبہ حالات کو قابو میں لانے میں مددگار ثابت ہو گا۔ اس سکیم کے تحت ہتھیار ڈالنے والوں کو معافی، مالی ترغیبات اور بحالی کی پیشکش کی گئی ہے۔

صوبائی حکومت بھی سیاسی مفاہمت کا عمل شروع کرنے میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔ مگر اس راہ میں بعض مشکلات بھی درپیش ہیں جنہیں متفقہ کوششوں سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔بلوچستان حکومت کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے حال ہی میں خان آف قلات سے لندن میں ملاقات کی مگر انہیں خود ساختہ جلاوطنی ختم کرنے اور پاکستان واپسی کے لیے قائل نہ کیا جا سکا۔ بعدازاں میڈیا میں ایسی اطلاعات بھی آئیں کہ خان آف قلات کا کہنا ہے صرف بلوچ گرینڈ جرگہ ہی انہیں واپس آنے کو کہہ سکتا ہے۔ بعض میڈٰیا رپورٹس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ بلوچستان حکومت یہ آپشن استعمال کرنے پر بھی غور کر رہی ہے۔حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں کراچی نسبتاً پر امن رہا ہے۔ بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ ٹارگٹڈ کارروائیوں سے شدت پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کا انفراسٹرکچر واضح طور پر کمزور ہو گیا ہے۔ سندھ پولیس کی جانب سے صوبائی محکمہ داخلہ کو پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق ‘کراچی میں قتل اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی تعداد کم ترین درجے پر آ گئی ہے’۔ دوسری جانب کراچی اور سندھ میں سیاسی بحران جاری ہے جو وہاں امن و سلامتی کے مستقبل کے لیے اچھا شگون قرار نہیں دیا جا سکتا۔جہاں ملک اسحاق کی ہلاکت کو لشکر جھنگوی پرلگائی گئی کڑی ضرب قرار دیا جا رہا ہے وہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت صوبے میں سرگرم شدت پسند گروہوں کا قلع قمع کرنے میں سنجیدہ ہے۔

قبل ازیں اس پر فرقہ وارانہ گروہوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ملک اسحاق اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکت سے لشکر جھنگوی ناصرف پنجاب اور بلوچستان میں کمزور پڑ جائے گی بلکہ پنجاب میں تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ اور جماعت الاحرار کی کارروائیاں بھی متاثر ہوں گی کہ ان گروہوں کو اپنی سرگرمیوں میں لشکر جھنگوی کا تعاون بھی حاصل تھا۔لشکر جھنگوی کو بلوچستان میں اپنے ایک اور خطرناک دھڑے کے سربراہ عثمان سیف اللہ کرد کی ہلاکت کے بعد پہلے ہی مسائل کا سامنا ہے۔ تنظیم کا یہ دھڑا ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔ بلوچستان میں اب اس دھڑے کی قیادت کرد کے نائب داؤد بادینی کے ہاتھ میں ہے جو طویل عرصہ سے روپوش چلا آ رہا ہے۔کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کے نتیجے میں لشکر جھنگوی کے دو بڑے دھڑے (آصف چھوٹو اور نعیم بخاری گروپ) بھی کمزور ہو چکے ہیں۔ تاہم لشکر جھنگوی کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے پاس اپنی بقا کے لیے سیاسی چھتری سمیت بہت سے طریقے موجود ہیں۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ اب یہ تنظیم ماضی جیسی مضبوط نہیں رہے گی۔فاٹا میں فوجی کارروائی کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان کو بھی بھرپور نقصان پہنچا ہے۔

ٹی ٹی پی کے بڑے حصے بشمول باغی گروہ افغانستان چلے گئے ہیں اور ان کی پاکستان واپسی اور ازسرنو منظم ہونے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ تاہم طالبان افغانستان سے ملحقہ پاکستانی سرحدی علاقوں اور ملک کے دوسرے حصوں میں اپنی چھوٹی تنظیموں اور اتحادی گروہوں کے ذریعے بدستور مسائل کھڑے کرتے رہیں گے۔پاکستان میں بہت سے گروہ جنداللہ کے نام سے کام کر رہے ہیں جن میں مغرب اور شیعہ مخالف ایجنڈے کا حامل کراچی کا بڑا گروہ بھی شامل ہے۔ اس گروہ کو لشکر جھنگوی کا تبدیل شدہ چہرہ بھی کہا جا سکتا ہے جو کہ فرقہ واریت کے حوالے سے انتہائی رحجانات کا حامل ہے۔ یہ گروہ دولت اسلامیہ (آئی ایس) سے متاثر ہیں تاہم یہ القاعدہ اور تحریک طالبان کے دھڑوں کی معاونت سے کارروائیاں کرتے ہیں۔ جماعت الاحرار بھی ایسا ہی گروہ ہے جو مستقبل میں کچھ عرصے کے لیے بدستور خطرہ بنا رہے گا۔

دولت اسلامیہ سے اتحاد کی صورت میں یہ افغانستان میں زیادہ متحرک ہو سکتا ہے جہاں اس تنظیم کا اثرونفوذ بڑھ رہا ہے اور ریاست تاحال کمزور ہے۔اگر افغانستان میں دولت اسلامیہ بڑھتا ہوا خطرہ ہے تو پاکستان میں القاعدہ اسی شدت کا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ عاصم عمر کی قیادت میں القاعدہ کا برصغیر ونگ منتشر تحریک طالبان اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے۔ القاعدہ کا یہ حصہ خطے میں دہشت گرد حملوں کے لیے درکار صلاحیتوں اور وسائل پر خاطر خواہ دسترس رکھتا ہے۔دولت اسلامیہ سے برعکس ‘القاعدہ برصغیر’ علاقے فتح کرنے اور اپنی حکمرانی قائم کرنے جیسے عزائم نہیں رکھتی۔ مگر یہ گروہ خود کو ازسرنو منظم کرنے اور دہشت گردی کی کارروائیاں انجام دینے کے لیے یقینی طور پر محفوظ مقامات کی تلاش میں ہے۔ ایسے میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو مسلسل تہ و بالا کرنا اور ان گروہوں کو دوبارہ منظم ہونے کے لیے جگہ اور وقت نہ دینا پاکستان کے لیے بڑا چیلنج ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے